لل عارفہ اورشیخ نور الدین نورانی کی سرزمین پرصنف نٰازک کی بدترین توہین اور تذلیل کے طوفان کو روکنے میں انتظامی اور لاء اینڈ آرڈر مشنری کی شرمناک ناکامی کا یہ جواز کس قدر بھونڈا ہے کہ بال کترنے کے پے در پے واقعات کے باوجود کوئی متاثر ہ خاتون ثبوت کے ساتھ پولیس کے روبرو پیش نہیں ہوئی اس لئے اس معاملے میں اب تک کوئی سراغ حاصل نہیں کیا جاسکا ۔اگر یہ واقعی سچ بھی ہے کہ کوئی متاثرہ خاتون پولیس کے سامنے ثبوت کے ساتھ پیش نہیں ہوئی تو اس کا کیا یہ مطلب ہے کہ ایسے واقعات سرے سے رونما ہوہی نہیں رہے ہیں ۔خود ڈی جی پولیس کا کہنا ہے کہ اب تک ایسے ایک سو ایک واقعات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیںاور کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ پولیس اطلاعات کے باوجود موقعے پر پہونچ کر متاثرہ خاتون کا بیان نہیں لے رہی ہے اور ثبوت کو بچشم خود نہیں دیکھ رہی ہے بلکہ انتظار کررہی ہے کہ خود متاثرہ عورت یا لڑکی پولیس تھانے میں پیش ہوکر اپنی روئیداد بیان کرے ۔ وادی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک عوام میں بے چینی اور اضطراب کی لہر پولیس کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی ہے اور وہ خدشات بھی کوئی مطلب نہیں رکھتے جو اس طوفان کے نتیجے میں عوام کے ذہنوں میں پیداہوچکے ہیں ۔حکومت کی طرف سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ محض ایک فوبیا ہے۔حکومت کا تاثر درست مان لیا جائے تو یہ پوری قوم ہی فوبیا کی شکار ہے ۔پھر اس انتخاب پر بھی سوال اٹھتے ہیں جس میں فوبیا زدہ لوگوں کے ووٹ استعمال ہوئے اورایک حکومت منتخب ہوئی ۔
بے شک ہر جگہ اورہر قوم میں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جن کی سوچ منفی ہوتی ہے ،جرائم پیشہ بھی ہر جگہ ہوتے ہیں اور جنونی بھی ہوتے ہیں جن کے لئے ایسے حالات بہت گنجائش پیداکرتے ہیں جو کشمیر میں وقتاً فوقتاً پیداہوتے ہیں اوروہ صورتحال کو ابتر بنانے میں اپنا کردار ضرور ادا کرتے ہیں ۔یہی لوگ ہوتے ہیں جو ستر سالہ بزرگ کے سرپر اینٹ سے وار کرکے اس کو موت کی نیند سلادیتے ہیں ۔ ذہنی طور پر معذور شخص کو پکڑ کر اس کی ہڈی پسلی ایک کردیتے ہیں ۔ راہ چلتے لوگوںکو پکڑ پکڑ کر ان کی تلاشی لیتے ہیں اور شک کی بنا پر ان کی پٹائی بھی کرتے ہیں ۔ مکانوں کونذر آتش کرتے ہیں ۔ افواہیں پھیلا کر معصوم عوام کو دہشت زدہ کرتے ہیں ۔سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں شیئر کرتے ہیں جو رونگھٹے کھڑے کرتے ہیں ۔ایسے میں مثبت سوچ رکھنے والے ذمہ دار لوگوں ، دانشوروں ، قلمکاروں اور ذی عزت لوگوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ بے قابو اور ہنگامہ خیز صو رتحال کو سنبھالنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں تاکہ اصل معاملے کو حل کرنے میں مدد مل سکے لیکن کشمیر کا المیہ یہ ہے کہ ڈر اور خوف کا ایسا عالم طاری ہوا ہے جو ایسے عناصر کو اپنا کردار ادا کرنے سے روک رہا ہے ۔کوئی ایسی بات کہنے کی جرات ہی نہیں کرتا جواس یقین اور اس جذبے کی نفی کرتی ہو جس کو ذہنوں پر ٹھونسا گیا ہو ۔
