پیارے چچا
آداب!
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں آج اُس دنیائے فانی میں موجود ہی نہیں ہوں جہاں آج کل آپ کی طاقت اور خدائیت کا سکہ چلتا ہے، جہاں آپ کے اقتدار کی طوطی بولتی ہے ،جہاں آپ کے اشاروں پرپورا نظامِ عدل تلپٹ ہے،جہاں آپ کی خود غرضانہ اور قاتلانہ سیاست کا بازار گرم ہے ،جہاں آپ زندگیاں ختم کرنے اور بانٹنے کا کاروبار سنبھالے ہوئے ہیں ۔آپ کے اس آدم خور انہ لین دین کی شکار یہ ننھی منی آصفہ آج عالم ارواح سے آپ کو اپنا پہلا خط ارسال کر رہی ہوں۔ چچا جانی! مجھے جب زبردستی اُس جہان ِ فانی سے اس جہان میں بھیجا گیا تو مجھے کافی ڈر تھا کہ میں کیسے ممی پاپا کے بغیر اکیلی رہ پاؤں گی، مجھے یہاں پہنچتے پہنچتے سات دن طویل ، خوف ناک ، دردا نگیز اور قہرآلودہ سفر طے کرنا پڑا۔میں اُسی دن آپ کو خط لکھنے لگی تھی لیکن کوئی ایسا قاصد مل نہ سکا جو میرا یہ خط آپ تک پہنچاتا ،گو کہ ہمارے یہاں قاصدوں کا ایک بہت بڑا لشکر موجود ہے لیکن سبھی نے میرا یہ خط آپ تک پہنچانے سے مکمل انکار کر دیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ آپ کو خواہ مخواہ غصہ دلائیں۔ قاصد حضرات کا کہنا تھا کہ پیاری آصفہ! آپ تو دنیا چھوڑ گئی ہو، اب ہم اپنی دنیا خراب نہیں کرنا چاہتے ، اگر ہم نے آپ کا یہ خط سامنے لایا تو ممکن ہے کہ ہمیں بھی آپ کی طرح ہی دنیا سے اُٹھا لیا جائے۔کافی کوشش کرنے کے بعد مجھے ایک قاصد ہاتھ لگا جس نے میرا یہ خط آپ تک پہنچانے کی حامی بھر لی اور یہ کہہ کر وعدہ کیا : پیاری آصفہ !میں آپ کا یہ خط میں ضرور ناخداؤں کے سامنے لائوں گا ۔شکر ہے میرے رب کا کہ اُس قاصد نے آج میرے ساتھ کیا ہوا وعدہ وفا کر دیا ۔
یہ خط برائے مہربانی ضرور پڑھیں۔ میں یہاں عالم ِارواح میں کافی اچھے دن گزار رہی ہوں ،مجھے کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں ہے ، یہاں نہ کوئی خودغرضی، نہ کوئی نفس پرستی، نہ کوئی بغض و عداوت ہے ۔ اس لئے کوش وخرم ہوں اور اس دن کا انتظار میں ہوں جب میرے قاتلوں کو اپنے انجام تک پہنچایا جائے گا ۔ مجھے گزشتہ روز اُس وقت ایک زور دار جھٹکا لگا جب میں نے آپ کو ایک ایسی ریلی سے خطاب کرتے دیکھاجو اُس درندہ صفت مجرم کے حق میں تھی جس نے اس آٹھ سالہ معصوم کلی کو اپنی ہوس کا شکار بنا کر اُسے قتل کر دیا۔ چچا صاحبان…!! میں آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا آپ کے یہاں کبھی کسی بیٹی نے جنم لیا ہے؟ کیا آپ کو کسی انسان نے جنا ہے؟اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر آپ کس غلط فہمی کے شکار ہیں کہ کل اللہ نہ کرے آپ کی بیٹی ، ماں، بہن کے ساتھ بھی اس طرح کا قاتلانہ وقاہرانہ سلوک ہو جو میرے ساتھ ہوا ؟ ہوش کے ناخن لیجئے، آپ ایک بہت بڑی عدالت کو للکار کراپنے لئے مصیبت کو دعوت دے رہے ہیں۔ اگرآپ کو معلوم پڑے کہ وہ سات قیامتیں میں نے کس طرح مصیبتوں کے پہاڑکا سامنا کر نے میں گزاریں تو آپ اپنی مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کو گھر سے باہر نہیں نکلنے دیں گے،اس خوف سے کہ جانے کہاں،کون اور کس وقت ان کو اپنی درندگی کا شکار بنائے۔ میں اس لئے بھی پریشان ہوں کہ آپ اُس تنظیم سے وابستہ ہیں جس کے بادشاہ کا نعرہ’’بیٹی بچائو،بیٹی پڑھائو‘‘ ہے۔ آپ اُس سرکار سے جڑے ہیں جس کی سربراہ خود ایک خاتون ہیںا،جس کی ایک سکیم کا نام ’’لاڈلی بیٹی‘‘ ہے۔ بھلا ذرا سوچئے جن سنگدلوں کا مطالبہ ایک معصوم ننھی کی عصمت کو تار تار اور قتل کرنے والے مجرم کی رہائی ہو، اُنہیں اس شرم ناک کھیل میں کیا کسی عقل کا اندھے کے علاوہ تعاون دینے کا جرم اپنے سر لے گا؟ یہ کام’’بیٹی پڑھائو، بیٹی بچائو‘‘ اور ’’ لاڈلی‘‘ بیٹی جیسی اسکیم والوں کا غلغلہ کر نے والوںکاہو ہی نہیں سکتا،جہالت و غلامی کے دورِ ظلمت میں بھی ایسا نہیں ہوا کرتا تھا۔ یا تو یہ نعرے اور اسکیمیں فریب کاریاں ہیں یا پھر آپ انسانیت کے دشمن اورحیوانیت کے ہمدرد ہیں۔ آپ سے میری مودبانہ گزارش ہے کہ یا تو قوم کے رہبر بنیں یا پھر ایسے ہی درنددہ صفت انسانوں کی صف میں مکمل طور سے شامل ہو جائیں جو معصوم کلیوں کی عصمت وعفت کے بھوکے ہیں ؎
دو رنگی چھوڑ کے یک رنگ ہوجا
سرا سر موم ہوجا یا سنگ ہو جا
میں اس خط کے ذریعے آپ کو ایک راز کی بات بتانا چاہوں گی کہ جب عالم ِ ارواح میں میرا پہلا دن تھا، چونکہ میں کافی تھکی ماندی اور ظلم و بربریت کی ماری تھی ، میرے اوپر انتہا درجے کا خوف طاری تھا۔اب حالات پُر سکون ہیں ،اس لئے اٹھتے بیٹھتے میری بارگاہ ِ الٰہیہ میں بس ایک ہی دعا ہے : رب ِ ذولجلا ل ! اب جس جہاں میں آپ نے مجھے لایا ہے مجھ پر لاکھ مصیبتیں مسلط کر نا لیکن کبھی میرا سامنا کسی انسان نما وحشی سے نہ ہو!چند روز گزرنے کے بعد میں قدرے ہو ش میں آئی، میں نے دیکھا کہ میں تو پھر سے انسانوں کے پیچ آئی ہوں ، انسانوں کا یہ ہجوم دیکھ کر میں پھر سے خوف میں مبتلا ہوئی ،مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہوئی ، من ہی من میں بار گاہ ِ تعالیٰ میں دعائیں کرنے لگی : اے اللہ! مجھے انسانوں کے شر سے بچانا،میں پناہ مانگتی ہوںایسے انسانوں سے جن کی شکلیں تو انسانوں جیسی ہیں لیکن اُن کے رویے ، ارادے اور کارنامے جنگلی حیوانوں سے بھی بد تر ہیں۔ انہیں دعاؤں میں گمسر جھکائے بیٹھی تھی کہ اتنے میں کسی نے میرے سر پر ہاتھ رکھا ، میں نے اپنے سر پر انسان کا ہاتھ کیا دیکھا تو چیخ اٹھی ، ساتھ ہی غش کھا گئی، چند لمحے بعد ہوش آیا تو خود کو دو لڑکیوں کی آغوش میں پا یا۔میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ان دیدیوںکو دیکھ رہی تھی ۔ میں نے خور جیسی ایسی ملکوتی ہستیاں پہلی مرتبہ دیکھیں ۔مجھے بے حد اطمینان ہوا ۔ وہ دونوں بہنیں مجھ سے کہنے لگیں: پیاری آصفہ! ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے ساتھ جو بھی ہوا اُس کے بعد انسانی شکل دیکھنا گویادرندگی کے چنگل میں خود کو دھکیلنا ہے لیکن آپ گھبرائیں مت، آپ انسانوں کی ایسی بستی سے ہو کر آئی ہیں جہاں انسانی شکلوں میں بھڑیئے گھومتے ہیں ، جہاں صنف نازک کی عصمت محفوظ نہیں، جہاں درندہ صفت چھوٹی چھوٹی معصوم کلیوں کواپنی ہوس کا نشانہ بنا تے ہیں۔