رشید پروینؔ سوپور
کئی پرائیویٹ ، یعنی نجی تعلیمی اداروں کے علاوہ کئی ایسے چیریٹیبل ادارے بھی ہیں ،جن کے انیول ڈے ، میں شرکت کے مواقع میسر آتے رہے ہیں ، اب تک کبھی کسی ادارے کے متعلق کچھ لکھنے کی نہ تو خواہش ہوئی اورنہ مناسب ہی سمجھا ، لیکن پچھلے دو برس سے متواتر اس ادارے کی جو بنیادی طور پر ایسے بچوں کا جائے مسکن اور رہائش گاہ ہے ، جو یاتو یتیم ہیں یا جن کے والدین ان کی پرورش اور تعلیم کا بوجھ اپنے کندھوں پر نہیں سہار سکتے یا کسی اور معقول وجہ سے یہاں اپنا معصوم لڑکپن گذارنے کے ساتھ ساتھ تعلیم پانے کے لئے دارالسلام یا دارالمظفر کے مکین ہوکر رہ گئے ہیں۔ ’’دارالسلام ، سلامتی کا گھر‘‘ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ گھر یا جائے مسکن ہمیں کشمیر کے اس عظیم ماہر تعلیم کی یاد بھی دلاتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں کالج طلبا کو اپنی ٹھنڈی اور مدھر چھاؤں میں پرورش کر کے زمانے کی دھوپ چھاؤں کے لئے تیا رکیا ، جس سے آج تک عبدالسلام دار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، یہ سوپور کالج کے پرنسپل ایک مدت تک رہے اور اپنی جگہ پر ایک منفرد اور بے مثال شخصیت تھی ۔ میرے نصیب میں اس کا دور نہیں تھا کیونکہ اس زمانے میں ، میں ہائیر سیکنڈری میں ہی زیر تعلیم تھا۔ اور دوسرا orphanageدارالمظفر بارہمولہ ہے، جہاں اسی طرح کی طالبات رہا ئش پذیر ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ طالبات کا جائے مسکن پروفیسر ، ریٹائرڈ پرنسپل محترم مظفر صاحب وار سے منسوب ہے جو اس وقت پی ای ٹی کے سر پرست اعلیٰ ہیں۔یہ صاحب پرنسپل عبدالسلام دار کے ہم نوالہ و ہم پیالہ رہے ہیں، اس سے پہلے کہ میں وضاحت کردوں کہ کیوں میں اس ادارے سے متاثر ہوا ، کیوں اس پر یہ چند سطور لکھنا ایک طرح کا فرض سمجھتا ہوں اور کون سے محرکات ہیں کہ اس ادارے سے تعاون کیا جائے۔ اس شخص کا تعارف ناگزیر بنتا ہے جس نے کشمیر کے پروفیسراں اور اپنے اپنے دور کے کلیدی مختلف ڈیپارٹمنٹوں سے چیدہ چیدہ اشخاص کو ایک جگہ جمع کیا اور اس کہکشاں میں خود اپنے وجود کو بھی معدوم کرکے ایک طرح کی خوشی اور مسرت حاصل کی، آج بھی جب اس ادارے کے تعارفی کتابچے میں اس کا نام سب سے آخر میں درج رہتا ہے اورخاص فنکشنوں میںبھی کسی پچھلی سیٹ پر خاموش ا طمینان اور سکون کے ساتھ بیٹھا رہتا ہے اور کبھی شاید اس بات کا گلہ بھی نہیں کرتا کہ اب مجھے اس اتنے بڑے ٹرسٹ میںجو ایک تناور درخت کا روپ دھار چکاہے ،کی چھاؤں میں وہ مقام نہیں دیا جاتا، جس کا میں حق دار ہوں۔ یہ ایک مریل سا ، دُبلا پتلا ، بے جان سا، شخص ہے جس سے میں نے کئی بار دیکھا تھا ، جس نے میرے ساتھ کئی ملاقاتیں کی تھیں اور جس کی شدید خواہش تھی کہ ایک یتیم خانہ بنایا جائے ۔ یہ شاید اسی کی دہائی سے پہلے کی بات ہے ، لیکن اس شخص کا ڈیل ڈول چہرہ ، شکل و صورت اور بلکل بیمار ساجسم دیکھ کر سوپور کے کئی اشخاص جن میں ، میں بھی ایک تھا، اس کے منصوبے اور اس کے فکرو خیال کو ’’شیخ چلی ‘‘کے کسی خواب سے ہی تشبیہہ دے کر اس شخص سے ہی جان چھڑانے میں اپنی عافیت سمجھتے تھے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں اس کمزور سے ، ناتواں اور نحیف سے شخص کے اند رپنپتے ہوئے اس عزم صمیم کو نہیں دیکھ پایا اور مجھ پر ہی کیا موقوف کوئی بھی اس کے عزم کی مضبوطی ، ارادے کی پختگی اوراعتماد کامل کا اندازہ نہیں کر سکا تھا ،اس لئے سوپور کے اندر کوئی اس شخص کا ساتھ دینے اس کے ساتھ ہمقدم ہونے یا اس کے خیالات سے اتفاق نہیں کر پایا۔ آگے اپنی زندگی کے مزید کچھ سال گذارنے کے دوران اس شخص نے آخر پر مرحوم عبدالسلام دار کا دامن شفقت پکڑا۔ ان کے گھر جاتے رہے ، وہ بھی کتراتے رہے ، دور بھاگتے رہے ، اس خیال کو بار بار ذہن سے جھٹکتے رہے ، کیونکہ یہ خیال جو شخص پیش کر رہا تھا ، وہ ہر طرح سے نادار تھا ، اگرچہ وہ پرائمری یا مڈل سکول میں بحیثیت ایک استادکے بھی فرائض انجام دے رہا تھا اور دوسرے اساتذہ کی طرح اپنی زندگی کے لئے وہی عام فہم سا راستہ اختیار کر لیتا جو کیا جاتا ہے ، لیکن اس میں کوئی بات ایسی ضرور تھی جو عام لوگوں میں نہیں ہوتی ۔ وہ سوتے جاگتے مفلس، یتیموںاور ناداروں کے بارے میں سوچ سوچ کر خود کو مزید ہلکان کر رہا تھا۔ میرے خیال میں شاید وہ خود یتیم رہا تھا ، یا غربت کی بھٹی میں لڑکپن سے تپتا رہا تھا یا کوئی وجہ رہی ہوگی لیکن وہ اپنے آپ کو( غریب ڈاکٹر) کہلانا پسند کرتا تھا اور میرے خیال میں اس نے ایک کتابچہ بھی چھاپا تھا ،جو میری نظروں سے گذرا ضرور ہے لیکن پڑھا نہیں ہے ، جس پر یہی نام درج تھااور جس سے بہت سارے لوگ جن سے وہ روز ملتا تھا، اس کتابچے کو پڑھنا تو دور اس سے دیکھنے کی زحمت بھی گوارانہیں کرتے تھے، اس عزم کے پہاڑ کا نام ماسٹر عبدالخالق ہے۔ قاضی آباد کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے سوپور اور پھر شادی کے بعد سرینگر منتقل ہوا ، نہیں جانتا کہ اس عزم کے پہاڑ نے مرحوم عبدالسلام دارکے دروازے پر کتنی بار دستک دی ہوگی اور میرے خیال میں شاید کئی بار مرحوم نے بھی اس سے جان چھڑانے کی ناکام کوششیں کی ہوںگی لیکن آخر اس ناقابل یقین عزم اور پیہم کوشش کے سامنے انہوں نے ہتھیار ڈال دئے ، آخر پر انہوں نے یہ شرط رکھدی کہ اگر مظفر وار صاحب سابقہ پرنسپل آپ کے ساتھ جڑ جائیں یعنی اگر وہ اس ٹرسٹ کو تشکیل دینے میں دلچسپی کا اظہار کریں تو میں بھی اس ٹرسٹ کی تشکیل میں سر گرم ہوجاؤں گا۔ یہ ٹرسٹ باضابطہ طور پر ۲۶اپریل ۲۰۰۰ کو ماسٹر جی کے خوابوں کی دنیا سے دھرتی پر تعبیر کی صورت اتر آیا ،جب اس ڈیٹ میں اس کی رجسٹریشن ہوئی اور اس کے بعد سلام صاحب اور وار صاحب کی انتھک کوششوں سے اس ٹرسٹ کے ساتھ ایسے اشخاص جڑتے رہے جو اپنے محکموں میں کلیدی عہدوں سے سبکدوش ہوئے تھے یا ان میں سے کچھ اِن سروس ہی تھے۔ پی، ای، ٹی کی انیول رپورٹ میں ان اصحاب کے اسمائے گرامی ہیں اور لگ بھگ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے اپنی سروس کے دوران بھی خاصے صاف و شفاف رہے ہیں۔ یہ اس لئے بھی قرین قیاس ہے کہ ٹرسٹ جس مقام اور جگہ پر آج کھڑاہے، اس سے صرف دیانت دار ، امانت دار اور درد مند اصحاب ہی پہنچا سکتے ہیں۔ اس وقت جیسا میں نے اوپر ذکر کیا ہے اس ٹرسٹ کا سوپور میں ایک اقامتی ادارہ دارالسلام خاصے نظم و ضبط کے سا تھ رفعتوں کی جانب رواں دواں ہے۔ یہاںہی ان بچوںکی رہائش کا معقول انتظام بھی ہے ،یہاں کا انتظام سابق zepo غلام محمد یتو صاحب چلارہے ہیں ۔ با رہمولہ میں دارالمظفر ہے، جہاں چالیس سے زیادہ اسی طرح کی بچیاں تعلیمی سہولیات کے ساتھ ساتھ یہاں اقامت پذیر ہیں، ان کا میرے خیال میں خاصا دھیان رکھا جاتا ہے ، یہاں پرفیسر اسما عیل صاحب پرنسپل ہیں ۔ان دو اداروں کے علاوہ رپورٹ کے مطابق نو ہٹہ سرینگر میں بھی اس ادارے کا ایک اور کرافٹ سینٹر ہے ، جس سے میں نے نہیں دیکھا ہے، اس لئے اس کا جائزہ پیش کرنے سے بھی معذور ہوں لیکن انیول رپورٹ جو ادارے نے شائع کی ہے، اس میں اس ادارے کی بھی تفصیل ہے ، جس پر یقین نہ کرنے کی مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔بہر حال اسوقت اس ٹرسٹ کی جو گورننگ باڈی ہے، اس سے تجربات اور علمی و فنی لحاظ سے ایک کہکشاں کہنا بے جا نہیں ہوگا اور یہ ایسے اشخاص ہیں ،جن کا معاشرے میں بھی اچھا خاصا ریپوٹیشن ہے۔ٹرسٹ کسی بھی تنظیم یا جماعت کے ساتھ وابستہ نہیں اور نہ ہی سرکار یا کسی نیم سرکاری ادارے کے تعاون ا ور اشتراک سے آگے بڑھ رہا ہے بلکہ بلکل آزاد، محض عوام کی ڈونیشن سے اپنی منزل کی طرف گامزن ہے اور سب سے بڑی بات یہ لوگ نہ تو گھر گھر اور نہ ہی دکان دکان جاکر چندہ جمع کرتے ہیں بلکہ یہ اشخاص چونکہ معاشرے میں اپنی ایک حیثیت اور مقام کے حامل ہیں اور آج بھی احترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں ۔ان میں زیادہ تر پروفیسر صاحباں ہیں ،اس لئے انہیں جاننے اور ان کے کام سے آشنا لوگ انہیں خود ہی ڈونیٹ کرتے رہتے ہیں، جس پر یہ ادارے اپنا کام چلا رہے ہیں۔جہاں تک میری سوچ کا تعلق ہے شاید فینانس کی کمی ہی ایک بڑا فیکٹر، جس کی وجہ سے اس ادارے کی رفتار سست ہے اور یہ رفتار نہیں پکڑتا، یا شاید یہ لوگ بہت سوچ سمجھ کر خود ہی بلکل آہستگی سے ہی آگے قدم بڑھانے کے قائل ہوں۔ اس ٹرسٹ کے طریق کا ر اور معاشرے میں اس کی ضرورت اور افادیت کو سمجھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ادارہ آندھیوں میں چراغ جلانے کے مترادف ہے اوربھی کئی ایسے یا اس سے بڑے ادارے بہت اچھا کام کر رہے ہو ںگے ، میرے خیال میں اس قسم کی شمعوں کو کو فروزاں رکھنے کی خاطر ہمیں بھی اپنے حصے کا تھوڑا ساہی سہی لیکن کانٹر بیوٹ کرنا ناگزیر سی بات ہے۔ تاکہ وہ نسل جو بچپن میں ہی باپ کے سائے اور ماں کی شفقت سے محروم ہوجاتی ہے، ان کے احساس محرومی کی کسک اور کرب کو تھوڑا سا کم کیاجا سکے اور دوسری اہم بات یہ کہ انہیں آگے مستقبل کے لئے بھی تیار ہونے میں محرومیتوں کا درد نہ سہنا پڑے ۔
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)