غریب نواز مصباحی
انسانی زندگی میں کچھ صفات بہت ہی قابل اہم ہوتے ہیں، جو انسان کے کردار، گفتار اور شخصیت کی تعبیر کرتے ہیں، انھیں میں سے ایک صفت حلم و بردباری اور تحمل و برداشت ہے۔ جو شخص آپ پر ظلم و زیادتی کرے،آپ کے ساتھ بُرا سلوک کرے اور آپ بدلہ لینے کی طاقت و قوت کے باوجود اسے معاف کردیں تو یہ حلم ہے، یہ انسان کی سب سے افضل و اعلیٰ خوبی اور کمال ہے کیوں کہ یہ خوبی اور کمال کئی فضائل کا مجموعہ ہے، جیسے طبیعت میں ٹھہراؤ، کشادہ دلی، قوت برداشت اور غصے پر کنٹرول، یہ خوبی اور کمال صرف وفاشعار معززین کو حاصل ہوتے ہیں اور ان وفاشعاروں میں سب کے آگےسرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات مبارکہ ہے۔نبی کریمؐ کی ذات مبارکہ میں حلم اپنی خوب صورت ترین شکل میں موجود تھا اور آپ عفو در گزر کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ نبی کریمؐ بُرائی کا بدلہ برائی سے دینے کے بجائے عفو در گزر سے کام لیا کرتے، آپؐ نے کسی پر ظلم نہیں کیا بلکہ جس نے آپؐ پر ظلم کیا اس کو بھی معاف کردیا، نبی کریمؐ نے محروم رکھنے والوں کو نوازا، قطع رحمی کرنے والوں کے ساتھ صلہ رحمی کی، برا سلوک کرنے والوں کو درگزر فرمایا اور ظلم وزیادتی کرنے والوں کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ فرمایا،آپؐ نہ اپنی ذات کے لیے غصہ ہوتے نہ ذاتی انتقام کے لیے، جب آپؐ کو غصہ دلایا جاتا تو اس وقت آپ کا حلم اور بڑھ جاتا، کبھی تو آپؐ غصہ دلانے والوں کو مسکراکر معاف کر دیتے تھے اور کبھی درگزر کردیا کرتے تھے۔
جب ہم نبی کریمؐ کی مکی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں بےشمار واقعات ملتے ہیں، اعلان نبوت کے بعد مکہ کے باشندوں نے ہر طرح سے آپ ؐپر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، راستے میں کانٹے بچھائے، دوران نماز آپ پر اونٹنیوں کی غلاظت ڈال دی، جان سے مارنے کی کوشش کی، آپؐ کے جاں نثار صحابہ کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا، شعب ابی طالب میں تین سال تک محصور رکھا، ان تمام مصیبتوں کو برداشت کرتے ہوئے نبی کریمؐ نے جس حلم و بردباری کا مظاہرہ کیا، دنیا آج اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔(اسوۃ العالم)
حضور صلی اللہ علیہ و سلم جب اہل طائف کو دعوت توحید دینے کے لیے تشریف لے گئے تو ان لوگوں نے جس انداز سے آپؐ کو تکلیف پہنچائی تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں، ان لوگوں نے اپنے اوباش، لفنگے اور بچوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے لگا دیے، ان لوگوں نے پتھر مار مار کر آپؐ کو زخمی کر دیا،لہولہان ہو گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ میرے پاس پہاڑ کا فرشتہ آکر کہنے لگا کہ یا رسول اللہؐ! میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں، آپؐ کے رب نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے، آپؐ جو چاہیں مجھے حکم دے ،اگر آپ چاہے تو میں ان دونوں سنگلاخ پہاڑوں کو اٹھا کر ان پر رکھ دوں اور وہ سب ہلاک و برباد ہو جائے، لیکن نبی رحمتؐ جو جواب دیتے ہیں ایسی مثال تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں مجھے امید ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا کرےگا جو ایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔
کیا آپ دنیا میں کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں کہ جس سے اس کے دشمنوں کو تباہ برباد کرنے کا مشورہ کیا جا رہا ہو اور یہ بات بھی یقینی ہو کہ اس کے ایک اشارے پر انھیں تباہ و برباد اور نست ونابود کردیا جائے گا، لیکن وہ شخص یہ جواب دے رہا ہو کہ مجھے امید ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی نسلوں سے اچھے لوگ پیدا کرے گا اور وہ لوگ ایمان لائیں گے یہ صرف اور صرف نبی کریم ؐ کی ذات مبارکہ ہے کہ جس نے تاریخ کے تمام بردباروں کو پیچھے چھوڑ دیا اور آپؐ عفو و درگزر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
