سرینگر//دور افتادہ اور سرحدی علاقوں کے تئیں موجودہ حکومت کی غفلت شعاری سے ان علاقوں میں بود باش کررہے ہزاروں کنبے مصائب و مشکلات سے دوچار ہیں اور حکومت کے رویہ سے مستقبل قریب میں ان علاقوں کے لوگوں کی راحت کیلئے کوئی سامان دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر عمر عبداللہ نے گریز میں کنزولن اور داور میں الگ الگ اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اُن کے ہمراہ پارٹی کے صوبائی صدر ناصر اسلم وانی، پارٹی کے سینئر لیڈر اور مقامی ایم ایل اے نذیر احمد خان گریزی، بلاک صدور اور دیگر عہدیداران بھی تھے۔ اس سے قبل تراگہ بل پہنچنے پر عمر عبداللہ کا پُرتپاک استقبال کیا گیا۔ اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ موجودہ حکومت نے دور افتادہ اور سرحدی علاقوں کا یکسر نظرانداز کر رکھا ہے اور ان حساس علاقوں میں حکومت کا کہیں نام و نشان نہیں۔ جس کی وجہ سے ان حساس اور دور افتادہ علاقوں کے پسماندہ لوگ مختلف نوعیت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ گریز کی تعمیر و ترقی کا ذکر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ گریز میں جو بھی تعمیر و ترقی ہوئی وہ نیشنل کانفرنس کی حکومتوں کے دوران ہی ہوئی ہے۔اس جماعت کے بانی شیخ محمد عبداللہ نے گریز کو تحصیل کا درجہ دیا پھر قائد ثانی ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے گریز کیلئے الگ اسمبلی کانسچونسی بنائی اور میرے دورِ حکومت میں یہاں نئے انتظامی یونٹ بنائے گئے، آئی ٹی آئی کا قیام عمل میں آیا، تعلیم ، صحت اور دیگر شعبوں میں بھی قابل قدر کام ہوا۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس اور گریز کا ایک جذباتی رشتہ ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہورہا ہے۔ پی ڈی پی کی سربراہی والی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ گذشتہ 3سال میں یہاں کوئی بھی قابل قدر کام نہیں ہوا ہے، جس سے یہ بات صاف ہوگئی ہے موجودہ حکومت نے گریز کو یکسر نظرانداز کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مخصوص علاقوں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھنا پی ڈی پی کا پرانا شیوا رہا ہے، یہ جماعت سیاسی انتقام گیری کی بنیاد پر کسی بھی حد تک گر سکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے نیشنل کانفرنس کی حکومتوں کے دوران ریاست کے کسی بھی علاقے کے ساتھ ناانصافی نہیں کی گئی، ہماری حکومتوں کے دوران ہر علاقے کیساتھ مساوات اور برابری کی بنیادوں پر انصاف ہوا۔ دفعہ35Aکیخلاف ہورہی سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ اس دفعہ کا خاتمہ کرکے ریاست کے لوگوں کی پہچان اور یہاں کی انفرادیت پارہ پارہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس لئے وقت کا تقاضہ ہے کہ ریاست کے تینوں خطوں کے لوگ اس دفعہ کیخلاف ہورہی سازشوں کیلئے متحد ہوکر مقابلہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس دفعہ کا دفاع کرنا حکومت کا کام تھا لیکن پی ڈی پی نے بھاجپا کے سامنے مکمل سرینڈر کر رکھا ہے، اس لئے اب اپوزیشن جماعتوں اور عوام کو یہ لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ اگر پی ڈی پی حکومت نے وقت پر مرکزی حکومت کو سپریم کورٹ میں اس دفعہ کیخلاف دائر مفادِ عامہ عرضی پر حلف نامہ دائر کرنے کیلئے زور ڈالا ہوتا تو آج یہ معاملہ زیر سماعت نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ اب جبکہ پی ڈی پی حکومت یہ جنگ لڑنے سے قاصر ہے اس لئے ریاستی عوام کو متحد ہوکر جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن ، انفرادیت، پہچان اور وحدت کو بچانے کیلئے متحدہ ہونا چاہئے۔