ڈاکٹر سر محمد اقبال ؒ کے آباو اجداد کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ (پنجاب) میں آباد ہو گئے تھے۔ خد ا وند کریم نے اس خاندان کو 200سال پہلے اسلام کے نور سے منور کیا ۔ کشمیر کے برہمن سپر گوت خاندان کلمہ توحید کے علمبردار بن گیا جس کے سپوت علامہ تھے ۔ اقبال ؒ کے والد بزرگ کا نام شیخ نور محمدتھا ، بڑے نیک سیرت ملنسار دین پسند صوم صلوٰۃ کے پابند اور اسلام کے دردمند بزرگ تھے ۔ شیخ نور محمد سیالکوٹ میں چھوٹا سا کار بار کرتا تھا۔ سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کی نیکی پر ہیز گاری کی وجہ سے عزت و احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کے دو بیٹے تھے عطا محمد اور محمد اقبال ؒ جو آگے چل کر ایشا ء کا بلند ستارہ سب سے بڑے شاعر مانے گئے ۔ اقبال ؒ 1873ئمیں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ،شیخ نور محمد نے اپنے بچوں کو اردو فارسی اور انگریزی تعلیم دلوائی ۔ شیخ عطا محمد جو اپنے چھوٹے بھائی سے چودہ سال بڑے تھے انجینیربن گئے اور اقبال ؒ مشن اسکول میں تعلیم پاکر کالج میں داخل ہو گئے جہاں سید میر حسین ایسے کامل اُستاد سے ساتھ پڑا جو تلامذہ میں ایک رنگ اور عملی ذوق پیدا کر دینے میں پر طولیٰ رکھتے تھے ۔اقبال ؒ ان سے متاثر ہو کر علوم اسلامیہ کی طرف متوجہ ہوئے ا ور آخرتک ان کا احسان نہ بھلایا۔ اقبال ؒ ابھی سکول میں پڑھتے ہی تھے کہ شاعری کا ذوق شوق ان کی طبعیت میں اپنے اصلی جو ہر سمیت چمکنے لگااور انہوں نے شاعری کی طرف توجہ کی ۔مولانا روم ؒ کے اشعار اقبال ؒ کو نہایت پسند تھے، آپ کا روزانہ طریقہ یہ تھا کہ صبح سویرے اُٹھ کر نماز پڑھ لینے کے بعد اونچی آواز سے قرآن شریف پڑھتے تھے ا ور دو پہر کو کالج سے واپس آکر کھانا کھاتے تھے ۔صبح چائے بھی نہیں پیتے تھے ،رات کو کبھی کبھی کشمیری نمکین چائے پی لیا کرتے تھے ، تہجد کی نماز پڑھتے تھے ۔ بہرحال اقبال ؒ نے فلسفہ عربی انگریزی مضامین اختیار کر کے بی اے کر نے کے دوران ہی مسٹر آر نلڈ اور شیخ عبدالقادر مدیر ’’مخزن ‘‘سے متعارف ہوئے۔ 1901ئمیں اقبال ؒ کی نظر چاند اور دوسری نظمیں مخزن میں شائع ہوئیں جو ادبی حلقوں میں ایک نئی آواز سمجھی گئیں اور نو جوانوں کو شاعر کی طرف تحسین کی نگاہیں اُٹھنے لگیں، اسی عرصے میں اقبال ؒ نے فلسفہ میں امتیاز کے ساتھ ایم اے کیا ،تاریخ فلسفہ و سیاسیات کے لکچرار کی حیثیت سے اور نٹیل کالج لاہور میں ان کا تقرر ہوا ،پھر گورنمنٹ کالج میں فلسفہ اور انگریزی کے استاد مقرر ہوئے، جہاں طلبہ اور اساتذہ نے ان کی علمیت و فضیلت لہو مان لیا اور انہوں نے محکمہ تعلیم کے ذمہ داروں کا اعتماد حاصل کیا۔ 