بشارت بشیر
حد درجہ مسائل سے دوچار دنیا کے سامنے تحمل اور بردباری سے محرومی یعنی عدم برداشت سب سے اہم ترین مسئلہ ہے یہ برداشت کی صفات کا عنقا ہونا ہی ہے کہ وحشت ودہشت کے مہیب سائے بڑھتے جارہے ہیں۔ہیجان خیز ی کی وجہ سے مختلف اقسام کا شر فروغ پارہا ہے۔ چھوٹی باتوں کو رائی کا پہاڑ بنا کر انسانی جانوں کا اتلاف ہوجاتا ہے ۔عزتیں خاک ہوجاتی ہیں۔ خود کشیوں کی شرح میںاضافہ در اضافہ ہے دوسروں کے نقطہ ٔ نظر کو سننے اور برداشت کرنے کی روایت مفقود ہوتی جارہی ہے۔ صرف اپنی سنانا اور منوانا عادت بن چکی ہے۔ یاد رہے برداشت کو عربی میںتحمل کہا جاتا ہے۔ اس کے لغوی معنی بوجھ اُٹھانے کے ہیں ،یہ وہ صفت ہے جس سے انسان میں قوت وطاقت پیدا ہوجاتی ہے۔ جس کی بنیاد پر وہ غصہ اور جوش انتقام کے جذبے کے باوجود عفوو ودرگذر کو شعار بنالیتا ہے اور اپنے کو صبر کے حصار میںرکھ کر کسی بھی غلط قسم کا رد عمل دینے سے احتراز کرتا ہے۔ جب کہ عدم برداشت سے مراد وہ منفی رویہ ہے۔ جو کسی کی رائے، سوچ یا نقطہ نظر سے آپ متفق نہ ہونے اور فکر ونظر کے اس اختلاف کو برداشت نہ کرپانے اور نامناسب ردعمل دینے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن حکیم نے برداشت کرنے والے لوگوں کویوں سراہا ہے، ’’اور وہ اپنے غصہ کو ضبط کرتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرتے ہیں‘‘۔[آل عمران:134]۔ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ا س حوالہ سے بہترین نمونہ ٔ عمل ہے۔مکہ کے تیرہ برس کے دور میں کون سا وار ہے جو آپ ؐ نے سہہ نہ لیا ہو اور کون سا ظلم ہے جس کو برداشت نہیں ہو۔ طائف کے سفرمیںآپ ؐ لہو لہان ہوئے لیکن معاف فرماگئے۔عام مسلمان صحابہ پر قہر وستم کے پہاڑتوڑے گئے لیکن اُنہوں نے ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔
عدم برداشت کا یہ مرض انسانی معاشروں کو دیمک کی طرح اندر ہی اندر چاٹ رہا ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ عدم برداشت ایک ایسا زہر ہے جس سے صرف فرد واحد ہی نہیں بلکہ فرد واحد کے واسطے سے دو، تین ، چار، سو،ہزار یہاں تک کہ پوری سوسائٹی اس زہر کا اثر محسوس کرتی ہے۔ان حالات میںلازم ہے کہ ہم قرآن کے احکامات اور جناب رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں کہ انتہائی کربناک اور مشتعل کرنے والے حالات میں ہم اس کا رگہہ حیات میںکیسے جئیں ۔ اس وقت جب ہر شخص اپنی دنیا میںمگن اور اپنی مادی زندگی کو سنوارنے میں مصروف عمل ہے۔ دوسرے کا دکھ درد دور کرنا تو دور کی بات کبھی کبھی اپنوں ، غیروں کو دکھ میںدیکھ کر قرار بھی محسوس کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ انسانی صفت ہوہی نہیں سکتی اور جب انسان اس حد تک اخلاقی لحاظ سے گر جائے تو پھر اُس کی انسانیت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ نبی رحمتؐ کا یہ فرمان بغور پڑھئے پھر اس کی اَتھاہ گہرائیوں میںجائیے کہ ’’ ہم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے‘‘[ بخاری ] اس ارشاد کو انسانی معاشرہ شعار بنائے تو دنیا محبت وآشتی کی آماجگاہ بن جائے گی۔
تحمل وبرداشت اور حلم وبردباری ان اعلیٰ ترین اوصاف میں سے ہے جو افراد واقوام کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بہر نوع کامیابی کی کلید ثابت ہوسکتے ہیں۔حلم کی وجہ سے انسان کے نفس میں وہ قوت برداشت اور سکون واطمینان پیدا ہوتا ہے کہ قوت غضب غالب نہیں آتی۔ ایک حلیم انسان کی مرضی اور منشا کے خلاف کوئی بھی بات ہو یا کوئی گزند بھی پہنچائی جائے وہ صبر وضبط کا دامن نہیں چھوڑتا ۔قرآن حکیم نے اس کی اثر آفرینی بیان فرمائی : ’’ اور اے نبی ؐ نیکی اور بدی یکساں نہیں تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے‘‘۔[حم السجدہ:34]
