سرینگر// جموں کشمیر میں قلت آب کے اثرات بڑھنے لگے ہیں،جبکہ ماہرین کا ماننا ہے کہ کشمیری علاقوں میں بڑھتے درجہ حرارت اور ہندو کش، قراقرم میں گلیشیئر کے حجم میں بتدریج کمی کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔عالمی یوم آب یا پانی کا بین الاقوامی دن، ہر سال 22 مارچ کو منایا جاتا ہے اس کا مقصد لوگوں میں پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔نیلے رنگ کے پانی کی بوند کی شکل عالمی یوم آب جشن کی علامت ہے۔2018کے عالمی یوم آب جشن کیلئے موضوع ’’پانی کے لئے فطرت کی بنیاد پر حل‘‘ہے۔ ہر سال 22 مارچ کے دن ان افراد کو یاد کیا جاتا ہے کہ جو آج تک پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب کی مناسب سہولیات کے انتظار میں ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی کی اہمیت سے آگاہی نہ ہونے کے باعث پانی کی بڑی مقدار ضائع کی جارہی ہے۔ اس صورتحال میں ماہرین نے پانی کونیلے سونے کے نام سے موسوم کیا ہے اور پیشنگوئی کی ہے کہ مستقبل میں کاروبار اور جنگوں کی بنیادی وجہ پانی ہوگا۔وادی میں پینے کے پانی میں گزشتہ برسوں سے جہاں اضافہ ہو رہا ہے،وہی کاشتکاری کیلئے درکار پانی میں بھی کمی کا سامنا ہے۔ قدرتی طور پر پانی کی دولت سے مالا مال کشمیر میں پینے کے پانی کی قلت ایک بحران کی شکل اختیار کر رہی ہے،جس کی وجہ سے شہر اور دیہات میں لوگوں کو کافی دشواریاں پیش آرہی ہے۔ماہرین کے مطابق پانی کی قلت سے متاثرہ علاقہ خاص طور پر پیر پنجال پہاڑی رینج سے کوہِ ہمالیہ کے درمیان کا حصہ خیال کیا جاتا ہے،اور یہ خاصا دشوار گزار بھی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ برسوں سے سالانہ بنیادوں پر ہونے والی متوازن بارش سے لہلہاتا رہتا ہے جب کہ دریا اور گلیشیئر کے پانی سے میدانی علاقے سیراب ہوتے تھے، لیکن اب ماحولیاتی تبدیلیوں سے یہ علاقے بہت زیادہ متاثر ہیں۔کشمیر یونیورسٹی کے محقق محمدسلطان کا کہنا ہے کہ کشمیرکے زیریں حصوں میں فضا میں پانی کے تحلیل ہونے کے عمل میں بہت کمی واقع ہوئی ہے اور یہ بھی موسمیاتی تغیر میں تبدیلی کا باعث ہے۔ ناروے کے محقق اندریاس کاب کی ایک تحقیق میں بھی کشمیری علاقوں میں بڑھتے درجہ حرارت اور ہندو کش، قراقرم میں گلیشیئر کے حجم میں بتدریج کمی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس مناسبت سے ایک اور محقق سے معلوم ہوا ہے کہ کشمیر کے ایک اہم دریا جہلم کو گلیشیئر سے ملنے والے پانی میں بھی کمی کا سامنا ہے۔کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں زراعت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک مشکل کام ہوتا جا رہا ہے،کیونکہ پانی کا حصول مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیری قصبات اور دیہات میں رفتہ رفتہ کھیتی باڑی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے باغات اور کھیت کھلیان اپنے باغبانوں اور کسانوں کے منتظر ہیں،جبکہ پانی کے حصول میں فالتو محنت سے مالی مسائل بھی جنم لے چکے ہیں۔ایک کسان محمد مقبول ڈار نے بتایا کہ اس جیسے کئی خاندان کھیتی باڑی پر تکیہ کیے ہوئے ہیں اور پانی کی کم دستیابی نے ان کی زندگیوں کی بہار کو خزاں میں تبدیل کر دیا ہے۔کشمیر میں 58 فیصد زرعی رقبہ بارش کا محتاج رہا ہے جبکہ42 فیصد کو نہروں، اور آبپاشی کے دوسرے ذرائع سے سیراب کیا جاتا ہے۔ اِس طرح80 فیصد آبادی کا دار و مدار زراعت پر ہے۔ کشمیری کاشتکار چاول، مکئی، دالیں، زعفران اور آلو کی کاشت میں دلچسپی رکھتے ہیں،اور اسی سے اپنا روزگار کماتے ہیں۔کشمیر کے اونچے نیچے پہاڑی قصبوں میں پانی کا حصول اہم ہوتا ہے اور اسے قریب یا دور کے چشموں سے حاصل کرنا معمول خیال کیا جاتا تھا۔مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ بعض اوقات پانی کے چشمے قصبے سے قدرے مسافت پر بھی ہوتے ہیں لیکن یہ مسافت پانی کے حصول میں رکاوٹ نہیں سمجھی جاتی تھی،تاہم اب پانی کی کمی نے اس کام کو اور مشکل بنا دیا ہے۔موسم سرما میں بارشوں کی کمی اور برفباری نہ ہونے کی وجہ سے اب صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے،جبکہ ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ موسم میں تغیر و تبدیلی کے باعث ایسا ہو رہا ہے۔