سرینگر//عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ اور ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے حاجن کے منطور احمد بٹ نامی نوجوان کے خوفناک قتل کے حوالے سے جنگجو تنظیموں سے اسکی ذمہ داری قبول کرنے یا پھر لاتعلقی ظاہر کرنے کی اپیل کی ہے۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر کو بندوق کے بل پر قابو کئے رکھنے والی طاقتوں اور اس قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کے مابین واضح فرق ہونا چاہیئے۔ انجینئر رشید نے کہا کہ منظور احمد کو جس انداز سے قتل کیا گیا ہے وہ تاریخ کشمیر میں اپنی نوعیت کا منفردواقعہ ہے۔انہوں نے کہا کہ چونکہ سکیورٹی ایجنسیوں اور دیگر کئی حلقوں کی جانب سے اس قتل کے حوالے سے جنگجوؤں،جنہیں کشمیر کے چپے چپے میں بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے،کی جانب اشارہ کرنا شروع کیا ہے لہٰذا یہ تمام جنگجو تنظیموں کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سچ بتاتے ہوئے یا اس قتل کی ذمہ داری لیں یا پھر اگر وہ ملوث نہیں ہیں تو پھر اظہارِ لا تعلقی کریں۔انجینئر رشید نے مزید کہا کہ بھارت کے خلاف مزاحمت کیلئے بندوق اٹھائے ہوئے نوجوانوں کے خلاف ہر طرح کے منفی پروپیگنڈہ کے باوجود کشمیری عوام انہیں اپنے محافظوں کی طرح اپناتے ہوئے انہیں بچانے کیلئے ہر طرح کی قربانیاں دیتے آرہے ہیں لیکن ان نوجوانوں پر کئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور انکے اور انکے مخالفین کے طریقہ کار میں واضح فرق ہونا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہیں کہ جنگجو نوجوان انتہائی مشکل حالات میں کام کرتے ہیں اور انکے لئے اپنے عوام میں ان عناصر کو برداشت کرنا مشکل ہوسکتا ہے کہ جو ان کی جان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں لیکن جنگجو نوجوانوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیئے کہ میتوں کا احترام کیا جانا چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اسلامی شعائر کا پابند رہتے ہوئے اپنے سوچ و عمل میں اس حد تک واضح ہونا چاہیئے کہ دشمن کا پروپیگنڈہ ناکام اور مسترد ہوجائے۔انہوں نے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی جانب سے حاجن میں پیش آئے اس واقعہ کو لیکر حریت کانفرنس کی تنقید کئے جانے کو لیکر کہا کہ منظور احمد کے قتل پر خاموشی کیلئے حریت کی تنقید کرنے سے قبل عمر عبداللہ کو یاد کر لینا چاہیئے کہ افضل گورو کو انہی کے دور اقتدار میں نہ صرف پھانسی دی گئی تھی بلکہ انکی لاش تک انکے ورثاء کو نہیں دی گئی تھی جیسے کہ فاروق عبداللہ کے زمانے میں مقبول بٹ کے ساتھ کیا گیا تھا۔انہوں نے عمر عبداللہ کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ انکے دور قتدار میں سینکڑوں کشمیریوں کا قتل کیا گیا تھا اور کتنوں ہی کو گمنام اور نامعلوم قبروں میں گاڑھ دیا گیا تھا جبکہ کشمیر ایک ایسا جنگل بن چکا تھا کہ جہاں قانون کی کوئی بالادستی نہیں تھی۔عمر عبداللہ کو اپنے گریباں میں جھانکنے کے مشورہ کے ساتھ انجینئر رشید نے کہا کہ عمر عبداللہ حریت یا کسی اور کی تنقید کرنے یا کوئی تجویز دینے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں جبکہ کشمیری اتنے بالغ ہیں کہ انہیں کسی کی نصیحت کے بغیر بھی معلوم ہے کہ انہیں کب ،کس طرح اور کس مسئلے پر ردعمل کا اظہار کرنا چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ عمر عبداللہ کو اگر اتنا ہی درد محسوس ہوتا ہے اور پھر انہیں ہمت بھی ہے تو پھر انہیں حریت کی تنقید کرنے اور اسے نصیحتیں دینے کی بجائے خود ایک ہڑتال کال دیکر دیکھنا چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ حریت لیڈروں سے عمر عبداللہ کی اپیل نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ اقتدار میں ہونے کے باوجود بھی مین اسٹریم لیڈروں کازمینی سطح پر عوام پر کوئی قابو نہیں ہے۔