یوںتو نمازوں کی ادائیگی کے سلسلہ میں ملت کئی طرح کی خرابیوں میں مبتلا ہے لیکن ایک عام کوتاہی جو مشاہدہ میںآرہی ہے وہ یہ ہے کہ نمازوں کو بڑی جلدبازی کے ساتھ بہت ہی بری طرح ادا کیا جاتا ہے؛ قرأت میں ترتیل کا اور رکوع ، سجود ، قومہ اور جلسہ میں اطمینان و سکون اور اعتدال کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتاچہ جائیکہ خشوع و خضوع کا اہتمام کیا جائے۔ گویا علامہ اقبال نے اسی صورت ھال کو دیکھ کر فرمایا ہے ؎
تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر
سب سے اہم بات ہم سب کے سمجھنے کی یہ ہے کہ کوئی بھی عبادت ، اللہ کے حضور عبادت کا درجہ جب ہی حاصل کرپاتی ہے جب وہ بشمولیت ایمان و اخلاص کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے مطابق ہو۔جو عمل نبی کریم ؐ کی سنتوں کا لحاظ کئے بغیرعادتاً کیا جائے وہ عبادت کا مقام حاصل نہیں کرسکتا اور اس کے نتیجہ میں دنیا و آخرت میں انعامات کے جو وعدیں ہیں وہ بھی پورے نہیں ہوسکتے۔نماز کے متعلق آپؐ نے خصوصاً یہ ارشاد فرمایا: ’’ نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو‘‘۔( بخاری )۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہماری نمازیں اسی ہیئت اور کیفیت کے ساتھ ہوں جیسے رسول ؐ کی نمازیں ہوا کرتی تھیں۔آپؐ نماز کے تمام ارکان کو اعتدال و اطمینان کے ساتھ ادا فرماتے تھے۔چنانچہ انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ میں نے کسی کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جو رسول اللہ ؐ سے زیادہ مختصر اور مکمل نماز پڑھتا ہو۔رسول اللہ ؐ جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو کھڑے رہتے یہا ں تک کہ ہم یہ خیال کرتے کہ آپؐ بھول گئے ہیں (یعنی سجدے میں جانا بھول گئے)۔اس کے بعد آپؐ تکبیر کہتے اور سجدہ کرتے اور دو سجدوںکے درمیان اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہمیں خیال ہوتا کہ آپؐ بھول گئے ہیں۔(سنن ابوداؤد ، کتاب الصلوٰۃ)۔ براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ نبی ؐ کا رکوع اور آپؐ کے سجدے، اور دونوں سجدوں کے درمیان کی نشست اور(وہ حالت) جب کہ آپ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تھے (یعنی قومہ) تقریباً برابر ہوتے تھے، سوائے قیام اور قعود (یعنی تشہدکی حالت) کے۔(بخاری۔ کتاب الاذان)۔ نبی کریم ؐ صحابہ کرامؓ کو ایسی ہی نماز پڑھنے کا طریقہ سکھاتے تھے۔ ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں (کہ ایک مرتبہ) نبیؐ مسجد میں تشریف لے گئے، اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی اس کے بعد نبی ؐکی خدمت میں حاضر ہوکر اس نے سلام عرض کیاتو نبیؐ نے اسے سلام کا جواب دے کر فرمایا کہ جا پھر نماز پڑھ اس لئے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔اس نے پھر نماز پڑ ھی اس کے بعد آیا اور نبی ؐ کو سلام کیا، آپؐ نے فرمایا کہ جا پھر نماز پڑھ اس لئے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔اس طرح تین بار ہوا ۔