سیدمصطفیٰ احمد
انسان ہمیشہ سے ڈرپوک رہا ہے۔ بہادر ہونے کے باوجود وہ بڑا ڈرپوک ہے۔ وہ ظاہر اور پوشیدہ دونوں قسم کے خوف سے دب جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک نہ تھمنے والی مصیبتوں کا شکار ہوتاہے اور زندگی کی رنگینیوں کا لطف اٹھانے سے رہ جاتا ہے۔ بھونچال، تیز بارشیں، گرج، بجلی کا چمکنا،سیلاب، طوفان، موت، مختلف قسم قسم کے حادثات سے انسان خوف کھاتاہے۔ لیکن موجودہ زمانے نے جدید قسم کے خوف اپنے ساتھ لائے ہیں۔ آج کے زمانے میں ایک انسان دوسرے انسان سے پاس ہوکر بھی دور ہے۔ یہ دوریاں طرح طرح کی ہیں۔ دل کی دوری سب سے بڑی دوری ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تو بات چیت کرتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں، لیکن ان کے درمیان ایک ایسا خلا پایا جاتا ہے جو زندگی کو خوف سے بھر دیتا ہے۔ ایک طالب علم عمر کے لحاظ سے اور تجربے کی کمی کے لحاظ سے بھی چیزوں کی اصلی حقیقت دیکھنے کی حالت میں نہیں ہوتا ہے۔ وہ ہر خوف سے مرعوب ہوتا ہے اور کبھی کبھار کوئی خوف انتہائی نقصانات کا محرک بنتا ہے۔ میں کئی سالوں سے بچوں کے اندر پائے جانے والے مختلف گھبراہٹوں کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔ یہ اس لیے کیونکہ میں ایک نجی کوچنگ ادارے میں کام کرتا ہوں، جہاں مجھے مختلف قسم کے بچوں کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے۔ مشاہدے کے دوران بچوں میں بہت سارے پوشیدہ خوف مجھے دکھائی دیں۔ اجنبی لوگوں کا ڈر، بھوت پریت کا ڈر، خسارے کا ڈر، اونچی آوازوں کا ڈر، موبائل فونس کی گھنٹی کا ڈر، بے عزتی کا ڈر، کامیابی نہ ملنے کا ڈر، سڑک پر چلنے کا ڈر، بڑوں کا ڈر، سماج کی امیدوں پر کھرا نہ اترنے کا ڈر، اسکول میں دوسرے بچوں کے ساتھ بات کرنے کا ڈر، رشتہ داروں کا ڈر، سوشل میڈیا پر دوستوں کا دور ہونے کا ڈر، رچارج ختم ہونے کا ڈر، موبائل فونس سے دور ہونے کا ڈر، وغیرہ گھبراہٹیں ہیں جو بچوں کو اندر سے ہی کھائی جارہی ہیں۔ ہر زمانے میں خوف موجود ہوتا ہے۔ قدرتی خوف کے علاوہ انسانی خوف بھی ایک انسان کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ لیکن موجودہ دور جو ترقی کا دور ہے، اس میں جدید قسم کے خوف نے اپنے پنجے مضبوطی کے ساتھ زمین میں گاڑے ہیں۔ ان کی گہرائی ناپنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ مگر اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کیا محرکات یا وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے آج کل کے طلباء میں سنگین اور پوشیدہ قسم کی گھبراہٹیں پائی جاتی ہیں۔ کچھ ظاہر اور بیشتر پوشیدہ وجوہات ہیں ،جو اس تکلیف دہ صورتحال کو جنم دیتے ہیں۔ آنے والی سطروں میں کچھ وجوہات کا مختصر ذکر کیا جارہا ہے۔