اب آپ ایک ایسی پاک ومعطر دنیا میں آئی ہو جہاں آپ محفوظ ومامون ہیں۔میں دونوں بہنوں کی یہ شریں باتیں سن کر عجیب نشاط وانبساط محسوس کر نے لگی اور فوراًخود کو سنبھالا ۔مجھے اُن بہنوں میں اپنے پن کی لا مثال خوشبو آنے لگی۔ بغیر اُن سے کہا:پیاری بہنو! اپنا تعارف تو کرائو۔ وہ دونوں حور جیسی بہنیں خاموش ہو گئیں۔ میں نے پوچھا: آپ خاموش کیوںہیں؟ اپنا نام تو بتائیںنا۔ اپنی خاموشی توڑتے ہوئے ایک بہن بولی اُٹھی :میرا نام آسیہ ہے اور میرے ساتھ جو یہ میری بہن ہے اس کا نام نیلوفر ہے ۔ میںنے آسیہ بہن سے اگلا سوال کیا :آپ یہاں اس خلدبریں میں کب ، کیسے اور کس طرح پہنچیں ؟آسیہ بہن نے جواباً کہا :پیاری آصفہ! یہ ایک انتہائی درد ناک کہانی ہے جو آپ کو سنانا بہتر نہیں ۔ میں ان نور چہرہ بہنوں کی کہانی سنانے پر بضد ہوئی تو آسیہ بہن نے کہانی سنانا شروع کیا۔ جونہی آسیہ بہن نے لب ِاظہار کا قفل توڑا تو پورے عالم ِ ارواح میں سناٹاچھاگیا ،مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے قیامت برپا ہوئی ہے،فرشتے رو نے لگے ہیں، عرش ہل اٹھاہے، زمیں دہلائی ہوئی ہے ۔ آسیہ بہن نے کہا: سنو پیاری آصفہ !29 مئی 2009ء کا وہ سیاہ دن تھاجس دن ہم دونوں بہنوں کو دنیا میں وقت کے بے رحم، ظالم وجابر دست ہائے جفاکیش نے بھوکے بھیڑیوں کی مانند نوچ کھایا۔اس دن ہم اپنے باغ میں گئی تھیں سبزی لانے کے لئے مگر آہ ہم گھر سے اپنے باغ تک تو چل کر آئیں لیکن واپس گھر لوٹ نہ سکیں۔بد خصلت و شیطان صفت درندوں نے ہمارے وجود کو بر سر موقع چھلنی کر دیا۔ہم نے بہت چیخا چلّایا، ایک ایک کو مدد کے لئے پکارا،ہماری فلک شگاف چیخوں سے رمبی آرہ شوپیان کے بڑے بڑے پتھر تک لرزتے رہے لیکن درندہ صفت حیوانوں کو ہم پر تھوڑا بھی ترس نہ آیا، ظلم کا ایسا ننگا ناچ ناچا کہ چشم فلک نے شاید ایسا دلخراش منظر پھر تمہاری تکابوٹی ہوتے وقت ہی دیکھا ہو ۔ پیاری آصفہ! یہ بہت ہی المناک اور خون کے آنسو رلادینے والا واقعہ ہے۔
آسیہ بہن کی زبانی یہ درد ناک کہانی سن کر میں دم بخود ہوکر رہ گئی، میرا غم بستۂ فراموشی میں چلاگیا ، دل پر چھریاں چلیں ۔ میرا حالِ بد دیکھ کر آسیہ اور نیلوفر نے مجھے دلاسہ دیا اور کہا بہن آصفہ! آپ تو ابھی یہاں نئی نئی ہو، کیاآپ ہمیں وطن کے بارے میں کچھ بتائیں گی، وہاں کس طرح کے حالات ہیں ؟ کیا آج بھی وہاں پر لڑکیوں کے سا تھ نا زیبا سلوک روا رکھاجارہا ہے جس طرح ہمارے زمانے میں تھا؟ میں نے انہیں اپنی چھوٹی سی دنیا کی تمام رُوداد یوں سنا دی : پیاری بہنو! مجھے اوروں کا علم نہیں، آپ بیتی سناتی ہوں ، میری عمر صرف آٹھ سال ہے ، میں اپنے باپ کی شہزادی تھی ، ایک معصوم کلی جو گڑیوں کے سنگ دن گزارتی، ایک روز میں مویشی لے کر جنگل کی جانب نکلی ہی تھی کہ راستے میں ایک سیاہ دل انسان نما بھیڑیئے نے مجھے جبراً اُچک لیا ، سات روز تک میرے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا ۔