عمران خان کی عروسی سیاست۔ جی ہاں! ہم نے مذکورہ اصطلاح پاکستان کے سینئر صحافی حامد میر کے کالم سے مستعار لی ہے۔ اچھی، دلچسپ، معنی خیز اور حسب حال اصطلاح ہے ۔ عمران خان کی تیسری شادی پر اتنے دن گزرنے کے بعد بھی تبصرہ آرائیاں نہیں تھمتیں ۔ وہ پٹھان ہیں اور سابق کرکٹر بھی ۔ کرکٹ میں خوب نام کمایا اور اب سیاست میں قدم جما رہے ہیںلیکن وہ صرف کرکٹ اور سیاست کے ہی مرد میدان نہیں بلکہ رشتۂ ازدواج کے جوڑ توڑ میںبھی مرد میدان ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی پرسنلٹی میں آج بھی غضب کی کشش ہے۔ آج بھی بہت ساری خواتین ان کے خواب دیکھتی ہیں۔ اب وہ بے چارے کس کس کے خواب پورے کریں، ان کے اپنے بھی تو خواب ہیں جن میں سب سے بڑا خواب ملک کا وزیر اعظم بننا ہے لیکن وزیر اعظم کے منصب تک پہنچنے سے قبل اس راستے میں ان کی اور بھی بہت سی خواہشیں اور تمنائیں سج سنور کر بیٹھی ہیں۔ وہ بھی آخر انسان ہیں۔ ان خواہشوں اور تمناؤں کو کب تک دبا کر رکھیں یا کہاں دریابرد کر دیں۔ ان کی عمر چاہے 66 سال ہو جائے یا 166 سال، ارمانو ںکو تو نکالنا ہی ہوگا۔
اس موقع پر بہت سی پیروڈیز یاد آرہی ہیں، بہت سے مقولے یاد آرہے ہیں اور بہت سے تبصرے ذہن میں گونج رہے ہیں۔ غالب ؔکا یہ مصرعہ بھی یاد آرہا ہے ع بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے۔ (یہاں ارمان کو عمران بھی پڑھا جا سکتا ہے)۔ ایک مزاحیہ شاعر نے غالبؔ’ ہی کے ایک شعر کی یوں پیروڈی کی ہے ؎
بیویاں مرتی گئیں میں شادیاں کرتا گیا
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں
اس میں ہمیں ہلکی سی ترمیم کرنی پڑے گی یعنی بیویاں ’’جاتی رہیں‘‘ میں شادیاں کرتا رہا۔ جی ہاں یہ عمران خان کی تیسری شادی ہے۔ اس سے قبل وہ دو کرکے چھوڑ چکے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ جب انسان کی عمر بڑھتی ہے اور وہ اپنی طبعی منزل کی طرف تیزی سے دوڑنے لگتا ہے تو اس کے اندر مذہبیت یا روحانیت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ مذہب کی طرف زیادہ مائل ہو جاتا ہے۔ دنیا داری سے کنارہ کش ہو جاتا اور اللہ اللہ کرنے لگتا ہے۔ عمران خان کے اندر بھی روحانیت بیدار ہو گئی ہے لیکن یہ روحانیت ذرا مختلف قسم کی ہے۔ اس معاملے میں وہ دوسروں سے آگے نکل گئے ہیں۔ انہوں نے ایسا چھکا مارا ہے کہ دوسروں کے چھکے چھوٹ گئے ۔ کچھ لوگوں کو ان کی مسلسل شادیوں پر اعتراض ہے لیکن ایسے لوگوں کو ہم یاد دلانا چاہیں گے کہ عمران خان فاسٹ باولر ہیں۔ فاسٹ باولنگ میں بال جلدی جلدی بدلنی پڑتی ہے۔ سو عمران بھی وہی کر رہے ہیں۔ چھکا مارنے کی عادت اب بھی موجود ہے، خواہ کھیل کا میدان ہو یا نکاح کا۔
ایک بار ایک بادشاہ نے اپنے درباریوں سے کہا کہ وہ جو مانگنا چاہیں مانگ لیں، عطا کیا جائے گا۔ کسی نے کچھ مانگا تو کسی نے کچھ۔ دربار میں ایک خاتون بھی تھیں، انھوں نے بادشاہ کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ اس حرکت کا مطلب؟ خاتون نے کہا کہ میں بادشاہ کو چاہتی ہوں۔ مجھے آپ مل جائیں تو پھر کیا چاہیے، سب کچھ میرا ہو جائے گا۔ کچھ مانگنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ عمران خان نے بھی کچھ ایسا ہی کیا ہے۔ انہوں نے ایک روحانی شخصیت بشریٰ مانیکا یا بشریٰ بی بی جنھیں مس پنکی بھی کہا جاتا ہے، کے سر پر ہاتھ رکھ دیا ۔ بشریٰ ایک روحانی شخصیت کی مالک بتائی جاتی ہیں۔ بابا فرید گنج شکر ؒکی مرید کہلاتی ہیں اور ہمیشہ تسبیح کے دانے گھماتی رہتی ہیں۔ انہیں کا خاندان بابا فرید کے مزار کی مجاوری کرتا ہے۔ سو! عمران خان نے سوچا کہ تسبیح کے دانے کب تک گھمائیں گے، کیوں نہ دانے گھمانے والی کو ہی گھما کر اپنے گھر لے آئیں، اسے ہی اپنا بنا لیں۔ وہی مل جائے تو پھر کس چیز کی کمی رہے گی۔ لہٰذا انہوں نے ’’بشریٰ بابا‘‘ کو ہی مانگ لیا۔
