تاریخی حقائق اور خاص طور پر اس پیچیدہ اور مبہم دور کو سامنے رکھتے ہوئے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد پیش آیا اور اسلامی معاشرہ پر اندرونی وبیرونی بدلتے حالات کا جو ردِعمل ہوا ،ان سب کا جائزہ لینے سے جو بات نظر آتی ہے وہ یہ کہ حضرت معاویہؓ کو لوگوںکی نفسیات پہچاننے کا ملکہ اور عرصہ دراز تک حکومت کرنے کا جو تجربہ تھا اس نے ان کو یقین دلایا کہ اس وقت کے اسلامی معاشرہ کی قیادت اور وسیع اسلامی مملکت کی سربراہی (جس کے عناصر میں تنوع پیدا ہوچکا تھا اور جس کو چند درچند مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا)خلافت راشدہ کے ان خطوط پر قائم نہیں رکھی جاسکتی ،جن کو پوری طاقت سے نبھاتے رہے،حضرت معاویہ ؓ اس بات پر مطمئن ہوگئے کہ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ اسلامی مملکت کو خطرات سے محفوظ رکھا جائے ،امن و امان قائم رہے ،غزوات و فتوحات کا سلسلہ جہاں تک جاری رہ سکتا ہے، اس کو جاری رکھا جائے اور اس کی خاطر ایک شخصی موروثی مگر عادل حکومت قائم ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔حکومت اسلامی تعلیمات کی تابع ہو مگر اس میں لچک ہو اور شریعت کا پاس و احترام بھی امکانی حد تک قائم رہے،حکومت کے انتظامیہ اور حکومت چلانے کے طریقے اور لوگوں سے معاملہ کرنے کے اصول میں توسیع سے کام لیا جائے۔اگر ضرورت و حالات اس کے متقاضی ہیں تو اس میں کوئی نقصان نہیں ہے،مملکت تو دائرہ اسلام سے باہر نہیں جائے(جس کی نوعیت اب ایک بڑی سلطنت کی ہوچکی ہے اور وہ مختلف نسلوں ،تہذیبوں اور ومذاہب کے ماننے والے عناصر پر مشتمل ہے)،ہوشیاری اور لچک کے ساتھ معاملات سلجھائے جائیں اور جو مشکلات سامنے آئیں ان کو حل کرنے میں حکمت عملی اور مصلحت وقت سے مدد لی جائے،وقت و مقام کے اختلاف کو پیش نظر رکھا جائے ،لہٰذا انہوں نے اپنی حکومت ایک مسلمان فوجی و انتظامی سربراہ کی حیثیت سے قائم کرلی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیش گوئی بھی فرمائی:سنن ابن داوودمیں سید بن جمہان سے روایت ہے کہ سفینہؓ نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ ؐ نے مجھ سے فرمایا:’’میری اُمت میں خلافت تیس سال تک رہے گی ،پھر بادشاہی ہوجائے گی ،پھر مجھ سے سفینہؓ نے کہا کہ ابوبکر ؓوعمرؓ وعثمانؓ کی خلافت کا زمانہ جوڑو ،پھر کہا علیؓ کی خلافت کو جوڑو ، تو ہم نے اس کو تیس سال پایا۔‘‘
خلافت علی منہاج النبوۃ تیس سال رہے گی ،اس کے بعد اللہ ملک جس کو چاہے گا دے دے گا ،ایک روایت میں ہے ،اپنا ملک جس کو چاہے گا دیدے گا۔
حضرت معاویہؓ کو خودبھی اس کا دعویٰ نہ تھا کہ ان کی حکومت خلفائے ثلاثہ (حضرت ابوبکر ؓو عمرؓ و عثمانؓکی خلافت کی طرح ’’خلافت راشدہ‘‘ہے ،وہ صفائی کے ساتھ فرماتے تھے کہ وہ ایک حاکم اور والی ٔ سلطنت ہیں ،البتہ ان کے جو حکام اور والیانِ سلطنت آئیں گے ،اُن کے طرز عمل کو دیکھ کر ان کی قدر کی جائے گی،اور کھلا فرق محسوس ہوگا۔(البدایہ و النہایہ:ج۸/ص:۴۶،۱۵۳)
