عید الاضحی کا اُمت مسلمہ کے لیے ایک اہم ترین پیغام یہ ہے کہ اُمت مسلمہ جسد ِواحد کی صورت اختیار کرے، اُمت کی صفوں میں اتحاد و اتفاق قائم ہوجائے، اُمت جملہ ملّی اور دینی مسائل میں یک سو ہوجائے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور الگ الگ نہ ہوجاؤ۔‘‘(سورہ آل عمران۱۰۳)
اللہ کی مدد کے بعد ملّت اسلامیہ کا اتحاد وہ سب سے بڑی قوت ہے جو مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت اور وقار کو بحال کرنے کی ضامن ہے کیونکہ مسلمان رنگ و نسل یا خطے کی بنیاد پر مفادات کو نہیں دیکھتا ہے بلکہ بحیثیت ملت اپنے مسائل کے حل کی طرف متوجہ ہوتا ہے بقول علامہ اقبال ؎
بتانِ رنگ و خوں کوتوڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کے مطابق ایمان کا وجود ممکن نہیں جب تک آپ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کریں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مقدس ہے:’’ اللہ کے بندہ بن کر ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہیں‘‘۔اللہ کی بندگی اختیار کرنے کے بعد ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہیں، ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہوجائیں، ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد و اتفاق کا ایسا مظاہرہ کریں کہ دشمنانِ دین کے سامنے مسلمان ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند کھڑے ہوں لیکن افسوس صد افسوس! ہم دیکھتے ہیں کہ اُمت پر اس وقت جو حکمران مسلط ہیں اُن کو ملت کے مفادات کی نہ کوئی فکر ہے نہ غم بلکہ اُن کا واحد مقصد اُس اقتدار کی کرسی پر براجمان رہناہے، جو وہ باطل کی خدمت کرکے حاصل کرتے ہیں۔عالمی سطح پر جہاں اغیار اُمت کے خلاف صف آراء ہوکر اُنہیں تہ تیغ کرنے میںمتحد ومنظم ہو چکے ہیں ،وہاں درون خانہ اُمت مسلمہ کے بیشتر حکمران اپنے اقتدار کی خاطر اُن کے دست بازو اور معاون ومددگاربن رہے ہیں۔نیز ضمیر فروشوں کا ایک بہت بڑا ٹولہ میں گھر کا بھیدی بن کر اُمت مسلمہ کے برخلاف باطل کا ساتھ دے رہا ہے۔ایک جانب عالمی سطح پر مسلمانوں کا قتل عام بڑے پیمانے پر جاری ہے، دینی شعائر پر حملے ہورہے ہیں، اسلام کے نام لیواؤں کے لیے زمین تنگ کی جارہی ہے، دوسری جانب بدقسمتی سے ہم آپسی سر پھٹول، رسہ کشی ، کینہ توزی میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے، اپنے ذاتی اور حقیر مفادات کے لیے ملت کے اتحاد کا شیرازہ پارہ پارہ کرنے میں خود بھی اُتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنا غیروں کی سازشوں اور شیطانی کاوشوںکا رول رہا ہے۔
