یہاں نہ صرف غیر معیاری امتیازات (جیسے نسلی، لسانی ، مسلکی ،معاشی اورصنفی امتیاز) کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے، بلکہ ظاہری کروفر بھی اسلامی مساوات کے سامنے لاچار دکھائی دیتا ہے۔ لباس و وضع میں یکسانیات، امیر و غریب، اعلیٰ و ادنیٰ سیاہ و سفید، خادم و مخدوم، حاکم و محکوم کے مابین ظاہری تفاوت کو ملیامیٹ کردیتی ہے۔
وحدت در کثرت نیز مساوات کا عملی نمونہ عالمی برادری کو اسلام کی بہت بڑی دین ہے۔ قبلِ اسلام دنیا کا یہ خطہ اتحاد و انتشار کا شکار تھا۔ خدائے واحد کا گھر 365؍ بتوں کا مسکن تھا۔ ظاہر ہے کہ ان بتوں کو پوجنے والے مختلف قبائل سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ جن کے ہاں وحدت نام کی کوئی چیز ہونا خارج از قیاس ہے۔ یہی سرزمین جہاں آج لاکھوں زائرین کعبہ ایک دوسرے کے ساتھ پہلو بہ پہلو پرسکون ماحول میں کعبے کی زیارت کرتے ہیں ۔قبل ازاسلام قبائل کے درمیان ہلڑہنگامے اور عجیب و غریب حرکتوں کا اکھاڑہ ہوا کرتی تھی۔ تاریخ میں یہ بات عیاں ہے کہ ایک مرتبہ حجر الاسود کو تعمیری تجدید کے سلسلے میں دوبارہ نسب کرنے پر مختلف قبائل خونریزی پر آمادہ ہوئے تھے تو عین موقع امن و سلامتی کے پیغمبرؐ نے اس خونریزی کو ٹالا اور انہیں مساوات و مواسات کے ابتدائی درس سے آشنا کیا۔ حجر الاسود کا اس وقت نسب ہونا گویا مساوات کی سنگِ بنیاد ڈالی جانی تھی۔ زیارت کعبہ کے رسوم بھی قبائلی رسہ کشی اور تفاوت کے روادار تھے۔ قریش جو اپنے آپ کو پیدائشی طور باقی قبیلوں سے برتر سمجھتے تھے ،مزدلفہ سے باہر نکلنا اپنی شان کے خلاف تصور کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ہم حرم کے متولی ہیں، لہٰذا ہمارا حرم سے باہر جانا مناسب نہیں ہے۔ باقی تمام عربوں کی قیام گاہ میدان عرفات ہوا کرتا تھا۔ قریش کی خودساختہ سیادت وبزرگی کی ایک اور علامت یہ تھی کہ وہ لباس پہن کر طواف کرتے تھے اور باقی قبائل سے تعلق رکھنے والے مردو زن برہنہ طواف کرتے تھے۔ آنحضورؐ نے خانہ کعبہ کے باطنی انتشار کو ختم کرنے کے لئے بے شمار باطل خداؤں کو نیست و نابود کیا اور انسانیت کے سامنے خدائے واحد کا تصور پیش کیا اور اس کی ظاہری طہارت کی خاطر مذکورہ رسوم کا خاتمہ کیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’لوگو! میں نے جہالت کے تمام باطل رسوم پیروں تلے روند ڈالے۔ سیاہ کو سفید پر عرب کو عجم پر (پیدائشی طور) کوئی برتری نہیں ہے۔ تمہارے غلام جو خود کھاؤ وہی ان کو بھی کھلاؤ جو خود پہنو وہی ا ان کو بھی پہناؤ۔ ’’تمہارے عورتوں پر اور عورتوں کے تم پر کچھ حقوق ہیں‘‘پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محنت شاقہ کا ہی نتیجہ اور تعلیمات کا اثر ہے جو ہر سال وحدت در کثرت کے حیرت انگیز جلوے دیکھنے کو ملتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ دربارِ خداوندی میں محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر مساوی بندے ہونے کا اعلان کررہے ہیں۔
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
عالم ِطاغوت کیلئے عالم ِتوحید کا یہ عظیم و الشان اجتماع موت کی علامت ہے کیونکہ جس روز وحدت کا یہ علامتی مظاہرہ عملی طور دنیائے اسلام میں نمودار ہو جائے اس روز طاغو ت اور اس کے کارندوں کی بالادستی اپنے آپ ہی ختم ہو جائے گی۔مسلم ممالک کے مابین افتراق و انتشا ر کی وجہ سے ہی استکباری طاقتیں ان پر مسلط ہوئیں ہیں۔ بہرصورت دریائے وحدت کا وجود میں آنا ہی اس امرکی واضح دلیل ہے کہ اس میںحدت و حرارت اور طاقت کا ایک بہت بڑا خزینہ پنہاں ہے۔عام فہم الفاظ میں دریائے وحدت کی کوکھ میں ایک ملی بجلی گھرpower house) national (بھی رواں دواں ہوتو جس کی روشنی اور توانائی سے عالم ِ استعماریت ، نظام ظلمت وضلالت اور عالمی سطح پر ظلم وجورکا خاتمہ یقینی ہے۔ حج امت مسلمہ کیلے ارتکاز توانائی کا بہترین ذریعہ ہے۔ ( ختم شد)
cell no : 9596465551