تب اس نے کہا کہ جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس ذات کی قسم! میں تو اس سے اچھی نمازنہیں پڑھ سکتا، لہٰذا آپؐ مجھے تعلیم فرما دیجئے تو آپؐ نے فرمایا کہ جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو تکبیر کہہ پھر جس قدر قرآن آسانی کے ساتھ پڑھ سکے وہ پڑھ، اس کے بعد رکوع کر یہاں تک کہ جب اطمینان سے رکوع کرلے تو اس کے بعد سر اٹھا یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہوجا اس کے بعد سجدہ کر پھر جب اطمینان سے سجدہ کرچکے تو اس کے بعد سر اٹھا کر اطمینان سے بیٹھ جا اس کے بعد دوسرا سجدہ کر یہاں تک سجدہ اطمینان سے ادا ہو، پھر اپنی پوری نماز میںاسی طرح کر( یعنی پوری نماز اس طرح ادا کر)۔ (بخاری، کتاب الاذان)۔ یہ صحابی خلادؓ بن رافع تھے جنہوں نے رکوع اورسجدہ پوری طور پر ادا نہیں کیا تھا اسی لئے نبی کریم ؐ نے انہیں نماز لو ٹانے کا حکم فرمایا۔
نبی کریم ؐ کا ارشادگرامی ہے کہ لو گوں میں بدترین چور وہ ہے جو نماز میں چوری کرتا ہے،صحابہ ؓ نے عرض کیا :یا رسول اللہ ؐ ! نماز میں کس طرح چوری کرتاہے ؟ فرمایا: وہ رکوع و سجود کو پوری طرح ادا نہیں کرتا۔ (سنن دارمی، کتاب الصلوٰۃ،بروایت ابو قتادہؓ)۔نبی کریم ؐ کا یہ بھی ارشادپاک ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کی نماز کی طرف نظر التفات نہیں فرماتے جو رکوع اور سجدے کے درمیان اپنی پیٹھ سیدھی نہیں کرتا۔(مسند احمد بروایت ابوہریرہؓ)۔ان ارشادات کی وجہ سے صحابہؓ نماز میں اطمینان و سکون کا خاص خیال رکھتے اور اس سے عاری نمازوں کا سخت نوٹس لیتے تھے۔ زید بن وہب ؓ کا بیان ہے کہ حذیفہ ؓنے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع اور سجدوں کو( نماز میں ) پوری طرح ادا نہیں کرتا تھا تو انہوں نے اس سے کہا کہ تو نے نماز نہیں پڑھی اور اگر تو مرے گا تو اس طریق پر (یعنی اس دین پر ) نہیں مرے گا جس پر اللہ تعالیٰ نے محمد ؐ کو پیدا کیا تھا۔(بخاری، کتاب الاذان)۔آپؐ نے رکوع اور سجدے کے علاوہ رکوع سے سر اٹھاتے وقت (یعنی قومہ) اور دونوں سجدوں کے درمیان کی نشست(یعنی جلسہ) کے لئے کئی طرح کے اذکار اور دعائیں بتائی ہیں۔ ائمہ کو چاہیے کہ کم از کم پانچ بار تسبیحات کا اہتمام کریں،وہ بھی اطمینان سے جب ہی مقتدیوں کو تین بار کہنے کا موقعہ ملے گا۔اس کے علاوہ قومہ اور جلسہ کی دعائیں اور درود شریف وغیرہ بھی اطمینان و سکون سے پڑھنا چاہیے۔امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک جلسہ میں کم از کم ایک بار اللّٰھُمَ اغْفِرْلِی کہنا واجب ہے اور امام شافعیؒ کے نزدیک قعدہ اخیرہ میں درود شریف واجب ہے۔ تعدیل ارکان کے سلسلہ میں ائمہ مجتہدین نے مختلف موقف اختیار کیا ہے۔ امام شافعیؒ ، امام مالکؒ ، امام احمد بن حنبل ؒ اور حنفیہ میں سے امام یوسف ؒ اسے فرض کہتے ہیںجب کہ امام ابوحنیفہؒاور امام محمدؒ کے نزدیک تعدیل ارکان واجب ہے۔