ہماری دلی تمنا ہے کہ اُمت مسلمہ عالمی سطح پر یک جٹ ہوجائے ۔ اُمت کی 57؍ ریاستیں ایک ہی جھنڈے تلے جمع ہوجائیں اور عالمی سطح پر جس ناگفتہ بہ صورت حال کا سامنا مسلمانوں کو ہے، اُس سے نکل باہر آنے کے لیے مسلمان از روئے اسلام کندھے سے کندھا ملاکر کام کریں۔ اتحاد و اتفاق کے لیے لازمی ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں اور ہر جگہ مقامی سطح سے اس کا آغاز ہوجانا چاہیے۔ اُمت مسلمہ کے عالمی سطح کے اتحاد و یک روئی میں ہمارا رول یہ ہوسکتا ہے کہ ہم مقامی سطح پر یعنی ریاست جموں وکشمیر میںمتحد ہوجائیں۔ اس ضمن میں مسلکی، مکتبی، گروہی،فروعی اختلافات اور موانع سے اُوپر اُٹھ کر اسلام کی سربلندی کے لیے ایک دوسرے کے دست و بازو اور بھائی بند بن جائیں۔ اپنے سیاسی ، سماجی ، تمدنی او ر تہذیبی معاملات کے حوالے سے از خود مشترکہ بھلائی کے زاویہ ٔ نگاہ سے سوچیں ، اپنے طویل المدت مسائل کو سمجھیں اور سب مل کر اُن کے اَحسن حل کی کوششوں میں اپنا اپنا مثبت کردار ادا کریں۔اس زمانے میں وہ لوگ کسی بھی حیثیت سے اُمت کے دوست یا خیرخواہ نہیں ہوسکتے ہیں جو معمولی باتوں اور جزوی اختلافات کو ہوا دے کر مسلمانوں کی صفوں میں دوریاں اور دراڑیں پیدا کرنے کا کام کرتے ہوں۔بحیثیت ملت و قوم جن حالات کا ہمیں مشترکہ طور سامنا ہے ،اُن سے گلوخلاصی کے لئے اللہ پر کامل ایمان کے ساتھ رجوع الیٰ اللہ کرنے اور اتحاد کی رسی کو پکڑنے کی اشد ضرورت ہے۔دینی حلقوں کے درمیان آپسی تال میل اس سلسلے کی لازمی اور اہم کڑی ہے، کیونکہ دینی حلقے ہی سماج کی مختلف معاملات میں رہنمائی کرتے ہیں۔اختلافی اور جزوی مسائل میں الجھنے کے بجائے ہمارے سامنے ایسے سینکڑوں مسائلِ حیات پڑے ہیں جن پر اگر فوری توجہ مرکوز نہیں کی گئی تو مستقبل میں ہماری دینی شناخت ہی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ملی اتحاد ہم پر اس دور ِ پُر آشوب میں دینی شعائر کو بچانے کی خاطر، اسلامی عقائدو شرعی احکامات کے تحفظ کے لیے اور ایمانی قوت مضبوط بنائے رکھنے کے لیے لازم وملزوم ہے۔ایمان کے اہم ترین تقاضوں میں ایک یہ بھی ہے کہ مسلمان ہر حال میں آپسی تعلق وقربت کے لحاظ سے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند ہونے چاہیے، اسلام کی سربلندی اور دعوت دین کے لیے اُن میں یکسوئی ہونی چاہیے، ملّی مسائل کے تئیں ان کی سوچ ایک جیسی ہونی چاہیے۔
جس خطۂ زمین پر ہم رہتے ہیں وہاں ہمیں بہت ساری مشکلات اور مصائب کا مدتوں سے سامنا ہے۔ بحیثیت مجموعی ہماری قوم پچھلے سات دہائیوں سے بالعموم اور گزشتہ تین دہائیوں سے بالخصوص سیاسی جدوجہد کی پاداش میں سختیاں اور تکالیف برداشت کررہی ہے۔ ہمارے نونہالوں کو مارا جارہا ہے، گزشتہ برس سے ہی سینکڑوں نوجوان کو بے دردی کے ساتھ موت کی ابدی نیند سلا دیاگیا اور ہزاروں کو بڑی ہی بے رحمی کے ساتھ زخمی کردیا گیا ،سینکڑوں نوجوان اور عمر رسیدہ مسلمان جیل خانوں میں مقید ہیں،اظہارِ رائے کے حق سے پوری نسل کو محروم کیا جارہا ہے، اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرنے کی یہاں کسی کو اجازت ہی نہیں ہے۔ اس صورت حال میں ہمارے لیے لازمی بن چکا ہے کہ ہم اپنی بات دنیا کے سامنے متحداور یک زبان ہوکر رکھیں، ایک آواز بن کر دنیا سے پوچھیں کہ اگرحق خود ارادیت ہمارے لیے عالمی ادارے اور دنیائے ا نسانیت کی جانب سے باضابطہ طور تسلیم شدہ حق ہے تو اس حق کی مانگ کرنے کا صلہ ہمیں گولیوں اور سولیوں سے کیوں مل رہا ہے؟ بہر صورت ملی وحدت کے ذریعے ہی ہم موجودہ پریشان کن اور جان لیوا صورت حال سے نکل باہر آسکتے ہیں اور اپنی بات دنیا کے سامنے اَحسن طریقے سے رکھ سکتے ہیں۔