پہلی وجہ ہے مسابقتی امتحانات کا جنون۔ اگر غلط نہ ہو تو یہی وہ وجہ ہے جس سے دوسرے وجود کا جنم ہوتا ہے۔ جب ایک طالب علم چکّی کے دو پاٹوں کے درمیان پستا رہتا ہے تو اس کی زندگی میں ہر قسم کا خوف جنم لیتا ہے۔ اگر پہاڑوں کو بھی مسابقتی امتحانات کی دوڑ میں شامل کیا جائے تو وہ بھی خوف کے مارے زمین بوس ہوجائیں۔ اب اگر انسانوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جائے تو طلباء کا گھبراہٹ کا شکار ہونا قدرتی بات ہے۔ امتحانات میں فیل ہونے کا ڈر اور اس کے ساتھ جڑی ہوئی بےعزتی طلباء کے زندگیوں میں ہر عمل کا ردعمل جیسی حالت پیدا کرتی ہے جو اگر موت پر نہیں تو ایک بچے کو زندہ لاش ضرور بنا کر چھوڑتے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے ایک اٹھائیس سالہ جوان نے خودکشی کی، ذرائع کے مطابق وہ جوان ایک مسابقتی امتحان میں ناکام ہوا تھا۔ وہ اس صدمے کو برداشت نہیں کرسکا جو اس کی زندگی میں کالے بادلوں کی طرح منڈلا رہا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو منہ دکھانے کی حالت میں نہیں تھا! یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ خود کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف رکھتا تھا۔ ایسے کتنے سوالات ہیں،جو وہ محنتی جوان اپنے ساتھ لے گیا۔ اب میں قارئین سے ہی سوال کرتا ہوںکہ کیا مسابقتی امتحانات گھبراہٹوں کی بنیادی وجہ نہیں ہے؟دوسری وجہ ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کا مکروہ چہرہ۔ اب طلباء پردے کے پیچھے رشتوں کی پرواہ زیادہ کرتے ہیں۔ وہ رشتے جذبات سے عاری ہوتے ہیں۔ان رشتوں میں لگائو کم مگر خودغرضی کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔ ان رشتوں سے بےقراری اور بے چینیوں میں اضافہ ہوتاہے۔ اگر خدانخواستہ ان ناپید رشتوں میں دراڑ پیدا ہوجائے تو پھر مستقبل کی زندگی ایک بوجھ لگتی ہے۔ طرح طرح کے خوف دامن گیر ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں طلباء سوچنے سے قاصر ہوتے ہیں اور اندر ہی اندر سے خوف کی وادیوں میں چلے جاتے ہیں، جہاں دل کی دھڑکنیں تیز اور آنکھوں سے چمک ختم ہوجاتی ہیں۔ اداسیوں کے ڈیرے جانے کا نام نہیں لیتے ہیں۔ اس طرح جذبات اور پیار سے عاری رشتے حقیقی رشتوں کی جگہ لے لیتے ہیں جو صرف پریشانیوں کا سبب بنتے ہیں۔ تیسری وجہ ہے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی آماجگاہ۔ اس کی وجہ سے ظاہری پریشانیوں کی علاوہ اندرونی گھبراہٹوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ جتنے فوائد انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ہیں ،اس سے زیادہ اس کے بُرے اثرات طلباء پر مرتب ہوتے ہیں۔ وقت سے پہلے بالغ ہونا اور ان چیزوں سے واقف ہونا، جس کو ہم untimely exposure کا نام دے سکتے ہیں۔ یہ خوفناک صورتحال ہے۔ علم نفسیات کے ماہر بھی کہتے ہیں کہ وقت سے پہلے طلباء کا ان چیزوں سے مترادف ہونا جو جذبات پر منفی اثرات مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہو، تو اس کے نتائج خوف اور بےقراری کے روپ میں نکل کر آتے ہیں۔ چوتھی اور آخری وجہ ہے افراتفری کا ماحول۔ ماحول ہم سے ہی ہے۔ یہ ہم ہی ہیں،جو ماحول کو ترتیب دیتے ہیں۔ اس ماحول کو ہم نے ہی افراتفری کی آماجگاہ بنا دیا ہے۔ اس ماحول میں خوف اور گھبراہٹ کا پنپنا قدرتی ہے۔ ہم نے ایسے بےجا رسموں اور رواجوں کو پنپنے دیا کہ طلباء اندر ہی اندر سے گھٹن محسوس کرتے ہیں۔ اس ناموافق ماحول میں اگر کوئی طالب علم اپنی مرضی کی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو اس کے سامنے رکاوٹوں کے ایسے پہاڑ کھڑے ہوتے ہیں کہ طلباء زیادہ سوچنے کے عادی بن جاتے ہیں یا تو پھر وہ سوچنا ہی چھوڑ دیتے ہیں، جس کی وجہ سے طلباء تباہی کے دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں ،جہاں خوف کے کالے سائے چارسو ہوتے ہیں۔ اس ماحول میں ایک طالب علم کی بنیادوں پر کاری ضربیں لگتی ہیں۔
طلباء کو ان ساری گھبراہٹوں سے بچانے کے لئے ہم سب کو اپنا بھرپور تعاون دینا ہوگا۔ ان کی مکمل دیکھ بھال کرنی ہوگی۔ وہ عمر سے کم اور ناتجربہ کار بھی ہے۔ وہ چیزوں کی باریکیوں سے ناواقف ہیں۔ ایک جامع نظام ترتیب دینا وقت کی اہم ضرورت بن گئی ہے۔ ایسا نظام جس میں چھوٹے سے لے کر بڑا طالب علم اپنے اندرچھپے خوف کو دور کرنے کی بھرپور کوششیں کریں۔ وہ بچہ اپنے اندر موجود گھبراہٹوں کو کھل کر بول سکیں۔ دباؤ اور دھونس سے پرہیز کرتے ہوئے بچوں کی جائز اور ناجائز باتوں کو غور سے سننے کی عادتیں ڈالیں۔ جب ایک بچہ اپنے آپ کو بھیڑ میں تنہا پاتا ہے تو وہ ہر دوسرے آدمی کا خوف اپنے دل میں بٹھا لیتا ہے۔ اس کو اپنے رشتہ داروں سے بھی نفرت ہونے لگتے ہیں کیونکہ اوروں سے شکایت کیا کرتے ہیں ،جب اپنوں نے ہی سمجھا نہیں کے مصداق جب ایک طالب علم کو اپنی زندگی سے جڑے ہوئی باتیں دوسروں کے منہ سے سننے کو ملتی ہیں تو وہ بچہ ایک پوشیدہ خوف کا شکار ہوتا ہے۔ سماج کے ذی شعور افراد اور حکومت کو بھی افراتفری کے ماحول کو امن کا گہوارہ بنانے کی کوششیں کرنی چاہئے۔ گھر سے لے کر تعلیمی اداروں تک ایسے اقدامات اٹھانے چاہئے جس سے خوف دور لیکن زندگی جینے میں آسانی پیدا ہو۔ تجربہ کار کاونسلرز اور ماہر نفسیات کی مدد لینا اب وقت کی ضرورت ہے۔ جتنا ممکن ہوسکے ،ہر محلے میں ایسے افراد موجود ہو جو طلباء کے پوشیدہ خوف کو کم کرنے میں مدد کریں۔ یہ کام وقت اور وسائل دونوں مانگتاہے اور ہم سب اس قربانی کے لیے تیار ہونے چاہیے۔ اگر ہم ارادہ کرے کہ طلباء اور دیگر لوگوں کو خوف کی زنجیروں سے چھڑانا ہے تو ہر صحت مند فرد کو اس میں پیش پیش رہنا ہوگا۔ مضمون کی طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں جاتے جاتے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم سب کو اب اس بارے میں سنجیدہ ہونا چاہیے اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔
(حاجی باغ، بمنہ، سرینگر ،رابطہ۔9103916455)
[email protected]