سیاست داں اور مذہبی جماعتیں بھی ایسے حالات کو اپنے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے میں یہ ممکن ہی نہیں رہتاکہ اصل حقائق تک رسائی حاصل کی جاسکے ۔عام خیال اس وقت یہ ہے کہ بال کترنے کی اس سازش میں سکیورٹی ایجنسیاں ملوث ہیں ۔پولیس کو اس معاملے کا سب سے بڑا مجرم خیال کیا جارہا ہے ۔ اس کے لئے کچھ اہل فکر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ پولیس کیخلاف جنگجووں کی طرف سے جو ہلاکت خیز مہم شروع کی گئی تھی اور جس کے نتیجے میں پولیس پر بہت سارے حملے ہوئے اس کو روکنے کیلئے یہ سازش رچی گئی ہے ۔ دوسری بات یہ کہی جارہی ہے کہ عوام پر خوف و دہشت کا عالم طاری ہونے کے بعد جنگجووں کے لئے عام لوگوں کے گھروں میں داخل ہونا اور بستیوں میں پناہ لینا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہوجائے گااس لئے یہ آپریشن آل آوٹ کے تحت فوج اورنیم فوجی دستوں کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہوسکتی ہے ۔دیکھا جائے تو اس دلیل میں کافی وزن ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کے نتیجے میں جو صورتحال پیدا ہورہی ہے وہ حکومت ہند کی اس خواہش اور کوشش کو مستقل ناکامی سے دوچار کررہی ہے کہ کشمیر میں امن اور سکون قائم ہو تاکہ ملک میں بھی اوربین الاقوامی سطح پر بھی موجودہ بی جے پی حکومت کو فخر کے ساتھ اپنے دعووں کو سچ ثابت کرنے کا موقع فراہم ہو ۔ایسے حالات کے نتیجے میں جو انارکی پیدا ہورہی ہے وہ حکومت ہند کیلئے سب سے زیادہ ہزیمت انگیز اورنقصان دہ ہے ۔
اس لئے کسی حتمی نتیجے تک پہونچنے کی کوئی صورت موجود نہیں ہے ۔کشمیر درپردہ جنگ کا ایک اکھاڑہ بن چکا ہے اور متحارب قوتیں ایک دوسرے کیخلاف ہر طرح کے حربے استعمال کررہی ہیں اورکوئی اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ کشمیریوں کے سروں ، عزتوں اورآبرووں کی کتنی قیمت ادا ہوگی اور متحارب قوتوں کے درمیان ایسے عناصر بھی ایک بھر پور قوت کی صورت میں موجود ہیں جو دانستہ یا نادانستہ طور محض اپنی ذہنی تسکین کیلئے سرگرم کردار ادا کرکے سب کے منصوبوں کی تکمیل کے ساماں کررہے ہیں ۔ان ہی عناصر کی وجہ سے پراسراریت کا ماحول برقرار رہتا ہے اورمعاملات کی اصل صورت کبھی سامنے نہیں آتی ہے چاہے وہ بھوت نمودار ہونے کا فوبیا ہو ، چھتوں پر پتھراو کی مہم ہو ، دروازے کھٹکھٹانے کاڈراونا طوفان ہو یا بال کترنے کی سازش ہو ۔انہی کی وجہ سے ایسا پرگندہ ماحول پیداہوتا ہے جس میں کسی بات کو نکار دینا ممکن نہیں رہتا ۔ بال کترنے کے واقعات کیلئے جو عام تاثر ہے اس کو بھی نکارنا مشکل ہے اور پولیس جو جواز پیش کرتی ہے اسے بھی نکارنے کی بہت کم گنجائش ہے ۔افراتفری ا، انتشار اور انارکی کا ماحول گہرا اور وسیع ہوتا جارہا ہے ۔بیشتر لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ اس عالم میں کیا یہ ممکن ہے کہ ان عناصر تک پہونچا جائے جو اس قبیہہ حرکت میں ملوث ہیں اور اگر یہ کوئی سازش ہے تو کیاکبھی بے نقاب ہوسکے گی ۔
