سرینگر//حریت رہنما مولانا محمد عباس انصاری نے سپریم کورٹ کی جانب سے طلاق ثلاثہ کو غیر آئینی قرار دیئے جانے کے فیصلے کو مسلمانوں کے دینی امور اور شرعی احکامات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تین طلاق کے موجودہ عمل اور شکل پر اگرچہ قرآن ، احادیث نبوی اور فقہ جعفریہ کی رو سے اختلاف ہے لیکن سپریم کورٹ کا اس ضمن میں فیصلہ مداخلت فی الدین کے مترادف ہے ۔ مولانا انصاری نے کہا کہ طلاق ثلاثہ کو بھارتی حکمران اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کررہے ہیں اور سپریم کورٹ کا اس ضمن میں فیصلہ اسلامی تشخص اور مسلمانوں کے شرعی قوانین کو مٹانے کی مودی سرکار کی مذموم توسیع کی کڑی ہے ۔انہوں نے کہا کہ جس انداز سے وزیراعظم نریندر مودی اور باجپا صدر امیت شاہ بھارت میں مسلمان خواتین کی حالت زار کا رونا رو رہے ہیں اصل میں اس کے پس پردہ ان کے سیاسی مقاصد ہیں اور وہ طلاق ثلاثہ کے خاتمے کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتے ہیں اور ظاہر یہ کررہے ہیں کہ مسلمان عورتوں کا بھارت میں ان سے زیادہ کوئی اور خیر خواہ اور ہمدرد نہیں ہے ۔ انہوںنے کہا کہ بھارت میں مسلمان عورتیں تعلیم اور دوسرے کئی میدانوں میں بری طرح سے پچھڑ رہی ہیں اور اگر بھارتی حکمران مسلمان عورتوں کے اتنے ہی زیادہ ہمدرد ہیں تو ان مسائل کے تدارک کی کیوں کوشش نہیں کررہے ہیں ۔مولانا انصاری نے کہا کہ بھارت کے آئین کی رو سے یہاں بسنے والے ہر مکتبہ فکر اور مذہب کے لوگوں کو مذہبی آزادی میسر ہے اور وہ اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق اپنی زندگی بسر کرسکتے ہیں۔اب اگر تین طلاق جو خالصتاً ایک دینی اور شرعی مسئلہ ہے کو غیر آئینی کہا جارہا ہے تو پھر یہی لگتا ہے کہ بھارت کے سیکولرازم کا آئین اور عدلیہ کے ذریعے رسمی طور جنازہ ہی نکالا جارہا ہے کیونکہ اس طرح کے فیصلوںسے نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی حقوق سلب کئے جارہے ہیں بلکہ ان کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے اور دیگر امورات انجام دینے سے بھی زبردستی روکا جارہا ہے ۔مولانا انصاری نے کہا کہ بھارت میں مسلمان جب شادیاں شریعت کے مطابق انجام دیتے ہیں تو پھر طلاق بھی شریعت کے مطابق ہی ہونا چاہئے اس میں قانون اور آئین کا عمل دخل نہ صرف مذہبی آزادی کے سلب کرنے کے متراد ف ہے بلکہ اس طرح کے قانون لاکر مسلمانوں کو اپنے مذہب کا نہیں بلکہ قانون اور آئین کا پابند بنایا جارہا ہے جو کہ نہ صرف دینی معاملات میں مداخلت ہے بلکہ ہر لحاظ سے غیر فطری اور غیر انسانی عمل ہے ۔