زمانہ قدیم میں سائنسی ترقی سے محروم انسان جب کوئی محیر القول کام ہوتے دیکھتا تھا تو اسے معجزے کے زمرے میں شمار کرتا تھا۔ مثال کے طور پر کوئی شخص سطحِ آب پر چہل قدمی کرتا یا ہوا کے دوش پر سوارہوکر آناًفاناً ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتا۔ سائنسی پیش رفت نے محیرالعقول امور کی نوعیت تبدیل کرکے معجزہ و کرامت کے نئے معیار مقرر کئے۔ بہت سارے امور جو پرانے زمانے میں باعثِ کرامت مانے جاتے تھے آج عین حقیقت بن گئے ہیں۔ البتہ اس دور ِپر فتن میں جبکہ انسانی جمعیت ، وطن، قومیت، رنگ ونسل ، ذات پات کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم ہوکر بکھری پڑی ہے۔ ذاتی اور فردی مفادات کی فصیلوں نے ایک کو دوسرے سے الگ کررکھا ہے۔ بھائی اور بھائی کے درمیان نفسیاتی لگاؤ مفقود ہے، ایسے میں اگر تین ،چار ملین کے قریب انسان ایک جگہ جمع ہوکر بیک زبان خدائے واحد کی گواہی پیش کریں تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔بہ نظر غائر دیکھا جائے تو اس عظیم اجتماع کے معجز نما پہلو سے مفر ممکن نہیں۔ چنانچہ اس اجتماع میں شریک حجاج کرام کسی ایک ہی ملک و قوم سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ دنیا کے اطراف و اکناف سے آکر اس عظیم اجتماع کو تشکیل دیتے ہیں۔ مشرق و مغرب کا امتیاز سرزمین مکہ پر ماند پڑجاتا ہے۔ یہاں آکر مسلمان اپنی علاقی اور جغرافیائی پہچان کو عالمی،آفاقی اور روحانی پہچان میں مدغم کردیتے ہیں۔ کالے ، گورے، پست قد، ہیکل جسم، امیر و غریب، کمزور و طاقتور،بزرگ، جوان ،ادھیڑعمر، صحت مند و ناتواںغرض انسانیت کے جتنے بھی رنگ ہیں مل کر ایک ایسی تصویر کو وجود بخشتے ہیں جس میں دوئی اور تضاد کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ بلند نگاہی سے مشاہدہ کیجئے تو تین ملین انسان انفرادی گوناگونی کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ متصل و متحد نظر آئیں گے کچھ اس طرح کہ جیسے ان کی حرکت و سکون کے پیچھے کوئی ایک ہی طاقت کارفرما ہے
یہ سر تو الگ الگ رکھتے ہیں لیکن سر میں سودا ایک ہے
دل جدا جدا مگر تمنا یکساں
لسانی تنوع کے باوصف بے شمارزبانوں پر جاری کلمات ایک جیسے
ہزاروں نظریں اور منظور نظر ایک
لاکھوں دعا گو، مدعا واحد
سینکڑوں کی گردش مگر مرکز و محور ایک
لاتعداد سالک منزل ایک
بے شمار سجدہ ریز جبینیں ،مسجود وہی ایک
لاکھوں اذہان مگر فکر ہم آہنگ
ان گنت ابدان لیکن لباس ہمرنگ
المختصر یہ وحدت ِفکر و عمل ،دین توحید کی اس پوشیدہ طاقت کی واضح مظہر ہے جس کے نتیجے میںعالم انسانیت کو وحدت کا یہ عظیم عالمی مظاہرہ دیکھنے کو ملا ہے۔اس اجتماع کو پیش نظر رکھ کر تمثیلاً کہا جاسکتا ہے کہ مختلف ماخذ سے آبِ جو کی مانندنکل کر مسلمان ایک نقطۂ اتحاد و اتصال پر بغل گیرہوجاتے ہیں اور دیکھتے دیکھتے دریائے وحدت جوش مارنے لگتا ہے اس دریائے وحدت کا ہر قطرہ ــــاپنے آپ میں دریا کی وسعت رکھتا ہے گو کہ ہر قطرہ ایک الگ رنگ و ذائقہ کا حامل ہے لیکن اس دریا کا اسلامی رنگ اورتوحیدی ذائقہ تمام رنگوں اور ذائقوں پر غالب ہے۔بالخصوص وہ کمزور وبے نوا مسلمان جو وقت کے فراعنہ کے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، حج کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہوکر عافیت و راحت محسوس کر تے ہیں۔ تنہائی و مظلومی کے عالم میں دریائے وحدت کی روانی نفسیاتی امداد ہے جو مظلوم و محکوم مسلمان کو یہ احساس دلاتی ہیںکہ وہ ایسی امت سے وابستہ ہے جس کی عالمگیریت کا واضح ثبوت اجتماع حج ہے۔ وہ اپنے فردی وجود کووجود ِملت میں گم کرنے کی تمنا کیوں نہ کریںکیونکہ بقول غالبؔ ع
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجاتا
حج کا عالمی اجتماع شیطانی وسوسے کا عملی تدارک ہے جس سے مسلمانوں میں یہ تاثر عام ہوتا جارہا ہے کہ الگ الگ فرقوں میں بٹنے والے نیز الگ الگ نظریات کی مالا جپنے والے مسلمان ناممکن ہے کہ متحد ہوجائیں۔ یہ کسی ایک سٹیج پر جمع ہوکر ایسے، بنیادی اور مشترکہ عقائد کے تحت آپس میں ایک ہونے سے قاصر ہیں۔ حج میں تمام مسالک اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی شرکت اس تاثر کو باطل ٹھہراتی ہے، دربار خداوندی میں آکر ذیلی اختلافات اور جزوی تفاوتوں کو فراموش کرکے حجاج کرام عالمی برادری کو عملی طور پہ یہ باور کراتے ہیں۔ کہ نظریاتی اور انفرادی امتیاز کے باوجود ہم سب جسد واحد کے مختلف اعضا ہیں۔دوران حج قریباًتمام تہذیبوں کے نمائندے اسلامی تہذیب کی سربلندی ووقار کو تسلیم کرتے ہیں باالفاظ دیگر نمائندوں کی صورت میں اسلامی تہذیب کے دامن میں دنیا بھر کی تہذیبیں پناہ گزین ہوجاتی ہیں۔ ایام حج ایک ذریں موقع ہے تمام تہذیبوں کو اسلامی تہذیب کے روبرو کرنے کا ، تاکہ تہذیبی اصلاح کا فریضہ بھی فریضۂ حج کے پہلو بہ پہلو انجام پائے۔ بلاشبہ اسلامی تہذیب و ثقافت کی جڑیں بین الاقوامی تہذیبی بساط میں پیوستہ ہے۔ سرزمین مکہ پر تہذیبی تنوع تہذیبوں کے مابین تصادم کی باتیں کرنے والوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ آکر رنگا رنگ تہذیبوں کی ہم آہنگی دیکھے۔ دراصل یہ تہذیبیں اسلامی تہذیب کے ساتھ رشتہ جوڑ کر فنا پزیری کا دائمی علاج ڈھونڈنے آئی ہیں۔ شہرہ آفاق کتاب The Hundredکے مصنف اپنی اس کتاب میں ایک جگہ رقمطراز ہیں کہ ’’میری کتاب میں جن عظیم شخصیات کا تذکرہ ہوا ہے اُن میں سے متعدد افراد کی یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ وہ دنیا کے تہذیبی مراکز میںپیدا ہوئے اور وہیں ایسے لوگوںمیں پلے بڑے جو عموماً اعلیٰ تہذیب یافتہ یا سیاسی طور پر مرکزی حیثیت کی اقوام تھیں۔ اس کے برعکس حضرت محمد صلعم کی پیدائش جنوبی عرب کے ایک شہر مکہ میں ہوئی۔ تب یہ شہر تجارت علم و فن اور تہذیبی مراکز سے بہت دور دنیا کا دقیادنوسی گوشہ تھا‘‘ مائیکل ہارٹ کے تاریخی حقائق پر مبنی اس عبارت کا موازنہ مکہ میں آج کل کے روح پرور ماحول سے کیا جائے تو بآسانی اس نتیجے پر پہنچنا یقینی ہے کہ وہی مکہ جو کبھی تہذیبی اور تجارتی مراکز سے کافی دور تھا، آج نہ صرف ایک عظیم اسلامی تہذیب کا حامل ہے بلکہ متعدد تہذیبوں کا مرکز بھی بن گیا ہے۔ یہاں دنیا بھر کی تہذیبیں اسلامی تہذیب کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں۔ یہ سب اسلام کے اسی درس مساوات کی فیض رسائی ہے جس کا تذکرہ قرآن کی ایک مشہور آیت میں ہوا ہے۔ اور حج کاعالمی اجتماع جس کی عملی صورت ہے۔ چنانچہ سورۃ حجرات کی (آیت نمبر ۱۳) عالمی برادر ی کے منشور نیز انسانی مساوات کی مستحکم بنیادوںکو پیش کرتی ہے۔
انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر ہم ہی نے تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو، بے شک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار رہے‘‘۔ آیت مذکور کا مفہوم ابتداء سے آخر تک اگر چہ مربوط ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر عالم انسانیت کے لیے تین طرح کے پیغامات دکھائی پڑتے ہیں۔ آیت کا پہلا حصہ یعنی ’’انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے‘‘ تمام انسانوں کو عالمی اور انسانی برادری تشکیل دینے کی دعوت ہے اور اس کی معقول اور ٹھوس وجہ بھی بتائی گئی ہے۔ دوسرے حصے میں نہ صرف عالم ِ انسانیت میں جینیاتی، صنفی اور نسلی کثرت کا اعتراف ہے بلکہ اس کی غرض و غائت بھی پیش کی گئی ہے۔ مختصر الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ پہلے حصے میں دعوت وحدت ہے دوسرے حصے میں کثرت کی غرض و غایت اور پھر تیسرے حصے میں انسانی احترام کے حقیقی معیار کی رو سے اسلامی مساوات کے نقوش ابھارے گئے ہیں۔ یہ وحدت و کثرت اور انسانی مساوات کی تھیوری ہے ،اس سلسلے میں عملی مثال اور تجربے کی تلاش ہو تو ایام حج کے دوران بیت اللہ اور اس کے اطراف و جوانب کے روح پرور مناظرپر طائرانہ نگاہ دوڑانی چاہیے ۔ یہاں نہ صرف غیر معیاری امتیازات (جیسے نسلی، لسانی ، مسلکی ،معاشی اورصنفی امتیاز) کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے،
cell no : 9596465551
(بقیہ سنیچر کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)