جیسا کہ عرض کرچکا کہ رسول اکرمؐ نے نہ صرف حلم وتحمل ، صبر وبرداشت کی تعلیمات سے روشناس فرمایا ،وہاں آپ کا اسوئہ حسنہ اس کی درخشندہ مثالیں پیش کرتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کمال صبر اور قوت برداشت وتحمل ہی ہے جو آپؐ کی متانت اور صداقت کی مظہر تھا اور جسے دیکھ کر یہود کا بڑا عالم زید بن سنعہ آپؐ پر ایمان لے آیا اور اپنا آدھا مال صدقہ کیا اور غزوئہ تبوک میں اللہ سے جاملا ۔ قرآن اسی جانب اشارہ فرماتاہے :’’ اے پیغمبرؐ یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ آپ ان لوگوں کے لئے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر آپ تند خود اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے گرد وپیش سے چھٹ جاتے۔‘‘[آل عمران:159]
سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ : آپ ؐ نے کبھی کسی ذاتی معاملہ میں بدلہ نہیں لیا سوائے اس کے کہ احکام الٰہی کی خلاف ورزی ہوئی ہو ٗ اور اللہ کے حدود میں سے کسی حد کو توڑا گیا ہو۔ آپ ؐکے مثالی برداشت اور صبر کے کتنے واقعات بیان کئے جائیں۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نجران کی بنی ہوئی چادر نبی رحمتؐ زیب تن کئے ہوئے تھے کہ ایک بدو نے چادر کو زور سے کھینچ لیااِتنا کہ گردن مبارک پر نشانات پڑ گئے، بدو کہنے لگا اللہ کا مال جو آپ کے پاس ہے اس میں سے مجھے بھی حصہ دیں‘‘۔اس شدید ترین حرکت کو دیکھ کر آپؐ نے کوئی سخت ردعمل نہیں دیا ،مسکرا کر خادم سے فرمایا کہ اس کو مال غنیمت میں سے کچھ عطا کردیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے ایک روز سوال کیا کہ احد کے دن سے بھی زیادہ تکلیف دہ دن آپ پر گذراہے۔ فرمایا: تمہاری قوم نے یوم العقبہ کو جو تکالیف پہچائی وہ بہت زیادہ سخت تھیں۔
یاد رہے کہ صبر وبرداشت کہتے ہی اس عمل کوہیں کہ انسان انتہائی تکلیف دہ مراحل اور پُر اذیت حالات میں اپنے کو قابو سے باہر نہ ہونے دے۔صبر وبرداشت کی قرآنی ونبوی تعلیمات کسی کمزوری کا اظہار نہیں بلکہ ان کا اصل مقصد قومی اور بین الاقوامی سطح پر امن کے قیام کے لئے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی ہے۔ میدان جنگ ہو یا جنگی قیدیوں کی قسمتوں کا فیصلہ کرنا ہو، مقدس حلقوم پر کپڑاڈال کر کھینچنے کا مذموم عمل ہو یا انسان کی راہوں میں کانٹے بچھانے کے روح فرسا واقعات ہوں۔ ایک زوجہ مطہرہ تک پر الزامات لگانے کی دل دوز سازشیں ہوں یا بدزبانیوں اور بدکلامیوں کی یورشیں ہوں، معاہدوں کی خلاف ورزیاں ہوں یا وطن سے بے وطن کرنے کا خطرناک منصوبہ ،قدم قدم پر رسول اکرمؐ کا کمال صبر وبرداشت دشمنوں کو تھکا دیتا ہے، خود زیادتیاں اور جور وظلم آب آب ہوکے رہ جاتے ہیں۔
یاد رکھئے کہ برداشت وصبرکے ان ہی اوصاف سے متصف ہوکر انسانوں کی دلوں کو مفتوح کیا جاسکتاہے۔ قرآن گویا ہے :’’تمہارا بھلا ہوتاہے تو ان کو بُرا معلوم ہوتا ، اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں‘‘۔مگر ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کار گر نہیں ہوتی ۔بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔یہ جو کچھ کررہے ہیں اللہ اُس پر حاوی ہے‘‘۔[آل عمران:120] فتح مکہ کے موقع پر آپ ؐنے عفو ودرگذر کی جو مثالیں قائم ہیں دنیا ہنوز عش عش کرتی نظر آرہی ہے۔جن کا گھر چھین لیا گیا ہو، جس کی زمین تنگ کی جاچکی ہو ،جن کے اموال پر قبضہ کیا جاچکا ہو ۔ جن کی راہوں میںکانٹے بچھائے گئے ہوں وہ فتح یاب ہوکر آئیں تو کیا کیا نہیں کرتے۔لیکن قربان جائیے ان قرآنی اور نبوی ؐ تعلیمات کو کہ مجرمین کو عفو عام کی نوید جاں فزا سنائی جاتی ہے اور صبر وبرداشت کی رخشندہ تاریخ مرتب ہوئی ہے۔ ایک صحابیؓ کی طرف سے اسی موقع پر جب یہ آواز آئی کہ آج کا دن بدلہ کا دن ہے تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے صداسنی فوراً فرمایا : نہیں ایسا قطعاً نہیں آج کا دن رحمت کا دن ہے۔
