علامہ جمال الدین افغانی اگرچہ پان اسلام ازم کے علمبردار تھے لیکن سامراجیت کے کٹر دُشمن تھے۔ ان کی ساری زندگی قابل احترام ہے۔ انیسویں صدی کے بین الاقوامی شہرت یافتہ مسلم سکالر اور عالم علامہ جمال الدین افغانی کانام تو پڑھے لکھے حلقوں میں ناآشنا نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ نوجوان نسل کو ان کے نام کے ساتھ ان کے کام اور خدمات سے بھی متعارف کروایاجائے۔ آپ افغانستان کے صوبہ جلال آباد کے ایک گائوںمیں 1838ء میںپیدا ہوئے۔ آپ کا خاندان ایک علمی خانوادہ تھا۔ آپ بیس سال کی عمر تک تمام مروجہ علوم کی تحصیل سے فارغ ہوکر دیگر سائنسی علوم کی طرف راغب ہوئے۔ دل میں عالم اسلام کوبحران سے نکالنے کی زبردست تڑپ محسوس کرتے تھے۔ چنانچہ اوائل عمر سے ہی جدوجہد شروع کردی۔ ان کانقطہ نظر اتحاد بین المسلمین تھا۔ کچھ عرصہ تُرکی میںگزار اپھر مصر گئے اور عالم اسلامی کی سب سے بڑی علوم اسلامی کی درسگاہ جامعہ ازہر قاہرہ سے وابستہ ہوئے۔اس عظیم درس گاہ کے گیارہ سو سالہ پرانے نصاب کو تبدیل کرنے اورا س میں جدت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ قدامت پرست طبقہ آڑے آیا مگر آپ نے ہمت نہیں ہاری۔ آگے چل کر آپ کے مشن کو آگے بڑھانے اور شرف حاصل کرنے والے شیخ محمد عبدہ آپ کے شاگردتھے۔ مصر کے قوم پرست لیڈر زاغلول پاشا جو 1924ء میںمصری پارلیمنٹ کے صدر چُنے گئے، آپ کے شاگرد تھے۔ علامہ افغانی کانظریہ تھا کہ ہر قوم کو اپنے کلچر اور تشخص کے ساتھ زندہ رہنے کا حق ہے۔ ایک قوم کودوسری قوم پر تسلط وغلبہ حاصل کرنے کی کوشش نہیںکرنی چاہیے ۔ خواہ ایسی اقوام کے درمیان ایک ہی دین ومذہب کا رشتہ ہو یا وہ مذہبی طورپر مختلف عقائد کے حامل بھی نہ ہوں۔ علامہ کے انقلابی خیالات سے انگریز بے خبر نہ تھے۔ وہ اُن کی جدوجہد اور مصرمیں موجودگی کو برطانوی بالادستی کے خلاف ایک خطرہ تصور کرتے تھے۔ اس لئے برطانیہ کے کہنے پر توفیق پاشا نے علامہ افغانی کومصر سے نکال دینے کا حکم دیا اور بے سروسامانی میںگرفتار کرکے نہرسوئز پر ممبئی جانے والے جہاز پر سوار کرکے ہندوستان بھیج دیا ۔ علامہ ممبئی سے ہوتے ہوئے حیدرآباد پہنچ گئے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ حیدرآباد کو اپنی جدوجہد کا مرکز بنائیںگے مگر یہ دیکھ کر بہت مایو س ہوئے کہ یہ ریاست بھی انگریزوں کے تسلط وغلبۂ حکمرانی میں ہے۔ نظام حیدرآباد نے چاہا کہ علامہ کو ریاست کا ملازم بنا کر ان کامنہ بند کردیا جائے مگر علامہ نے یہ منظور نہ کیا۔ یہاں انہوںنے اپنی تحریرمیںکہا کہ اردو ایک ایسی زبان ہے جسے ملک کی زبان بنائی جائے اور جدید علوم کو اپنی قومی زبانوں میں ڈھالنے کی ضرورت پر زوردیا۔ علامہ خود عربی اور فارسی کے ساتھ ساتھ یورپ کی کئی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔ قدامت پسندعلماء پر تنقید کرتے ہوئے علامہ نے کہا کہ یہ لوگ اپنے یہاںہزاروں سال پرانا نصاب پڑھارہے ہیں اور علوم کو دودرجوںمیں تقسیم کررکھاہے:ایک علوم اسلامی اور دوسرے علومِ فرنگ۔ انہوں نے اس روایت پسند روش کو بدلنے پر زور دیا اور کہاکہ یہ نصاب بدلا جائے اور اس میں دیگر جدید علوم کا اضافہ کیا جائے تاکہ دینی درس گاہ سے فارغ التحصیل آدمی دنیاوی تقاضوں پر بھی پورا اُترسکے۔ 1882ء کو علامہ لندن روانہ ہوئے اورلندن میں مختصر قیام کے بعد پیرس پہنچ گئے۔ یہاں ا نہوں نے ایک مضمون میںلکھا کہ عیسائی جو حضرت عیسیٰؑ کے نظریہ ٔعدم تشدد کے پرچارک ہیں، کیا وجہ ہے کہ انہوںنے سامان حرب پہلے بنارکھاہے اور اس بناء پر دُنیا پر تسلط قائم کررکھاہے؟یہی وجہ ہے کہ جدید علوم میں غیر مسلم بہت آگے آگے اور اہل اسلام ابھی بھی بہت پیچھے ہیں۔ لہٰذا وہ غلام ہیں۔ انگریز پچیس ہزار فوج کے بل پر پچیس کروڑ مسلمانوں کوغلام بنائے ہوئے ہیں۔ سوڈان کا مشہور انقلابی لیڈر مہدی سوڈانی علامہ کا شاگرد تھا۔سوڈان میںمہدی نے بغاوت کردی۔ وہ انگریز اور مصر کے حکمرانوں کے خلاف اُٹھ کھڑاہوا اورا س میں بہت سارے انگریزبھی مارے گئے۔ انگریزوں کو شکست ہوئی۔ انگریز حکمرانوں نے علامہ افغانی سے رابطہ قائم کیا کہ سوڈان کے مسئلہ پر ہماری معاونت کریں تو جواب میںعلامہ نے کہا کہ اس کاایک ہی طریقہ ہے کہ انگریزمصر چھوڑدیں اور لوگوں کو مزید خون ریزی سے بچانا ہے تو ایک دفد تشکیل دیں، جس میںمصری اور انگریز بھی شامل ہوں۔ اس دفد میں انگریزوں کی طرف سے مسٹر بلٹ ضرور ی شامل ہوں۔،کیونکہ یہ وہ صاحب تھے جوغلام قوموں کی آزادی کے زبردست حامی تھے۔ بعدمیں علامہ افغانی مسٹر بلٹ کے کہنے پر رضامند ہوئے۔ انہوں نے مسٹر بلٹ کے ہمراہ برطانوی لیڈروں سے بات چیت کی اور عالمی سیاست پر اپنے نظریات سے آگاہ کیا۔ بعدمیں انہوںنے انگریزی سامراج سے نجات کے لئے روس سے اتحاد و تعاون پر زور دیا۔وہ چاہتے تھے کہ روس تُرکی اور افغانستان مل کر انگریزی سامراج کامقابلہ کریں۔ انہوںنے 1885ء میںپیرس سے ماسکو کا سفر کیا۔ وہاں روسی حکام سے مل کر امیر عبدالرحمن والی ٔ افغانستان سے ملے مگر یہ دیکھ کرمایوس ہوئے کہ انہیں اپنی ذات اور اقتدار سے زیادہ کسی دوسری شئے سے دلچسپی نہیںہے۔ بعدمیںایران چلے گئے۔ شاہِ ایران ناصر الدین قاچار بہت خندہ پیشانی سے پیش آیا۔ یہاں علامہ نے ایران کے دستوری نظام حکومت کاخاکہ پیش کیا جو عوام کا دیرینہ خواب تھا، مگر اس سے وہ ناخوش ہوااور انہیں ایران چھوڑنے کا حکم دیا۔ علامہ جرمنی چلے آئے۔ ہونج میںقیام پذیر تھے کہ شاہ ایران سے دوبارہ ملاقات ہوئی اور شاہ کے ایماء پر ماسکو جاکر ایران اور ماسکو کے درمیان تنازعات ختم کروانے اور باہمی تعاون کامعاہدہ کروانے میںکامیاب ہوئے۔ بعدمیں علامہ تُرکی چلے گئے اور سلطان تُرکی کویہ تجویز دی کہ مسلم ممالک مل کر ایک دفاعی معاہدہ کرلیںکہ ایک ملک پر حملہ دوسرے ممالک پر حملہ تصو رہو، مگر ان کی اس تجویز کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بعدمیںعلامہ کو تُرکی میں بند کردیا گیا۔ اب علامہ بیمار رہنے لگے۔ آخر کاریہ انقلابی حریت پسند رہنماء اور اتحاد بین المسلمین کا داعی 9؍مارچ 1897ء کو دارفانی سے رُخصت ہوا۔ مدت تک آپ کی قبر بے نام ونشان رہی۔ بعد میں آپ کے ایک امریکی معتقد چارلس استنبول آئے تو علامہ کا مقبرہ سنگ مرمر سے بنوایاجو چالیس سال تک قائم رہا۔ بعدمیں حکومت افغانستان نے حکومت تُرکی سے اجازت لے کراُن کا جسدخاکی افغانستان منتقل کیا۔ افغانستان کا روشن خیال فرمان روا ، غازی امان اللہ آپ کا معتقدتھا۔
یہ امر انتہائی قابل ذِکرہے علمائے ہند نے علامہ افغانی کی تعلیمات اور نظریات سے فیض یاب ہوکر برطانوی سامراج کے خلاف تحریک آزادی ٔ ہند میںرہنمایانہ ا وردلیرانہ و مجاہدانہ کردار ادا کیا، جسے ہر گز ہرگز فراموش نہیںکیاجاسکتاہے۔ علمائے ہند کی نمائندہ جماعت جمعیتہ العلماء برصغیر ہند کی پہلی جماعت ہے جس نے مکمل آزادی کی قرارداد منظور کرکے انگریز استعماریت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ ترکِ موالات اور خلافت تحریک کو منظم کرکے سلطنت برطانیہ کے خلاف شاندار جدوجہد شروع کی۔
علمائے ہندمیں دارالعلوم دیو بند کے صدر المدر سین مولانا محمود الحسن کو دوسری جنگ عظیم کے دوران مولانا حسین احمد مدنی کی معیت میں جزیرہ مالٹا میں پانچ سال تک نظر بند رکھاگیا۔ مولانا عبید اللہ سندھی نے ہجرت کرکے افغانستان سے انگریزوں کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ ابھی تک ان ریشمی خطوط کی صدائے بازگشت کی گونج ُسنائی دے رہی ہے جومولانا محمود الحسن اور مولانا عبید اللہ سندھی کے درمیان خفیہ خط وکتابت کے تحت ہوتی رہی۔ مولانا انورشاہ کشمیری کا وہ فتویٰ ابھی دستاویزوں کی زینت ہے جس میں انہوںنے برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد کا فتویٰ دیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ’’الہلال ‘‘اور’’ البلاغ‘‘ کے ذریعہ 1913-14ء میںانگریزی استعمار کے خلاف جو کچھ تحریر کیا وہ دائمی یادگاری تحریریں ہیں۔ 1913-14ء میں ہی مولانا محمد علی جوہرؔ نے ’’کامریڈ‘‘ اور ’’ہمدرد‘‘ کے ذریعہ جس طرح سے برطانوی سامراج کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی وہ تاریخی نوعیت کی ہے۔ مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی، جنہیں علی برداران کے نام سے یادکیا جاتاہے ، کی سامراج مخالف جدوجہد ساری دُنیا کے سامنے ہے۔ سید عطا ء اللہ شاہ بخاری نے اپنے زور خطابت سے جس طرح انگریز دُشمن محاز جنگ گرمایا ، اُسے ہرگز یادوں سے محو نہیں کیا جاسکتا۔ ان حضرات کے علاوہ مولانا حسرتؔ موہانی جنہوںنے پہلی کمیونسٹ کانفرنس کی صدارت کی اور 1921ء میں مشہور کانپور سازش کیس میںقیدر ہے اور دیگر علماء نے برطانیہ کے خلاف تحریک آزادی میںجو کردارادا کیا وہ ناقابل فراموش ہے۔ ایسے بزرگوں کاتفصیلی تذکرہ احاطۂ تحریر میں لانا ضروری ہے لیکن اس مختصر تحریر میں یہ ممکن نہیںہے۔ علما ئے برصغیر ہند نے یہ سارا کارنامہ علامہ افغانی کافیضان کی بنیاد پر ہی انجام دیا ہے جسے تاریخ کے اوراق سے مٹایا نہیں جاسکتا۔علامہ اقبال بھی علامہ افغانی کی تعلیمات سے متاثر تھے ۔انہی سے متاثر ہوکر علامہ نے یہ شعر کہا ؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
یہ شعر موزوں کر تے وقت اقبال کے سا منے بلا شبہ علامہ افغانی کی تعلیمات اور خدمات ہی تھیں۔ اس کا پس منظریہ تھا کہ محافظ حرمین شریفین شریف مکہ تھا جو کہ ہاشمی خاندان سے ہی تعلق رکھتاتھا۔ وہ سلطنت عثمانیہ سے رُوگردانی کرکے برطانوی ایجنٹ بن چکاتھا کہ علامہ اقبال کو طنزاً کہنا پڑاتھا ؎
بیچتاہے باشمی ناموس دین مصطفیٰؐ
خاک وخون میںتڑپ رہاہے ترکمان سخت کوش
جب سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ پر اس غداری کے عوض شریف مکہ کے دو بیٹوں امیر فیصل کو عراق اور کنگ عبداللہ کو اُردن کا بادشاہ بنادیاگیا تو علامہ اقبال نے کہا ؎
کیا خوب امیر فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا
تو نام ونسب کاحجازی ہے پر دل کا حجازی نہ بن سکا
یاد رہے کہ سنوسی سوڈان کا سر کردہ عوامی رہنما اور مصلح تھا جس نے برطانوی سلطنت کے خلاف بغاوت کی تھی۔ سب کوعلم ہے کہ آج برطانوی سامراج کی جگہ امریکی سامراج کا دبدبہ ہے جو اسلامی ممالک سمیت تیسری دُنیا کو نئے سامراجیت کی جکڑ میں لے رہاہے۔ اس لئے علامہ افغانی کاپیغام، تعلیم اور ان کا جیسا جذبہ وحمیت متقاضی ہے کہ امریکی سامراج کے خلاف سینہ سپر ہوکر موثر انقلابی جدوجہد کی جائے۔ علامہ جمال الدین افغانی بے شک احیائے اسلامی اور پان اسلام ازم کے علمبردار تھے لیکن سامراج دُشمنی ان کے رگ رگ میں کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس لئے سامراج کے خلاف جدوجہد کررہے انقلابی انہیں بڑے شکروامتنان سے یاد کرتے ہیں اور انہیں انقلابی سلام عرض کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ علامہ افغانی اُس وقت سرگرم عمل تھے جب کارل مارکس نے سامراج اور سرمایہ داری کے خلاف اپنا نظریۂ اشتراکیت پیش کیا۔ علامہ افغانی سامراج کے ایجنٹ علمائے سوء کی طرح ہرنئے انقلابی نظریات کے خلاف نہ تھے، بلکہ ان میں پیوست اچھا ئیوںکے معترف تھے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں علامہ ا قبال کاوہ شعر قابل غورہے جو ’’جاوید نامہ‘‘ میں ان کے تخیلاتی سفر میں عالم برزخ میں مولانا جلال الدین رومی اور علامہ جمال الدین افغانی کے درمیان ہوئی۔ ملاقات میںمولانا رومی نے علامہ افغانی سے کارل مارکس کے متعلق دریافت کیا تو علامہ افغانی نے فرمایا ؎
صاحب ِسرمایہ از نسل خلیل ؑ
یعنی آں پیغمبر بے جبر یل ؑ
فرانکہ درحق وباطل مضمر است
قلب ومومن، دماغش کافراست