عوام پولیس کو کوئی تعاون فراہم نہیں کررہے ہیں اور اگر یہ مان لیا جائے کہ پولیس ہی اس معاملے میں ملوث ہے تو کیا اسے اس طرح سے یہ موقع فراہم نہیں ہوتا کہ وہ کھل کر اپنا کھیل کھیلے ۔اس طرح سے حکومت بھی بری ہوجاتی ہے اور فورسز بھی ۔اگر پولیس کو تعاون فراہم کیا جائے تو اس کے پاس اس کے باوجود کہ وہ اس معاملے کو ایک فوبیا قرار دے رہی ہے اس کا کوئی جواز نہیں رہے گا کہ وہ ملزموں کا سراغ پانے میں کیوں ناکام ہوئی ۔کئی باتیں اس معاملے میں قابل غور ہیں کہ ایسے واقعات کیوں ان کالونیوں میں رونما نہیں ہورہے ہیں جہاں سرکردہ لوگ سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں ۔صرف وہی مقامات اب تک نشانہ بنے ہیں جو آئے روز تشدد اور افراتفری کی زد میں رہتے ہیں ۔چونکہ اس معاملے سے عوام کے جذبات وابستہ ہیںاس لئے ہر قوت اس مدعے کے میدان میں اپنی موجودگی دکھانے کیلئے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے ۔
نیشنل کانفرنس بھی اب جلسے جلوس کرنے کیلئے مقدور بھر کوششیں کررہی ہے ۔ مزاحمتی قیادت نے ہڑتال بھی کی اور مظاہروں کی اپیلیں بھی کیں جنہیں حکومت نے پابندیاں عاید کرکے اور تعلیمی ادارے بند کرکے ناکام بنایا ۔مزاحمتی قیادت کو معلوم ہے کہ وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتی ہے اور اس سے کوئی ٹھوس مقصد بھی حاصل نہیں ہوسکتا ہے لیکن عوام کی نمایندگی کی دعوے دار ہونے کی حیثیت سے اس کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ اس صورتحال کے مضمرات کا جائزہ لیکر اس کے متعلق ایک بہتر حکمت عملی اختیار کرے تاکہ انارکی اس حد تک نہ پیدا ہو کہ یہ قوم جو پہلے ہی بدترین حالات کی شکار ہے اس موڑ پر پہونچ جائے جہاں اس کی رہی سہی سماجی ، سیاسی اور اقتصادی حیثیت ختم ہوکر نہ رہ جائے ۔عورت قوموں کے وجود کا وہ بیج ہوتا ہے جس پر مستقبل کے پھول کھلتے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم میں بھی عورت کی عزت ، عظمت اور تقدس پامال ہونے لگی اس کی تباہی اور زوال کو روکنے کے امکانات ہمیشہ کے لئے ختم ہوکر رہ گئے ۔
گزشتہ 27سال کے حالات میں عورت ہی سب سے زیادہ تکلیفوں کی شکار رہی ۔بے آبرو بھی اسے ہی ہونا پڑا ۔ اسے ہی بیوگی کا عذاب جھیلنا پڑا ۔ اسے ہی اپنے بچوں کے جنازے اٹھانے کی قیامت جھیلنی پڑی ۔ اسے ہی یتیموں کا بوجھ اکیلے ڈھونا پڑا اوراسے ہی مجبوریوں اور محرومیوں کا بھی شکار ہونا پڑا لیکن اب بات اس کے اس سر تک آپہوچکی ہے جسے وہ اجنبی نگاہوں سے بچانے کیلئے ہمیشہ ڈھانک کے رکھتی ہے ۔اس کے گیسو ہی اس کی زینت ہے ، اس کی شان ، اس کا حسن اور اس کا افتخار ہے ۔