اس سال تیس مارچ کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی قید بے گناہی کے پندرہ سال گزر گئے۔ تیس مارچ 2003ء میں انہیں کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے قوم کی اس بیٹی کو گرفتار کرکے امریکی تحویل میں افغانستان روانہ کردیا۔ اس کی تصدیق پاکستان کی وزارت داخلہ نے کی، اس وقت کے وزیر داخلہ فیصل صالح حیات نے تصدیقی بیان دیا کہ عافیہ کو امریکیوں کے حوالے کردیا ہے۔ پرویز مشرف کے یوں تو قومی جرائم کی طویل فہرست ہے لیکن قوم کی بیٹی امریکیوں کے حوالے کرنا سب سے بڑا اور گھناؤنا جرم ہے۔
مارچ کے مہینے کی ابتدأ کے ساتھ ہی پوری دنیا میں خواتین کا دن منانے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ خواتین کے حقوق کی بحالی اور مظلوم عورتوں کے لیے مطالبات ایک اچھی روایت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس موقعے پر مظلوم ترین خاتون ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے بات کرنے کی طرف توجہ کیوں نہیں دی جاتی؟ مغرب جو حقوق نسواں کا بڑا علمبردار بنا پھرتا ہے حالاں کہ سچ یہ ہے کہ اُس نے نسوانی حرمت کی سب سے زیادہ توہین کی ہے۔ آج شام، فلسطین، عراق، افغانستان اور کشمیر میں مظالم کا سب سے زیادہ شکار خواتین ہیں۔ کیا ایک دن کے لیے ان کی حیثیت اور حقوق کو زبانی کلامی مان لینا، ان ممالک کی مظلوم خواتین کو ظلم سے نجات دلاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں!!! ڈاکٹر عافیہ کا جرم کیا تھا؟؟ پرویز مشرف نے 30 مارچ 2003ء کو عافیہ صدیقی گرفتار کرکے افغانستان منتقل کروایا۔ 2010ء تک افغانستان میں انہیں بے گناہ قید میں رکھا۔ شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا، عافیہ پر مظالم اور اُن کی قید کا ذمے دار پرویز مشرف ہے، اس نے اپنی کتاب میں ڈالروں کے بدلے ہم وطنوں کو بیچنے کا اعتراف کیا۔ اس نے قوم کی اس بے قصور بیٹی کا سودا بھی کیا۔ اس سودے سے اس نے اندرون ملک اور بیرون ملک جائدادیں خریدیں۔ ان جائدادوں میں وہ عالیشان فارم ہاؤس بھی شامل ہے جو آج سُونا پڑا ہے۔ وہ خود وہاں رہنے بسنے سے خوف زدہ ہے۔دوسری طرف مظلوم ترین خاتون عافیہ افغانستان کے اذیت خانوں میں برسوں اذیت سہتی رہیں۔ مغربی صحافی ایوان ریڈلی اپنی رہائی کے بعد خود شہادت دیتی ہیں کہ عافیہ کی چیخوں سے جیل گونجتا رہتا تھا۔ امریکی حکام نے افغانستان کی جیلوں میں ان پر مظالم ڈھائے لیکن اپنے ہاں ان کی گرفتاری 17 جولائی 2009ء کی ظاہر کی۔ 6 سال افغانستان میں بدترین تشدد سے گزار کر 2009ء میں گرفتاری کا اعلان کیا تو اس الزام کے ساتھ کہ انہوں نے امریکی فوجی سے اس کی رائفل چھین کر اس پر حملہ کیا ہے اور گولی چلائی ہے۔ حالاں کہ عین گرفتاری کے وقت وہ خود بندوق کی گولی سے شدید زخمی تھیں۔ اس جھوٹے الزام کے ثبوت ناکافی تھے بلکہ ان کی بے گناہی کو ظاہر کررہے تھے،لیکن امریکی عدالت نے عدل و انصاف کا ذرا پاس نہ رکھا اور عافیہ کو 89 سال کی قید کی سزا سنائی۔ یہ سزا امریکی محکمہ عدالت اور انصاف پر سیاہ دھبا نہیں بلکہ پوری سیاہی ملنے کے مترادف ہے۔ اس دوران پاکستان میں حکومتیں بدلتی رہیں لیکن کسی حکومت کو مظلوم عافیہ کی رہائی سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو دُرست ہوگا کہ عافیہ کی قید اور رہائی نہ ہونے کا سبب خود پاکستانی حکمران تھے۔ نواز شریف جب تک حکومت سے باہر تھے تو عافیہ کو قوم کی بیٹی قرار دیتے تھے اور اس کی رہائی تک چین سے نہ بیٹھنے کی باتیں کرتے تھے۔ پچھلے سال صدر بارک اوباما کے آخری دنوں میں جب خود امریکی اٹارنی مشورہ دے رہے تھے کہ وہ وقت ضائع نہ کریں اور امریکی حکومت کو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے خط لکھیں تا کہ آپ کی قوم کی بیٹی آزاد ہوجائے تو اس وقت نواز شریف کے پاس خط لکھنے کے لیے پانچ منٹ نہیں تھے۔ انہیں خط لکھنا تھا نہ لکھا اور وہ موقع گنوا دیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ ڈاکٹر عافیہ کے لیے ایک خط ان سے لکھا نہ جاسکا ؟آج بھی یہ عالم ہے انہیں بھارتی وزیر اعظم کی سالگرہ یاد رہتی ہے، انہیں اس کو مبارک باد اور تحائف کا بھیجنا بھی یاد رہتا ہے لیکن یاد نہیں رہتا تو قوم سے کیے وعدے یاد نہیں رہتے۔
مارچ میں ڈاکٹر عافیہ کی سالگرہ کا دن یاد نہیں رہتا، 2ارچ ڈاکٹر عافیہ کی سالگرہ کا دن تھا لیکن پاکستانی سفارت خانہ سے کوئی ان سے نہ ملنے جاتا ہے نہ وزیراعظم کا خط جاتا ہے نہ ہی اس کے لیے کوئی سوچ یا خیال ہی آتا ہے۔ امریکہ شہری ریمنڈ ڈیوس پاکستان میں لاہور میںدو افراد کے قتل کا ارتکاب کر گیا اور جیل بھیج دیا گیا، لیکن پاکستان میں امریکی سفارت خانہ اس کی مدت قید میں قاتل کی نگہبانی کرتا رہا اور پھر رہا کرواکر واپس ملک پہنچوایا۔ کلبھوشن بھارتی جاسوس ہے ، قید وبند میں بھی اس کی ماں اور بیوی کو بھارت سے بلا کر ملوایا گیا لیکن وزیراعظم پاکستان نہ خود عافیہ کا ذکر کرتے ہیں نہ خیال کرتے ہیں اور نہ سفارت خانے کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس سے جا کر ملاقات کی جائے، اس کی خبر گیری کی جائےیا کم ازکم اس کی ماں اور بہن سے اس کی ملاقات کا کوئی اہتمام کیا جائے۔ خواتین کے حقوق کا نعرہ لگاتے ہوئے یوم خواتین کے موقعے پر مغرب سے اس مظلوم ترین خاتون کے حق کے بارے میں سوال کیا جانا چاہیے تھا، ہر گروہ اور ہر طبقے کو اُن کی رہائی کے لیے مطالبہ کرنا چاہیے تھا، یقیناًاہل علم، اہل سخن اور اہل قلم پر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے کوششیں واجب ہیں مگر سب نے اپنی زبانوں کو مقفل اور ضمیروںکوتالا بند کیا ہو اہے۔