(مظاہر حق جدید،مطبوعہ ، دارالاشاعت، کراچی ، پاکستان، جلد ۱،ص ۵۷۶)۔ لہٰذا جو لوگ اسے فرض کہتے ہیں ان کے نزدیک اس کے ترک سے نماز باطل ہو جاتی ہے اور جو لوگ اسے واجب کہتے ہیں ان کے نزدیک اس کے ترک سے نماز باطل تو نہیں ہوتی لیکن اس کالوٹانا واجب ہے۔متاخرین حنفی علماء میں امام طحاویؒ، علامہ ابن عابدین شامیؒ،قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ ، مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ، مولانا انور شاہ کشمیریؒ،مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ، مولانا تقی عثمانی، مولانا مفتی نظام الدین اعظمی اور مفتی فضل الرحمٰن اعظمی وغیرہم نے بھی تعدیل ارکان کے اہتمام پر کافی تاکید کی ہے۔ اس لئے سب سے احسن طریقہ یہ ہے کہ آدمی سنّتوں کا اہتمام کرلے تاکہ نبی کریم ﷺ اور صحابہؓ کی بیان کردہ وعیدوں کی زد میںنہ آئے اور کسی امام سے اختلاف کی صورت بھی پیدا نہ ہو ۔
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نے اماموں کو نماز مختصر پڑھانے کا حکم دیا ہے۔یہ بات بالکل صحیح ہے لیکن نماز مختصر اور نماز کامل میں فرق سمجھنا ضروری ہے۔آپؐ نے نماز مختصر کرنے کے لئے قرأت میں تخفیف کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ رکوع و سجود میں ٹھونگیں مارنے کا۔ ایک صحابیؓ نے حضرت معاذؓ کے طول نماز کی نبی کریمؐ سے شکایت کی جب انہوں نے عشاء میں سورہ بقرہ یا نساء کی تلاوت کی تھی تو نبیؐ نے انہیں سمجھایا کہ تو نے سورہ اعلیٰ، سورہ ا لضحیٰ،سورہ اللیل کے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھ لی کیوں کہ تیرے پیچھے بوڑھے کمزور اور صاحب حاجت سبھی طرح کے لوگ نماز پڑھتے ہیں؟(بخاری بروایت جابر بن عبداللہ )۔ اس سے یہ واضح ہے کہ تخفیف قرأت میں ہے نہ کہ اطمینان رکوع و سجود اور سکون نماز میں۔صاب مظاہر حق نے بھی لکھا ہے کہ آپؐ کی قرأت ہلکی ہوتی تھی اور رکوع سجود نیز تعدیل ارکان وغیرہ میں کمی نہیں ہوتی تھی۔(مظاہر حق جدید،مطبوعہ ، دارالاشاعت، کراچی ، پاکستان، جلد ۱،ص۷۱۹) ۔ ہاں تسبیحات کو اتنا طول دینا کہ لوگوں کے لئے گرانی کا سبب ہو یہ بھی درست نہیں اعتدال کی راہ اختیار کرنا چاہیے۔
آخری بات یہ ہے کہ کامیابی کی ضمانت اس نماز کے ساتھ ہے جو خشوع خضوع اور صفت ِاحسان کے ساتھ پڑھی جائے۔اتنی جلد بازی کی نماز جن میں رکوع و سجود بھی صحیح سے ادا نہ ہوں اور جو سنّتوں سے عاری ہو ان میں صفت احسان ( اللہ کے دھیان) کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے جب ہم اپنا قیمتی وقت خرچ کرتے ہی ہیں تو نمازوں کو سنوارنے کی کی بھی فکر کریں اور ائمہ کو تو اور بھی محتاط ہونا چاہیے کیوں کہ وہ خود کے علاوہ مقتدیوں کی نماز کے بھی ضامن ہیں اور ان پر مقتدیوں کے اصلاح کی ذمہ د اری بھی ہے۔اللہ پا ک ہم سب کو عمل کی توفیق عنایت کرے ۔آمین!
رابطہ سابقڈین فیکلٹی آف ایجوکیشن، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ
موبائل09471867108