مشہور مورخ مسعودی (ابوالحسن علی بن الحسین المسعودی م۳۴۵)نے اُن کے روزانہ کے معمول کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ان کے یہاں دن رات میں پانچ مرتبہ اذِن عام تھا ،وہ صبح نماز فجر سے فارغ ہوتے تھے تو بیٹھ جاتے اور پچھلے حوادث و واقعات کی داستان سنتے ، پھر دولت خانہ تشریف لے جاتے ،اورقرآن مجید کے ایک پارہ کی تلاوت کرتے ،پھر مکان پر جاکر انتظامی ہدایات دیتے ،پھر چار رکعت پڑھتے اور خواص الخاص کو آنے کی اجازت ہوتی اور اُن سے تبادلہ ٔ خیال کرتے ، پھر مشیرانِ سلطنت حاضر ہوتے اور اس دن کے کرنے والے کاموں کی اطلاع دیتے ،پھر کچھ ناشتہ فرماتے ،پھر ایک بار گھر جاکر باہر تشریف لے آتے ،مسجد میں کرسی لگادی جاتی اور آپؓ کے پاس کمزور ،ہادیہ کا رہنے والا اعرابی ،ایک بچہ ،عورت اور بے کس لاوارث آدمی آتا ،آپؓ فرماتے اس کا لحاظ و احترام کرو،کوئی کہتا میرے ساتھ زیادتی ہوئی ،آپؓ فرماتے :اس کے معاملہ کی تحقیق کرو،جب کوئی باقی نہ رہتا تو مجلس سے اُٹھتے ،چار پائی پر بیٹھ جاتے اور فرماتے:لوگوں کو اُن کی حیثیت کے مطابق آنے دو۔
جب سب بیٹھ جاتے تو فرماتے:صاحبو!ان لوگوں کی ضروریات و مسائل کو ہم تک پہنچایا کرو ،جو خود نہیں پہنچ سکتے۔اسی لئے اللہ نے تم کو اعزاز بخشا ہے ،پھر ہر ایک کے معاملہ اور ضرورت کے مطابق ہدایات دیتے ،روزانہ کا یہی معمول تھا۔‘‘(مروج الذہب :ج۲/ص :۵۱،۵۲)ان سب کے ساتھ اہل سنت الجماعتہ کا عقیدہ ہے کہ خلافت کے معاملہ میں حق حضرت علیؓ کے ساتھ تھا۔(ازالتہ الخفاء ،حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ :ج۲/ص ۲۷۸،۲۸۰)
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ حرانیؒ نے بھی صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ’’حضرت علیؓ بن ابن طالب اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے، وہ مقابل جماعت کے مقابلہ میں برسر حق اور افضل تھے۔(مجموعہ فتاویٰ شیخ الاسلام :ج۴/ص ۴۳۳)
اس میں شک نہیں کہ حضرت معاویہؓ کے عہد میں اسلام اور مسلمانوں کو فتح و غلبہ حاصل ہوا،اسلام کو فتح مندیاں حاصل ہوئیں اور اس کا دائرہ بڑھا ۔حضرت معاویہؓ نے غزوات کا سلسلہ جاری رکھا اور فتوحات کا سلسلہ بری بحری راستوں سے وہاں تک پہنچا جہاں مسلمان فاتحین کے قدم پہلے نہیں پڑے تھے،ان کی فتوحات بحر اوقیانوس (انٹلانٹک) تک پہنچ گئیں۔اُن کے مصر کے گورنر نے سوڈان کو اسلامی مملکت میں شامل کرلیا ، اُن کے زمانہ میں بحری بیڑے کثرت سے تیار ہوئے اور اُن کو اس بات کا خاص اہتمام تھا ،یہاں تک کہ اُن بیڑوں کی تعداد سترہ سو تک پہنچ گئی ،یہ سب کشتیاں ہتھیار اور سپاہیوں سے بھر پور تھیں،اُن بحری بیڑوں کو وہ مختلف سمتوں میں روانہ کرتے اور وہ کامیاب ہوکر واپس آتے ،اُن کے ذریعے متعدد علاقے فتح ہوئے جن میں جزیرۂ قبرض (CYPRUS)اور یونان اور دریائے نیل کے بعض جزیرے اور جزئیٔ روس(RODES)بھی شامل ہے ۔خشکی کے علاقوں کو فتح کرنے کے لئے انہوں نے ایک فوج تیار کی تھی جو جاڑوں میں جاکر حملہ آور ہوتی ،جس کو ’’الشواتی‘‘کہتے تھے ،دوسرا دستہ تھا جو گرمیوں میں حملہ کرتا ،اس کانام ’’الصوائف‘‘تھا۔ یہ غزوات مسلسل جاری تھے اور مسلمانوںکی سرحدیں دشمنوں سے محفوظ تھیں۔ ۴۸ہجری میں حضرت معاویہؓ نے ایک بڑی فوج تیار کی تھی کہ وہ قسطنطنیہ پر بحری اور بری دونوں طرف سے حملے کرے،مگر چونکہ اس کی شہر پناہ بہت مضبوط اور وہاں تک پہنچنا دشوار تھا اور چونکہ یونانی آتشیں حملہ نے ان بیڑوں کو تباہ کردیا تھا ،اس لئے وہ حملہ کامیاب نہ ہوسکا اور قسطنطنیہ فتح نہیں ہوا ۔اس فوج میں شریک حضرت عبداللہ بن عباسؓ،حضرت عبداللہ بن عمرؓ،حضرت عبداللہ بن زبیرؓ ،حضرت ابوایوب انصاریؓ اور یزید بن معاویہ بن ابی سفیانؓ تھے ۔رسول اللہ ؐ کے میزبان حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی وفات اسی شہر پناہ کے حصار کے زمانہ میں ہوئی اور ان کی تدفین شہر پناہ کے قریب عمل میں آئی۔حضرت معاویہؓ کے زمانہ میں اور ان ہی کی حکومت کے زمانہ میں مسلمان قائد حضرت عقبہ بن نافعؓ افریقہ میں داخل ہوئے اور قبائل بربر میں جو لوگ اسلام لائے، وہ ان کی فوج سے آکر مل گئے اور قیروان میں اپنا ایک مرکز اور فوجی چھاونی بنالی،اور کثیر تعداد میں بربری اسلام لائے اور مسلمانوں کی حکومت کا رقبہ بڑھ گیا ۔
(تاریخ لامم الاسلامیہ(الدولتہ الامویہ) شیخ محمد الخضری بل ، ج:۱۔ص ۱۱۴۔۱۱۵ اور الانقاد علی تاریخ التمدن الاسلامی(جرجی رندان)مولف علامہ شبلی نعمانیؒ)
حضرت معاویہؓ میں بہت سی ایسی خوبیاں تھیں جن سے ان کی اسلام اور مسلمانوں سے محبت کا پتہ چلتا ہے اور یہ کہ دینی ڈھانچہ کو باقی رکھنا چاہتے تھے اور اس کا دفاع کرتے تھے ،ان کی دوربینی اور انتظامی امور میں حکمت کے علاوہ اُن کے اندر دین کی حمیت اور اسلام اور مسلمانوں کی مصلحتوں کو اگر ضرورت پڑے تو ترجیح دینے کا بھی جذبہ تھا ،اُن کا کارنامہ اس موقع پر قابل ذکر ہے جس سے ان کی بلندی ٔ کردار اور دین کی حمیت کا پتہ چلتا ہے ،جس کو بہت سے مورخین نے ذکر کیا ہے ،جن میں ابن کثیر ؒ بھی شامل ہیں۔ابن کثیرؒ نے لکھا ہے:’’شہنشاہ روم نے حضرت معاویہؓ کو ملانے کی خواہش ظاہر کی چونکہ ان کا اقتدار رومی سلطنت کے لئے خطرہ بن چکا تھا اور شامی فوجیں اس کی افواج کو مغلوب کرکے ذلیل کرچکی تھیں ،اس لئے اس نے جب یہ دیکھا کہ حضرت معاویہؓ حضرت علیؓ سے جنگ میں مشغول ہیں ،وہ بڑی فوج کے ساتھ کسی قریب کے ملک میں آیا اور حضرت معاویہ ؓ کو لالچ دی تو حضرت معاویہؓ نے اس کو لکھا:’’بخدا اگر تم نہ رُکے اور اے لعین! اگر تو اپنے ملک واپس نہ گیا تو ہم اور ہمارے چچا زاد بھائی (علیؓ)دونوں آپس میں مل جائیں گے اور تجھ کو تیرے تمام قلمرو سے خارج کردیں گے اور روئے زمین کو (اس کی وسعت کے باوجود) تجھ سے تنگ کردیں گے ۔یہ سن کر شاہِ روم ڈر گیا اور جنگ بندی کی اپیل کی۔‘‘(البدایہ والنہایہ،ج :۸،ص:۱۱۹)
یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ حضرت معاویہؓ بن ابی سفیان ؓ اصحابہ کرام ؓ کی جماعت کے ایک ممتاز فرد ہیں، ان کے مناقب میں حدیثیں وارد ہوئی ہیں ۔۔۔ وہ ایک ایسے صحابیؓ ہیں جن کو قربت کا شرف بھی حاصل ہے۔امام ابو داوو نے حضرت ابو سعید خذری ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا:’’میرے صحابہؓ کی برائی نہ کرو ،قسم اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد کے برابر بھی سونا اللہ کی راہ میں دے دے تو اُن کی برابری کیا ان کے ایک مد،اور آدھے مد کے برابر بھی نہیں آسکتا ۔‘‘
ابو داؤدؒ نے ابوبکر ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا:(رسول اللہ ؐ نے حضرت حسنؓ کے بارے میں فرمایا کہ یہ فرزند سردار ہے ،مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ میری اُمت کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا ) ، ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:’’اُمید ہے کہ اللہ ان کے ذریعے دو بڑے گروہوں میں صلح کرادے گا)۔دیلمی نے حضرت حسن ابن علیؓ سے روایت کی ہے ،انہوں نے فرمایا ؛’’میں نے حضرت علیؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ فرماتے تھے کہ میں نے سُنا رسول اللہؐ فرماتے تھے ،دن رات کے تسلسل کا قصہ ختم نہ ہوگا کہ معاویہؓ برسر حکومت آجائیں گے۔‘‘
آجری کتاب الشریعہ میں عبدالملک بن عمیر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاویہؓ نے فرمایا:’’جب سے میں نے رسول اللہؐ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے معاویہ! اگر تم کو حکومت مل جائے تو اچھی طرح حکومت کرنا ،اُس وقت سے مجھے خلافت کے حصول کی تمنا تھی۔‘‘
حضرت اُم حرام ؓ کی حدیث سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:’’پہلی فوج جو سمندری علاقہ پر حملہ آور ہوگی اس میں حصہ لینے والوں کی نجات اور بخشش ہے۔‘‘اور پہلا شخص جو حضرت عثمان ؓ کے عہد میں بحری راستہ سے جہاد کو نکلا وہ حضرت معاویہؓ تھے اور حضرت ام حرامؓ اس فوج میں تھیں اور سمندر عبور کرنے کے بعد ان کی وفات ہوئی ہے ۔یہ بات ثابت ہے کہ حضرت معاویہؓ کو رسول اللہؐ نے اپنا کاتب بنایاتھا اور آپؐ اپنا کاتب اسی کو بناتے تھے جو عدل و امانت کے صفات سے متصف ہو۔حضرت معاویہؓ اپنے بارے میں کہتے ہیں :(میں خلیفہ نہیں ہوں لیکن اسلام میں پہلا بادشاہ ہوں اور میرے بعد تم کو دسرے باشاہوں کا تجربہ ہوجائے گا ۔)حضرت معاویہؓ کے پاس رسول اللہؐ کے چند موئے مبارک تھے ،انہوں نے وصیت کی تھی کہ ان موئے مبارکوں کو ان کے مرنے کے بعد ان کی ناک کے اندر رکھ دیا جائے۔(ازالتہ الخفاء عن خلافتہ الخلفاء۔۔۔ حکیم الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ :ص۔۱۴۶،۱۴۷)
وہ خلافت کے بعض ایسے اصول و مقاصد سے واقف تھے جن کو وہ عمل میں نہ لاسکے ،اس لئے کہ زمانہ بدل چکا تھا اور حالات و ماحول کے تقاضے،مملکت کی وسعت ،ذمہ داریوںکی کثرت ،وقتی مسائل کی مشکلات اور سربراہ حکومت کی نازک ذمہ داریاں (اُن کے نزدیک) اس کی متحمل نہ تھیں،جو لوگ ان گہری اور وسیع تبدیلیوں اور زمانہ کے عظیم فرق سے واقف ہیں ،وہ اُن کو کسی حد تک معذور قرار دیں گے اور فیصلہ کرتے وقت حالات اور ماحول کی تبدیلی کو نظر میں رکھیں گے ۔(ازالتہ الخفاء ؛ص؛۱۴۸،۱۵۲)
�����