اب ہم اس منظر کا بھی جائزہ لیتے ہیں جس کے تصور سے روحیں کانپ اٹھتی ہیں، آنکھیں نم ہوجاتی ہیں اور دل دھڑکنے لگتا ہے ،وہ اہل مکہ کے تعلق سے نبی کریم ؐ کا عفو و درگزر کرنا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ٢٠ رمضان المبارک آٹھ ہجری کو فاتحانہ مکہ میں داخل ہوتے ہیں، آج آپؐ کی نگاہوں کے سامنے وہ تمام مجرم گھڑے ہیں جنھوں نے آپؐ کو آج سے آٹھ سال پہلے اپنا مقدس شہر اور گھر چھوڑنے پر مجبور کیا تھا، آج آپؐ کے سامنے وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے تھے، وہ خوں خوار بھی تھے جنہوں نے آپؐ کو مارنے کی ناپاک سازشیں کی تھیں، وہ بے رحم و بےدرد بھی تھے جنھوں نےآپؐ کے دندان مبارک کو شہید اور آپ کے چہرۂ انور کو لہولہان کر ڈالا تھا، وہ سفاک و درندہ صفت بھی تھے جو آپ کے گلے چادر کا پھندا ڈال کر آپ کا گلہ گھونٹ چکے تھے، وہ جفاکار و خوں خوار بھی تھے جن کے جارحانہ حملوں سے مدینہ منورہ کے در و دیوار ہل چکے تھے، آپؐ کے چچا کے قاتل، ان کی ناک کان کانٹنے اور ان کا جگر چبانے والے بھی موجود تھے، آج آپ ؐکے جاں نثار صحابہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والے بھی موجود تھے، آج یہ سب کے سب دس ہزار اسلامی لشکر کی حراست میں مجرم بنے کانپ رہے تھے اور دل ہی دل میں یہ سوچ رہے تھے کہ آج ہماری لاشوں کو کتوں سے نچوا کر ہماری بوٹیاں چیل کوئوں کو کھلا دی جائیں گی اور انصار و مہاجر کی یہ غضبناک فوجیں ہمارے بچے بچے کو خاک و خون میں ملا کر ہماری نسلوں کو نست و نابود کر ڈالیں گی۔ ان مجرموں کے پیر کانپ رہے تھے، دل دھڑک رہے تھے، کلیجے منہ کو آ گئے تھے اور عالم یاس میں انھیں زمین سے آسمان تک دھوئیں ہی دھوئیں کے خوف ناک بادل نظر آ رہے تھے، اسی مایوسی اور ناامیدی کی خوف ناک فضا میں نبی رحمتؐ کی نگاہ نبوت ان پاپایوں کی طرف متوجہ ہوئی اور ان مجرموں سے پوچھا کہ ’’بتاؤ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟‘‘ اس دہشت انگیز اور خوف ناک سوال سے مجرمین ہواس باختہ ہو گئے ۔لیکن امید بیم کے محشر میں لرزتے ہوئے بول پڑے ’’آپ کریم ابن کریم ہے ہم لوگوں کو آپ سے رحم کرم کی امید ہے‘‘ اس وقت تمام مجرموں کی للچائی ہوئی نظریں جمال نبوّت کا منہ تک رہی تھی اور کان نبی رحمتؐ کے فیصلہ کن جواب سننے کے منتظر تھے کہ اتنے میں مکہ کی وادی میں ’’لا تثریب علیکم الیوم فاذبھبوا أنتم الطلقاء‘‘ کی آواز گونجی کہ آج تم سب آزاد ہو، تم پر کوئی ظلم و زیادتی نہیں، اتنا سننا تھا کہ تمام مجرمین آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتے ہیں۔ (سیرت مصطفیٰ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پوری زندگی حلم و بردباری اور عفو در گزر سے بھر پور ہے، وہ کون سی نعمت ہے اور وہ کون سی نیکی اور بھلائی ہے جو انسانیت کو رسول اللہؐ کے در پاک سے نہیں ملی ۔یہ اعلیٰ اخلاقی اقدار ، تواضع و انکساری ، حلم و بردباری ، صدق و صفا ،امانت و قناعت ، صلح و سلامتی ، امن وامان ، خلوص و للّٰہیت ،زہد و تقویٰ ، عالی ہمتی ، بلند حوصلگی ، ضمیر کی بیداری ، عقل انسانی کی آزادی ، حدود الٰہیہ کا احترام کرتے ہوئے آزادی رائے کا تصور ، عدل وانصاف کی بالا دستی یہ سب کچھ انسانیت کو آ پؐ ہی کے در پاک سے ملے ہیں ۔یہ قلم و قرطاس ، یہ علمی جستجو و تحقیقات وغیرہ یہ سب تو آپ ہی کی بعثت کی ہی برکتیں ہیں ، عالم انسانیت پر ابر ِرحمت کے یہ چند قطرات تھے ،جنھیں آپ نے ملاحظہ کیا ۔یہاں یہ خیال رہے کہ سرکار بطحا صلی اللہ علیہ و سلم کے رحمت و کرم کا ابر صرف عالم انسانیت پر ہی نہیں برستاہے بلکہ جس طرح آپؐ سب کے لیے رحمت ہیں ،اسی طرح آپ ؐکی رحمت بھی سب کے لئے عام و تام ہے اورآپؐ کا ابر ِ رحمت و کرم سب پر جھوم جھوم کر برستا ہے ۔
gharibnawazmisbahi@gm
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)