بحیثیت مجموعی ایک بات کا ہمیں بخوبی ادراک ہونا چاہیے کہ اسلام ہی ہماری اصل اور واحدپہچان ہے۔ دین مبین پر ثابت قدم رہنا وقت کا تقاضا ہے اور اپنے جملہ معاملات میں دین سے رجوع کرنے سے ہی ہم اپنی کھوئی ہی عزت، وقار اور شانِ رفتہ کو بحال کرسکتے ہیں۔عالمی سطح پر اسلام کے خلاف زہر ناک سازشیں ہورہی ہیں۔ مسلمان کے جسم سے روحِ دین نکالنے کے لیے طرح طرح کے اوچھے حربے آزمائے جارہے ہیں،دینی شعائر پر حملے کئے جاتے ہیں، اسلام کے قانون تعزیرات کو نعوذ باللہ ظلم وجبر پر مبنی قرار دیا جارہا ہے، قانونِ وراثت اور طلاق جیسے حساس عائلی معاملوں میں کھلی مداخلتیں کی جارہی ہیں اور نام نہاد قانون سازی کرکے مسلمانوں کو جبراً انسان کے بنائے ہوئے فرسودہ اور بے ڈھب قوانین اختیار کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔اسلام دشمن طاقتوں کی ان تمام ریشہ دوانیوں کا جواب یہی ہوسکتا ہے کہ ہم دین کو بحیثیت دین اختیار کریں، دین حق کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائیں اور غیر مسلم اقوام کو اسلام کے آفاقی نظام سے روشناس کرانے کے لیے دعوتِ دین کا کام بڑے پیمانے پر کریں۔ نیز اسلام کے حوالے سے معذرت خوانہ طرز عمل ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ صفائیاں پیش کرنے کے بجائے دنیا کے سامنے دین پیش کرنے کی ضرورت ہے۔دین کی رسی کو جس دن ہم نے خلوص واستقامت کے ساتھ پکڑ لیا، سمجھ لینا چاہیے کہ اُس دن سے ہی حالات ہمارے حق میں تبدیل ہونا شروع ہوجائیں گے۔ مسلمان پھر سے دنیا کی امامت کے منصب پر فائز ہوجانا شروع ہوجائیں گے۔
عید قربان عالم کے جملہ مسلمانوں کو ایک عظیم مقصد کی خاطر متحد و متفق ہونے کا سبق فراہم کرتی ہے۔ اُمت جس عظیم نصب العین کے لیے وجود پذیر ہو چکی ہے، اُس کی بنیاد پر متحد و متفق ہونا، کوئی مشکل کام نہیں البتہ خلوص، متانت اور لگن کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی تمام اُمت کو ایک دیکھنے کی متمنی ہے اور اس کے لیے اس نے آج تک بہت کوششیں کی ہیں اور آئندہ بھی اللہ کے فضل و کرم سے یہ کوششیں جاری رکھے گی۔ اس کے لیے یہاں کے علماء کرام اور دانشور حضرات سے بھی تعاون کی مخلصانہ اپیل کرتی ہے۔ اپنی بات ختم کرنے سے پہلے تمام مسلمانوں کو بہ صمیم قلب عید مبارک پیش کر تے ہوئے میری مودبانہ اپیل ہے کہ ہمیں اپنے گردوپیش کے ان افراد کو کبھی بھی فراموش نہیں کر نا چاہیے جو ناساز حالات کے ستم رسیدہ ہیں ،اُن کی دل جوئی کرنا ہم پرایک دینی اور اجتماعی فرض ہے ۔