1905ئمیں کیمبراج میں داخلہ لیا اور فلسفہ و معاشیات کی امتیازی ڈگریاں پاکر تین سال تک لندن میں قیام پذیر رہے ۔ اس عرصے میں اسلامی مو ضوعات پر خطبات و مقالات کا سلسلہ بھی جاری رہا جس سے ان کی شہرت و مقبولیت علمی حلقوں میں برق رفتاری سے پھیل گئی ۔ اس مدت کے دوران تدرسی فرائیض بھی انجام دئے اور میونح جرمن جاکر فلسفہ میں ڈاکٹر یت حاصل کی اور پھر لندن آکر قانون کا اعلیٰ امتحان پاس کر کے کامرس کالج لندن میں استاد ہو گئے اور پھر سیاسیات و اقتصادیات میں امتیاز پیدا کرنے کے بعد 1908ئمیں عازم و طن ہو ئے ۔ اقبال ؒ جب سسلی سے گزرے تو اسے اشک حیرت سے سیراب کرتے ہوئے گزرے ؎
رو لے اب دل کھول کر اے دیدہ خونابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار
یہ سارے علمی اعزازات امتیاز ات اقبال ؒ کو کل ۳۲۔۳۳سال کی عمر میں حاصل ہوئے ،واپسی پر دوستوں اور قدر دانوں نے ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا ۔ اقبالؒ نے وکالت شروع کی لیکن سچ یہ کہ وہ ان کو راس نہ آئی، نہ وہ ان کے مذاق کی چیز تھی۔ ان کے اکثر اوقات غور و فکر تصنیف یا سخن سنجی میں صرف ہوتے تھے ۔ وہ انجمن حمایت الاسلام کے سالانہ جلسوں میں پا بند ی شریک ہو تے تھے۔ اسی کے ایک جلسے میں انہوں نے شکوہ اور دوسرے جلسہ میں جواب شکوہ پڑھی جو ایک قومی نظم کی حیثیت سے اختیار کر گئی اور جس سے علامہ بے حد وحساب مقبول ہوئے۔ ان ہی دونوں آپ ترانہ ہندی اور ترانہ ملی لکھے،دونوں ترانوں نے ضرب المثل شہرت و مقبولیت پائی ا ور دونوں قومی اور ملی محفلوں کے افتتاح کے لئے قومی ترانہ سمجھے جانے لگے ۔ علامہ اقبال ؒ کے متعلق کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ فلسفہ کے امام ہیںمگر اقتصادیات پر بھی ان کی گہر ی نگاہ ہے۔ علم الاقوام بھی ان کے ذہن و دماغ میں رچا بسا ہوا ہے، وہ دُنیا کے لئے رجحانات و تصورات سے بھی واقف ہیں، وہ قیصریت کے بھی ادا شناس ہیں اور فسطا ئیت کے رموز بھی جانتے ہیں، وہ جمہوریت کے اسرار کے بھی ماہر ہیں اور اشتراکیت کی گہرائیوں میں غو طے لگا چکے ہیں ۔ غرض دُنیا کی کوئی تحریک کوئی رحجان یا نظریہ کوئی تصور ایسا نہیں ہے جس سے اقبال واقف نہ ہوا، جس کا اقبال ؒ نے مطالعہ نہ کیا، جس کی حرکات وسکنات پر اقبالؒ کی نظر نہ ہو، بیرونی اور مقامی نظر یات جدید اور قدیم بھی جانتے تھے اور انہیں پرکھ چکے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی ان جملہ خصوصیات کے ساتھ اقبال ؒ کی شاعری اس قدر مقبول ہوئی کہ دور حاضر میں مشکل سے کسی شاعر کو یہ فخر حاصل ہے ۔ان کا کلام نہ صرف ہندو پاک بلکہ ایران و افغانستان امریکہ انگلستان جرمنی فرانس روس عرب وغیرہ جیسے ممالک میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اقبال ؒ کی شخصیت اور ان کی شاعری کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ا س بر گزیدہ شخصیت نے اپنے مادر وطن کشمیریوں کی غلامی پر خون کے آنسو بہائے ،اس پر ماتم کرتے ہوئے کہا ؎
