شہری ترقی میں بے ترتیبی او ر غیر منصوبہ بند شہری ترقی تشویش ناک
بلال فرقانی
سرینگر//دنیا بھر میں اکتوبر کی پہلی پیر کو عالمی یوم مسکن منایا جاتا ہے جس کا مرکزی موضوع اقوامِ متحدہ کی جانب سے ’’شہری بحران کیلئے ردعمل‘‘ مقرر کیا گیا ہے۔ کشمیر اپنی قدرتی خوبصورتی، تاریخی بستیوں اور روایتی طرزِ تعمیر کے لیے جانا جاتا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی، ماحولیاتی تبدیلیوں، اور غیر منصوبہ بند تعمیرات نے اس خطے کو شدید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ 2014 کے تباہ کن سیلاب کی طرح حالیہ قدرتی آفات نے ایک بار پھر یہ حقیقت اجاگر کی ہے کہ وادی میں بنیادی ڈھانچے کو قدرتی آفات سے محفوظ بنانے کی اشد ضرورت ہے۔موسمیاتی تبدیلی، لینڈ سلائیڈنگ، بے گھر افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد، اور مناسب رہائشی سہولیات کی کمی، کشمیر کے شہری علاقوں میں موجودہ وقت میں بڑے مسائل کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ خطے میں ترقیاتی منصوبوں کو صرف معیاری تعمیرات تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ایسی منصوبہ بندی کی جائے جو پائیدار، جامع اور ماحولیاتی لحاظ سے محفوظ ہو۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، جموں و کشمیر میں شہری آبادی کل آبادی کا 27.38 فیصد ہے، جو کہ بھارت کی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 15ویں نمبر پر آتی ہے۔ اندازہ ہے کہ آنے والے برسوں میں یہ شرح 40 فیصد تک پہنچ جائے گی، جس سے شہری سہولیات، خاص طور پر رہائش، کی طلب میں غیر معمولی اضافہ متوقع ہے۔2023-24کے دوران حکومت نے شہری ترقی اور رہائشی سہولیات کے لیے 2928.04 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی، جو کہ ایک مثبت قدم ہے، تاہم زمینی سطح پر ان پراجیکٹوں کا اثر تاحال محدود محسوس ہو رہا ہے۔جموں صوبے میں شہری ترقی کی رفتار مختلف ہے، جہاں جموں ضلع 50 فیصد شہری آبادی کے ساتھ سب سے آگے ہے، اس کے بعد ادھم پور 19.5 فیصد، سامبا 16.8 فیصد، اور کٹھوعہ14.6 فیصد آتے ہیں۔ دوسری جانب، وادی کشمیر کے کئی علاقے غیر رسمی بستیوں، ناقص بلدیاتی نظام اور غیر منظم تعمیرات کے باعث سخت دباؤ کا شکار ہیں۔فی الوقت جموں و کشمیر میں 32,000 کروڑ روپے کے شہری ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے، جن میں سستی رہائش، جدید ٹرانسپورٹ، نکاسی آب اور فضلہ انتظام کے منصوبے شامل ہیں۔ تاہم، منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر، زمینوں کی خرید و فروخت میں شفافیت کا فقدان، اور بے دخلی جیسے مسائل پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