یاد رہے کہ انسانی شخصیت کا کمال اسی قوت برداشت اور حلم وبردباری میں پوشیدہ ہے ،یہی بات قرآن نے یوں بیان کی ہے:’’ البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگذر کرے تو یہ بڑی اوللعزمی کے کاموں میںسے ہے‘‘۔آج جیسا کہ لکھ چکا کہ عدم برداشت دنیا میںوہ مرض ہے جس نے ہر گوشہ ٔ زمین کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ اصل میں ہر انسانی اپنی خول میںبند نظر آتا ہے۔ کوئی کسی کی بات سننے کو تیار نہیں۔ والدین اور اولاد اپنی انا پر قائم اورہلاکت خیز راستوں پرگامزن ہیں، استاد اور شاگردوں کی بھی آپس میں نہیں بنتی ، گاہک اور دکاندار آستینیں چڑھائے بیٹھے ہیں ،گاڑی کا ڈرائیور صبر سے عاری ہے، سواری فوری منزل پر پہنچنا چاہتی ہے، میاں بیوی ایک دوسرے کی نہیں سنتے۔ آج دنیا میںطلاق کی بڑھتی شرح اسی بات کی غماز ہے کہ زوجین ایک دوسرے کی بات سننے پر آمادہ نہیں ۔ نتیجہ کے طور پہلے لہجہ تلخ بن جاتا ہے پھر دراڑ پڑ جاتی ہے ۔انجام کار ایک دوسرے سے الگ ہوکر ساری زندگی کا پچھتاوا مول لیتے ہیں۔آفیسر اور ماتحت ایک دوسرے کی سننے ماننے کو تیار نہیں ہر شخص میںنامانوں کے گھوڑے پر سوار اپنی الگ دنیا کی تعمیر کی تلاش میںخود یکتا وتنہا ہوتا جارہا ہےاور اس عدم برداشت کا بنیادی سبب تکبر ہے۔ ابلیس بھی خود پسندی کا شکار ہوکر راندئہ درگاہ بن کے رہ گیا ۔ اُس نے آدم علیہ السلام کی فضل وکمال سے انکار کیا تو کہیں کا نہیں رہا۔ اس لئے یاد رہے کہ کوئی شخص جب تکبر کا شکار ہوتا ہے اور وہ اُسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔ تکبرہی حسد پیدا کردیتا ہے،اسی حسد سے قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا ۔ حسد رقابت کا جذبہ پیدا کردیتا ہے اور اس رقابت کی کوئی انتہا نہیں ہوتی ۔ گھریلو تنازعات بدیں وجہ ہوتے ہیں۔سوکنوں کے باہمی مناقشوں کے پس پردہ یہی حسد ہوا کرتا ہے۔ ساس بہو اور نند بھابی کے جھگڑے بھی اسی وجہ سے ہوتے ہیں اور یہ حسد ہی ہے کہ ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے لوگ بھی باہم ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے اور پھر خاندانوں کا شیرازہ بکھر کے رہ جاتا ہے۔یاد رہے کہ حاسد ومتکبرانسان تنگ ذہن وہ کوتاہ نظر ہوتا ہے۔ حقیقت قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا ۔ علاقائی ، لسانی ، خاندانی ، گروہی اور جماعتی تعصبات اسی حسد ورقابت کی وجہ سے پھلتے پھولتے ہیں۔ یہ حسد کس قدر مذموم عمل ہے ٗ جو انسان سے خیر کی پہچان کی صلاحیت تک چھین لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کے سورہ انفال میں ایک دشمن دین کی دعا کا یوں ذکر کیا کہ ، ’’ اے اللہ !اگر رسول ؐ پر نازل ہونے والا کلام حق ہے تو ہم پر آسمانوں سے پتھروں کی بارش برسا، ہمیں دردناک عذاب میںمبتلا کردے ‘‘اور مدینہ پہنچ کر یہودیوں کا تکلیف دہ طرز عمل بھی اصل میں اُن کی حاسدانہ خصائل کا ہی اظہار تھا۔حاصل کلام یہ کہ معاشرے میں اعتدال کے قیام کے لئے عدم برداشت کی خوکو چھوڑنے کا عہد ہم سب کو کرنا ہوگا۔ ایک دوسرے کو قبول اور برادشت کرنے کا مزاج بنانا ہوگا۔ یاد رہے کہ جب تک یہ عدم برداشت ختم نہیں ہوتا۔ معاشرہ میںموجود تنائو اور بے چینی کا خاتمہ ناممکن ہے۔
آئیے اللہ سے دعا کریں کہ ہمارے مزاج میں نرمی ،متانت اور برداشت کی خو پیدا کرے۔ ہم ساری دنیا کے لئے سکون وراحت فراہم کرنے والے ثابت ہوں اور کبھی عدل و انصاف کا دامن ہمارے ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ آمین
رابطہ۔7006055300
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)