حاجت نہیں اے خطہ گل شرح و بیاں کی
تصویر ہمارے دل پر خون کی ہے لالہ
خطہ گل سے کشمیر اور بند گانِ کشمیر دونوں مراد ہو سکتے ہیں ،لالہ سے گل لالہ اور کشمیری نو جوانوں دونوں مراد ہو سکتے ہیں، پہلے معنی یہ ہے کہ اے خطہ کشمیر! تجھے اپنا حال زاز بیاں کرنے کی چند اں حاجت نہیں ہے کیونکہ کشمیری نو جوانون کی حالت ہمارے دل پر خون سے مطابقت رکھتی ہے ۔ وہ بھی ہماری طرح رنج و غم میں مبتلا ہے۔ دوسرے معنی یہ ہے کہ اے باشندگان کشمیر !تم اپنی مصیبت کی داستاں مجھے مت سنائو کیونکہ میں پہلے ہی اس سے واقف ہوں اور اسی آگہی کے سبب سے میرا دل گل لالہ کی طرح خون ہو رہا ہے جو میرے برداشت سے باہر ہے۔ کشمیر کے لوگ اپنے بچوں کو لالہ کہہ کر خطاب کرتے ہیں،ا س لئے لفظ لالہ میں صنعت ِایہام ہو گئی ، اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ کشمیریوں کے حال زار پر میرا دل کے آنسو رو رہا ہے اور میرے جسم و جان کو بے تاب کئے ہو ئے ہے ؎
اثر کر ے نہ کرے سن تو لے میری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندہ آزاد
علامہ اقبالؒ اس بدیہی حقیقت سے آگاہ تھے کہ میں ایک مردہ قوم میں پیدا ہوا ہوں جو خواب غفلت وجمود سے بیدار ہونے والی نہیں ہے۔ چنانچہ وہ پیام مشرق میں اس موضوع پر بہت کہہ گئے ہیںاوراپنے اشعار میں کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور اپنے شاعر انہ وجدان سے مستقبل کے حالات سے قارئین کو با خبر کر چکے ہیں ۔اقبالؒ کے عظیم آفاقی کلام میں درجنوں ایسے اشارات جموں کشمیر کی موجودہ پُر آشوب حالات سے ملتے جلتے ہیں۔ وہ کشمیری قوم پر خون کے آنسو بہا تے ر ہے ہیں اور اس عظیم محسن ِوطن نے فارسی اشعار میں کشمیر یوں کی حالت زار وزبوں کا نقشہ کھینچا ہے۔اس کا لفظی ترجمہ یوں ہے کہ کشمیری ایک ذہین و ہوش مند اور حسین قوم ہے، دُنیا میں اس کے فنون و ہنر معجزات سے کچھ کم نہیں ۔ مگرا فسوس اس کا پیالہ اس کے اپنے ہی لہو سے بھرا ہوا ہے۔ میری بانسری کی گریہ وزاری کا موضوع یہی قوم ہے۔ کشمیری جب اپنی خودی سے محروم ہوا تب سے وہ اپنے ہی وطن میں اجنبی بن گیا ، یہ نہ سمجھتا کہ یہ قوم ہمیشہ ایسی ہی تھی غلام بن کر اغیار کے آگے ماتھا رگڑتی تھی، کسی زمانے میں یہ قوم صف شکن اور فاتح تھی، غالب و جانباز اور بڑی دلیر تھی۔ اقبال ؒ نے’’ اسرار خودی‘‘ اور ’’رموز بے خودی‘‘ میں حضرت انسان کی پوزیشن اور ان کے معیار کو بلند بالا بنا دیا۔ اگلے زمانہ کے بہت سے شاعروں نے یہی سمجھ رکھا تھا کہ انسان کو اپنی خودی بالکل مٹا دینی چاہئے۔ اس قسم کے منفی خیالات سب سے پہلے یو نان میں پیدا ہوئے ا ور جب مسلمانوں نے یونانی کتب کا عربی زبان میں ترجمہ کیا تو یہ با تیں مسلمانوں میں پیدا ہو گئیں۔ ان کا خیال تھا کہ انسان کو ہاتھ پائوں ہلا نے کی ضرورت نہیں بلکہ اسے صرف خدا پر بھروسہ کر کے گوشہ گیری اختیار کرنی چاہئے ۔اگر کوئی شخص زندگی پانا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے آپ کو فنا کر ڈالے۔ اس قسم کے سفلی خیالات نے مسلمانوں کو کاہل اور بے عمل بنا دیا تھا۔ اقبال ؒ نے’ ’ا سرار خودی‘‘ میں اس قسم کے غلط خیالات کی سخت مخالفت کی ۔ان کے اشعار قرآن شریف کی سچی تعلیمات کے علمبردار اور ترجمان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو پہچانو، دُنیا میں جو کچھ ہے وہ سب کچھ تمہارے لئے ہے، دل سے ڈراور خوف بالکل نکال دو ، دریائوں میں کود پڑو، لہروں سے ٹکرائو، چٹانوںکو توڑ جائو کیونکہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں ایک مستقل میدان جنگ ہے۔ اقبال ؒ عرصے سے طرح طرح کے اَمراض و عوارض کا شکار چلے آرہے تھے بالآ خر ان کی صحت نے جواب دیا اور مسلم امت کو بیدار کر نے والا صاحب فراش ہو گیا، اس حال میں بھی شعر گوئی ، مطالعہ اور ملاقاتوں اور مشاورت کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ ان دنوں کے مشاغل میں قوم پرستی نظریہ کی تردید یں ان کی تحریروں کا بہت نمایاں حصہ رہا ہے۔روایت ہے کہ اپنی وفات سے دس منٹ پہلے وہ قطعہ کہا جو شوق و حسرت کا بیان اور ان کی زندگی کا ترجمان ہے ؎
سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ نا ید
سرآمد روز گار این فقیرے
د گر دانائے راز آید کہ نا ید
اور پھر اپنا آخری لا فانی شعر کے مصداق ہوئے ؎
نشان ِ مردِ مومن باتو گویم
چو مرگ آید تبسم بر لب اوست !
یہ آخری دلیل ہے جو ان کے ایمان محکم، یقین ِغیر متزلزل، قبولیت بارگاہ ِ الہٰیہ، صداقت شعاری پر دلالت کر تی ہے ۔ا نہوں نے اپنے بوڑھے و فادار خادم علی بخش کی گود میں آخری سانس لی اور عالم اسلامی کے چپہ چپہ میں پھیلے ہوئے اپنے مداحوں ،دوستوں ،شاگردوں اور قدر دانوں سے منہ موڑ کر سو گوار چھوڑ کر دین ودنیا میں چمکتا دمکتاآفتاب اقبال اللہ سے ابدی ملاقات کے لئے عالم برزخ کی طرف کوچ کرگیا ۔ اَناﷲِ و اِنا اِلیہِ راجعون۔ ۲۱ ؍ اپریل ۱۹۳۸ کو انتقال پر ملال کے وقت ان کی عمر ۶۲ ؍ سال سے اوپر تھی۔ اقبال ؒ کی وفات کی خبر آناََ فاناََ لا ہور میں پھیل گئی ، ہر جانب سوگواری کاعالم چھا گیا ،لوگ سڑکوں پر اُمڈ آئے، ہندوستان بھر میں جگہ جگہ ماتمی جلسے منعقد ہوئے، شعراء نے مرثیے کہے، لوگ دیوانہ و ار جو ق در جوق جاوید منزل کے ا ندر باہر جمع ہوئے، شام کو جنازہ اُٹھا اور شاہی مسجد کے مناروںکے سایہ میں علامہ کی میت پورے اشکبار آنکھوں اور تھر تھراتے ہاتھوں سے دفن کی گئی۔ اقبال ہم میں نہ رہے لیکن انہوں نے ہمارے دلوں کو یقین عمل اور تنظیم کے جس نور سے جگمگا تا تھا ،اس کی روشنی شک اور مایوسی کی تاریکی میں ہمیں صراط مستقیم د کھاگئی ا ورکھلاتی رہے گی ۔ ہمیں چاہئے کہ علامہ اقبال ؒ کے کلام وپیام کو سمجھیں اور اسلام کی نروشنی میں اس کے پیام پر اولوالعزمی کے ساتھ عمل پیرا ہوں ۔ غیر منقسم ہندوستان کی بڑی بڑی ہستیوں مثلاً قائدا عظم محمد علی جناح ، مولانا ابوالکلام آزاد، رابندر ناتھ ٹیگور ، سبھاش چندر بوس، گاندھی جی ، پنڈت جواہر لال نہرو کے علاوہ علماء فضلاء ادباء اور ہندو نیتائوں نے اقبال کی عظمت کا صدق دلانہ اعتراف ہی نہ کیا بلکہ ان سے بہت کچھ سیکھا بھی۔ اقبال کی قدر و منزلت کا اندازہ ان کے انتقال کے بعد بے شمار تعزیتی پیغامات ان کے اہل کانہ اور مداحوں کو موسول ہوئے ۔ رابند ناتھ ٹیگور اپنے تعزیتی خط میںلکھتے ہیں کہ ہمارے ادب میں ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جس کے پر ہونے میں ایک جان لیوا زخم مندل ہونے کی مانند بہت عرصہ لگے گا، ہندوستان ایسے شاعر کی وفات سے اور بھی قلاش ہو گیا ہے جس کی شاعری عالمگیری اور آفاقی شہرت کی حامل تھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کہتے ہیں یہ سوچ کے نا قابل بیان صدمہ دل پر گذرتا ہے کہ اب اقبال ؒ ہم میں موجود نہیں ہے، جدید ہندوستان ارداو کا ان سے بڑا شاعر پیدا نہیں کر سکے گا ۔ ان کی فارسی شاعری بھی جدید ادب میں اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہے ۔ ان کی وفات سے صرف ہندوستان کو نہیں بلکہ پورے مشرق کو نقصان پہنچا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے ا س کا انتہائی قلق ہے کہ میرا ایک دیرینہ دوست مجھ سے بچھڑ گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اقبال ؒ کی عظمت کا اعتراف ان لفظوں میں کیا : اگر میں ہندوستان میں اسلامی حکومت کو قائم ہو تا دیکھنے کے لئے زندہ ہوں اور اس وقت مجھ سے کہا جائے کہ ایک طرف اس اسلامی حکومت کا رئیس اعلیٰ کا عہدہ ہے تو دوسری طرف اقبال ؒ کی تصنیف ،تو میں تصنیف کو ترجیح دوں گا۔ گاندھی جی لکھتے ہیں: ڈاکٹر سر محمد اقبال کے بارے میں کیا لکھوں جب ان کی مشہور نظم’’ سارے جہاں سے ا چھا ہندوستان ہمارا‘‘ پڑھی تو میرا دل بھر گیا۔ علامہ اقبال کی شخصیت اور ذات ہی نہیں بلکہ ان کا فکر وفن چونکہ قرآن کریم میں ڈھلا تھا،اس لئے انہیں حیات ِا بدی حاصل ہے ۔
رابطہ: ریشن ہار نواکدل سرینگر
9906574009