اُدھر میں بنا موت کے مر گئی تھی،اِدھر میرے والدین پولیس تھانے میں وردی پوشوں سے مجھے تلاشنے کی بھیک مانگ ر ہے تھے ۔ درندہ صفت راکھشس دیپک کھجوریہ مجھے نوچ نوچ کر اپنے ہوس کا شکار بنا رہا تھا ، بالآخر ابلیس کے اس مردار خور نے مجھے موت کی نیند سلا کرہی دم لیا۔میرے پاس وہ ا لفاظ ہی نہیں جن کے قالب میں اپنی داستان ِ الم ڈھالوں۔بس ہمہ وقت یہ دعا کرتی ہوں بار گاہ ِ تعالیٰ میں: اے میرے پروردگار!محفوظ رکھ اُن ننھی کلیوں کو ایسے شر پسند انسانوں کی بستی میں جہاں رہبرانِ قوم آگے بڑھ کر درندگی کا ننگاناچ ناچنے والوں کی کھلی سیاسی سرپرستی کر تے ہیں ،یہ انسان کم اور حیوان زیادہ ہیں، اُن کے اندرونی خباثتوںسے جانور بھی پناہ مانگیں۔ اس درندگی کی کتنی ہی مثالیں وطن میں بنی ہیں ،کنن پوش پورہ اس کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
میرے چچا جانی ! پتہ ہے آسیہ اور نیلوفر سے مالاقات کے بعد عالم ِ ارواح کیا ہو ا، مجھے ایک اور سہیلی ملی۔ یہ قصور پاکستان کی سات سالہ زینب ہے ۔میری اس سے ملاقات ہوئی تو جان میں جان آگئی۔ اب ہم سب وہاں پر ایک ساتھ ہی رہتے ہیں، دن بھر کھیلتے کودتے اور عبادتیں کر تے ہیں ، وہاں نہ ڈر ہے نہ خوف، وہاں ہمارا محافظ کوئی سیاسی سوداگر نہیں بلکہ خدائے مہربان اور مالک بحر وبر ہے ۔ زینب میں اور مجھ میں بس اتنا فرق ہے کہ وہ اپنے سیاسی رہنمائوں کے تئیں بہت خوش ہے ،ناز کرتی ہے اپنے ملک پر جہاں اُس کے والدین کو بھر پور انصاف ملا کہ اس کے قاتل کو سزا کے طور چار پھانسیاں پاکر سیدھے واصلِ جہنم ہوگا۔ آپ ہی بتائیںمیں زینب کو کیسے کہہ پاؤں گی ہمیں اُ ن سیاسی رہنمائوںسے پالا پڑاہے جو انسانیت کے مجرم کو بچانے کے لئے ترنگا لہراتے ہیں ، مظلوم کو پچھاڑنے کے لئے جلسے جلو س کر تے ہیں ، کیونکہ ظلم کی حمایت کے صلے میں یہ نیتا مجرموں سے ووٹ پاکر اپنی آقائیت کی پرچم کشائی کرتے ہیں ۔ اگر زینب یہ سنے گی تو طعنے دے گی کیا یہی ہے آپ کا بڑا جمہوری ملک ؟ جہاں انصاف ماتم کرتاہے ، بے انصافی کاراج تاج ہے ، مجرم پولیس کی وردی پہن کر قانون کی مٹی پلید کر تاہے، لوگ نا حق کی حمایت میں احتجاج کر تے ہیں، نیتا لوگ قاتل کے بچاؤ میں اس کا جرم نہیں اس کا دین دھرم اور اپنا ووٹ بنک دیکھتے ہیں۔ اگریہی جمہوریت ہے تواس میں نہ کوئی ساز ہے نہ سُر بلکہ یہ انسانیت کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ ہے ۔
چچا جانی ! میں نے اپنیدرد کی یہ داستان توآپ لوگوں کوسنائی لیکن مجھے یہ احسا س بھی ڈس رہاہے کہ یہ بھینس کے آگے بین بجانا ہے کیونکہ آپ کے پا س دل ہے نہ ہمدردی کا جذبہ، آپ پتھر وں کے بنے ہیں،اس لئے میرے اس خط کا مذاق اُڑایںگے لیکن اگر کبھی آپ کی آتما میں مانوتا کی شکتی آجائے کہ آپ انسان بن کرا نسانیت کی سیوا کرنااپنی راج نیتی بنائیں تواولین فرصت میں دیپک کھجوریہ کو قانون کے مطابق سزا دلانے میں سچ کا ساتھ دیجئے تاکہ سماج کی ہر آصفہ، ہر سیتا، ہر میری کو تحفظ ملے ۔اس آشا کے ساتھ آپ میرا یہ پتر پڑھ کر کچھ سبق حاصل کر یں گے۔
آپ کی ننھی آصفہ
Cell: 9707110175