پاکستانی اخبارات کے مطابق شادی سے قبل عمران خان کا یہ وطیرہ بن گیا تھا کہ وہ رات کی تاریکی میں اپنے ذاتی محافظوں کے ہمراہ بابا فرید گنج شکر کی درگاہ جاتے، وہاں دعائیں مانگتے، خراج عقیدت پیش کرتے اور پھر مانیکا قبیلے سے تعلق رکھنے والے اپنے میزبانوں کی رہائش گاہ پر چند گھنٹے گزارتے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عمران خان کا ان سے روحانی تعلق ہے۔ چند سال قبل بشریٰ بی بی سے ان کا روحانی تعلق قائم ہوا تھا ،جو اب دنیاوی تعلق میں بدل گیا ہے۔ شادی سے قبل بشریٰ بی بی ان کی روحانی رہنمائی کیا کرتی تھیں اب دنیاوی رہنمائی فرمائیں گی۔ ممکن ہے کہ وہ عمران خان کو کوئی ایسا تعویذ دے دیں جس کی برکت سے وہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو جائیں۔
حالانکہ اس شادی کو خفیہ رکھنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن شادی ایسی چیز نہیں جسے خفیہ رکھا جا سکے اور پھر کب تک خفیہ رکھا جاتا؟ حقیقت تو ایک نہ ایک دن سامنے آ ہی جاتی۔ لہٰذا کچھ دنوں سے افواہ کی شکل میں گردش کرنے والی یہ خبر حقیقت کے سورج کی طرح میڈیا کو جگمگاگئی۔ یہاں یہ بہت دلچسپ بات بھی بتادیں کہ ان کا نکاح جن مفتی سعید نے پڑھایا وہ خود کنوارے ہیں۔ وہ عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے رُکن بھی ہیں۔ یہ ذکر بھی خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ ان کے عائلی معاملات پر مزے مزے کے تبصرے کرنے والے شیخ رشید بھی کنوارے ہیں۔ وہ سابق وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔
عمران خان کی پہلی شادی 16مئی 1995ء کو جمائما خان گولڈ اسمتھ سے ہوئی تھی جو ایک عیسائی گولڈ اسمتھ کی بیٹی تھیں اور شادی سے قبل اسلام میں داخل ہوئی تھیں۔ 9سال بعد22 جون 2004ء کو دونوں میں طلاق ہو گئی تھی۔ جمائما کے بطن سے عمران خان کے دو بیٹے سلمان اور قاسم ہیں جو لندن میں اپنی والدہ کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ وہ اپنے والد سے ملنے پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں اور عمران خان بھی ان سے ملنے لندن جاتے رہتے ہیں۔عمران خان کی دوسری شادی ٹی وی اینکر ریحام خان سے ہوئی تھی جو بمشکل دس ماہ چل سکی۔ عمران خان نے ریحام خان سے شادی کا باضابطہ اعلان 8 ؍جنوری 2015ء کو کیا تھا۔ تاہم اس وقت بھی اطلاعات تھیں کہ ان کا نکاح دراصل نومبر 2014ء میں ہی ہو گیا تھا۔ ریحام اپنے شوہر عمران خان سے ناراض ہو کر لندن گئیں جس کے بعد عمران خان نے انہیں طلاق دے دی۔ ریحام خان کا کہنا تھا کہ میں نے عمران خان سے پوچھا تھا کہ سالگرہ پر کیا تحفہ دیں گے تو انہوں نے طلاق دے دی۔
واضح رہے کہ جمایما گولڈ اسمتھ سے شادی سے پہلے بھی عمران خان کے خواتین کے ساتھ معاشقوں کے اسکینڈلز سامنے آتے رہے ہیں۔ امریکی خاتون سیتا وائٹ نے عمران سے تعلقات کا انکشاف کیا تھا اور بتایا تھا کہ ان کی ایک بچی ٹیریان بھی ہے۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا کی عدالت نے بھی یہی فیصلہ سنایا تھا کہ ٹیریان عمران خان کی بیٹی ہے۔ عمران خان اس مقدمے میں عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے تھے تاہم انہوں نے ٹیریان کے حوالے سے تردید کی تھی۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ ٹیریان وائٹ نے اپنی والدہ سیتا وائٹ کی وفات کے بعد لندن میں عمران خان کے بیٹوں کے ساتھ پرورش پائی۔اب بشریٰ کی باتیں سنئے ۔ وہ محمد ریاض وٹو کی بیٹی ہیں۔ ان کے پہلے شوہر خاور فرید تھے جن کے والد غلام محمد مانیکا بھی معروف سیاست دان تھے۔ خاور فرید بھی ایچی سن کالج لاہور اور امریکا کے تعلیم یافتہ ہیں اور عمران بھی ایچی سن کالج اور امریکا میں پڑھتے رہے ہیں۔ خاور فرید مانیکا اور بشریٰ سے تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ کچھ دنوں قبل کسی بات پر خاور فرید سے ان کی طلاق ہو گئی تھی۔
عمران خان کی شادیوں پر پاکستان اور بیرون پاکستان بڑے دلچسپ تبصرے ہو رہے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں ان کی شادیاں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتیں۔ اب اس میں عمران خان کی تلون مزاجی یا رومانوی عادتوں کا دخل ہے یا کسی اور چیز کا۔ اللہ کرے کہ ان کی یہ شادی طلاق پر منتج نہ ہو۔ انہوں نے ایک مطلقہ سے شادی کرکے ایک نیک کام کیا ہے۔ ان کو اس کی جزا ملے گی لیکن اب عمران خان کو بھی اپنی عادتیں بدلنی ہوں گی۔ ورنہ اگر خدا نخواستہ یہ شادی بھی ناکام ہو گئی تو کیا کریں گے۔ اس پر کسی نے تبصرہ کیاہے کہ ’’کیا کریں گے، چوتھی کر لیں گے‘‘۔