جموں //جموں چیمبر آف کامرس و انڈسٹری نے بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری رام مادھو کوتنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ وہ ایمز کے معاملے میں عوام کو گمراہ نہ کریں ۔ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیمبر کے صدر راکیش گپتا نے کہاکہ ایمز جموں کے عوام کی جدوجہد سے ملا اور اس حوالے سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش نہ کی جائے ۔واضح رہے کہ گزشتہ روز رام مادھو نے اس بات کا دعویٰ کیاتھاکہ بی جے پی نے ریاست کو دو ایمز دیئے ۔مادھو کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے راکیش گپتا نے کہا’’میں ہر ایک کو یہ یاد دلاناچاہتاہوں کہ بی جے پی نے ایمزکو منظوری نہیں دی بلکہ اس ادارے کی منظوری جموں کے لوگوں کی 24اپریل 2015کوشروع ہوئی متحد جدوجہد کے بعد ہوئی اور سب سے پہلے جموں چیمبر نے بند کی کال دی اور پھر ایمز کوآرڈی نیشن کمیٹی نے اس جدوجہد کی قیادت کی‘‘۔گپتا کاکہناتھاکہ سیاسی لیڈران عوام کو اندرونی اور قومی سلامتی سے متعلق بیانات دے کر گمراہ نہ کریں اور سلامتی کی ذمہ داری کاکام سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں پر رہنے دیاجائے جو ہر روز قربانیاں پیش کررہے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ سیاسی جماعتیں عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دیں اور جموں چیمبر کی طرف سے اٹھائے گئے معاملات کو سیاسی رنگت دینے کی کوشش نہ کی جائے ۔پریس کانفرنس کے دوران راکیش گپتا نے مرکزی حکومت سے ایک قوم ایک ٹیکس اور ڈرائی پورٹ لاجسٹکس پارک پر وضاحت طلب کی ۔انہوں نے کہا’’وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ٹیکس ایک قوم کا وعدہ کیاتھا جسے پورے ملک میں اپنایاگیا تاہم جموں و کشمیر ریاستی انتظامیہ کے سنگدل رویہ کی وجہ سے اس سے باہر رہ گئی اور انتظامیہ نے ریاستی ٹول ٹیکس کے نام پر لکھنپور کے مقام پر ریاست کے عام شہریوں پر800سے 900کروڑ کا اضافی بوجھ ڈالاجس کے نتیجہ میں ٹرانسپورٹیشن قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا جو افراط زر اور کرپشن کا سبب بنی ‘‘۔گپتاکاکہناتھاکہ ریاست کو حاصل خصوصی تشخص عوام کی بہبود کیلئے ہے نہ کہ سزا کیلئے ۔انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے جموں وکشمیر کیلئے دو ڈرائی پورٹس کا وعدہ کیاتھا اور گزشتہ برس وزیر اعظم اور دبئی کے بادشاہ کی موجودگی میں ریاستی سرکار اور دبئی پورٹس کے درمیان سانبہ اور اوم پورہ میں یہ پورٹ قائم کرنے کیلئے مفاہمتی یاداشت پر دستخط بھی کئے گئے تاہم ایک سال بیت جانے کے باوجود اس سلسلے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ‘‘۔گپتا نے کہاکہ اس پروجیکٹ کو شروع کرنے میں تاخیر سے نہ صرف عام شہری نقصان اٹھارہے ہیں بلکہ تجارت سے جڑے لوگوں کو بھی متاثر ہوناپڑرہاہے ۔ان کاکہناتھا’’براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے ہزاروں کروڑ روپے اور ہزاروں کی تعداد میںہنر ونیم ہنرمندی والے روزگار کا نقصان ہواہے ، ایک طرف محنت کش طبقہ روزگار کی تلاش میں دیگر ریاستوں کو جارہاہے تودوسری طرف ریاست کے تعلیم یافتہ نوجوان مایوس ہوکر منشیات یا پھر تشدد کا راستہ اختیار کررہے ہیں جو بہت ہی بدقسمتی کی بات ہے ‘‘۔