گیسو کترنے کے مسلسل واقعات اسے جس ذہنی انتشار سے دوچار کررہے ہیں اس کا تباہ کن اثر اسی پر نہیں پڑے گا بلکہ اس کی گود میں پل رہی نسل اور آنے والی نسلیں بھی اس کا شکار ہوجائیں گے ۔پوری قوم کو اس کا احساس کرنا چاہئے اور اس بات کو سمجھ لینا چاہئے تاکہ ایسی سوچ اورایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ اس معاملے کی تہہ تک پہونچا جائے اوراس طوفان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کیا جائے ۔ فی الحال ایسی کوئی سوچ کہیں موجود نہیں ہے ۔ مکمل انتشار ، افراتفری ، تشدد اور انارکی کے ہی اسباب پیدا کرنے کا عمل جاری ہے ۔یہ عمل یوں ہی جاری رہا تو کشمیر ایک ایسے طوفان اور ایسے انقلابوں کی زد میں آئے گا جس میں اس کے باشندوں کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ وہ کیسے بربادی کی گہری کھائی میں فنا ہوکر رہ گئے ،کیسے اس نے ان منصوبوں کو خود اپنے ہاتھوں سے پایہ تکمیل تک پہونچایا جو اس کے دشمنوں نے اس کے لئے تیارکئے تھے ۔مثبت سوچ اور مثبت عمل تحریکوں کے لئے ضروری ہوتا ہے ۔ کوئی تحریک منفی سوچ کے ساتھ کامیابی کی دہلیز تک نہیں پہونچ سکتی ہے ۔ہم نے نوجوانوں کی ایک ایسی نسل تیار کی ہے جس کے اندر جوش اور جذبوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر ہیں لیکن وہ احتجاجوں ، توڑ پھوڑ ، تشدد اورہنگامہ آرائی میں اپنے جوش اورجذبے کو ضائع کررہی ہے، اسے کوئی یہ بتانے والانہیں ہے کہ جوش اور جذبے کا یہ اظہار کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرتا بلکہ نئے مسائل پیدا کرنے کا ہی باعث ہوتا ہے ۔بہت سے ایسے راستے ہیں جو ٹھوس نتائج پیدا کرسکتے ہیں اور مستقبل کو سنوارنے کے کام آسکتے ہیں ۔قوم اگر مل کے خود چوٹیاں کترنے والوں کے گریباں تک پہونچنا چاہے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں لیکن صبر و تحمل کے ساتھ معاملے کی تہہ تک پہونچنے کی خواہش بہتر سوچ کے ساتھ موجود ہو تو ہی کامیابی کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ ہنگامہ آرائیاں اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو مجرموں کو صاف بچ کرنکلنے کے مواقع فراہم کرتی ہے اور یہ کام ہی ہمارے نوجوان کررہے ہیں ۔ہم اب تک ایک لائحہ عمل مرتب کرنے میں ناکام ہوئے ہیں ۔ قایدین بھی ہمیں لائحہ عمل مرتب کرنے کی تلقین کرنے کے بجائے اسی راہ کی طرف لے جارہے ہیں جو بہرحال ہلاکت خیز ہے ۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے اس پوری قوم کو سوچنا پڑے گا کہ اس کے حق میں کیا بہتر ہے اورکیا نہیں ہے ۔اسے ان گہری سازشوں کو سمجھنا ہوگا جو اس سرزمین پر اس کی تباہی کے لئے گہرے گڑھے کھود رہی ہیں ۔اسے احساس کرنا ہوگا کہ وہ ان سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے کیا کررہا ہے اور کہیں وہ ان سازشوں کی کامیابی میں ہی ہاتھ تو نہیں بٹا رہا ہے ۔ ہمیں کھلی بحث کرنی چاہئے اور ہر اختلاف کو برداشت کرنا ہوگا تاکہ صحیح راستوں کا تعین کرنے میں مدد مل سکے ۔
بشکریہ ہفت روزہ نوائے جہلم