گزشتہ سال ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کوہندوستان کی لوک سبھا میں طلاقِ ثلاثہ کے خلاف بل پاس ہواجس کی رُو سے سہ طلاق قابل دست اندزایٔ حکومت جرائم کے زُمرے میں لایا گیا ۔ Muslim women (protection of rights on marriage) bill 2017 جسے Triple talaaq bill نام سے بھی جانا جاتا ہے، کو مرکزی وزیر برائے قانون و انصاف روی شنکر پرساد نے لوک سبھا میں پیش کیا ۔ ایوان میں موجود اراکین میں سے245 ؍نے بل کے حق میں ووٹ دیا جب کہ11؍ممبران نے بل کے خلاف اپنی رائے ظاہر کی۔ اس بل کے مطابق طلاقِ ثلاثہ کو ایک جرم تصور کیا جائے گا جس کی پاداش میں کسی بھی مسلم شوہر کو سہ طلاق شرعی پر تین سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس بل پر لوک سبھا میں موجود اراکین کے بیچ بحث ومباحثہ ہوا جس میں بعض اراکین نے اس بل کے حق میں بولتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سہ طلاق کو بیس سے زائد مسلم ممالک میں پہلے ہی ناجائز اور جرم قرار دیا جا چکا ہے ۔ اگر امر واقع یہ ہے تو اس اقدام کو پھر ہندوستان میں جرم کیوں نہ قرار دیا جائے۔ در اصل مصر ، لبنان ، عراق انڈونیشیا سمیت کئی مسلم ممالک نے شوہر کو حاصل طلاق کے غیر معمولی اختیار ات کے ممکنہ غلط استعمال اور خواتین کے استحصال کے امکانات کو کم کرنے کے لئے شریعت کے قاعدہ ٔ کلیہ کو مد نظر رکھ کر حقوق الزوجین کے کئی قوانین بنائے ۔ان کی رُوسے شوہر کی طرف سے عورت کو طلاق دئے جانے کی صورت میں مطلقہ کو مالی معاوضہ دینے اور عدت کے ایام تک اس کی دیکھ بھال اسلامی اصول کے تحت کرنے کا مکلف شوہر کو قرار دیا گیا ہے۔ یکے بعد دیگرے کئی ایک مسلم ممالک نے طلاق کے ضمن میں روح ِشریعت کے عین مطابق اپنے قوانین بنانے کا قدم خلوص نیت سے اُٹھایا ۔
ہندوستان میں جہاں مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے باشندگان کے طلاق اور نکاح جیسے عائلی معاملات کے لئے مسلم پرسنل لاء مجریہ ۱۹۳۷ء وضع کیا گیا ہے ۔اس وقت مسلمانوں کے فیملی لاز کے عنوان سے مسلمانوں کے مذہبی تشخص کوبرقرار رکھنے میںآل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ کے زیر قیادت مسلم علماء اور دانش ور آگے آگے ہیں ۔ یہ بورڈ اپنے تمام فیصلے شریعت کے حوالے سے ہی لیتے ہیں ۔ اس وقت طلاقِ ثلاثہ پر بھی یہ وہی قانون چاہتا ہے جو قرآن وسنت سے مستنبط ہو۔طلاقِ ثلاثہ پر مسلم پرسنل لاء مخالف قانون بنانے کی دوڑاس وقت شروع ہوئی جب ۲۰۱۷میں شائرا بانو نامی ایک خاتون نے طلاقِ ثلاثہ کے خلاف عدالتِ عظمیٰ میں پیٹشن دائر کرتے ہوئے اس عمل کو بقول اس کے نا انصافی سے تعبیر کیا ۔ مذکورہ خاتون نے طلاقِ ثلاثہ کو اس بنیاد پر عدالت میں چیلنج کیا کہ یہ آئین ہند کے دفعہ ۱۴ قانون کے سامنے مساوات(equality before law) دفعہ 15(1) (Prohibition of discrimination including on the ground of gender )،اور دفعہ21( Right To live) کی خلاف ورزی سے تعبیر ہوتا ہے۔ عدالت میں طرفین کی دلائل سننے کے بعد بالآخر پانچ رُکنی بنچ نے طلاقِ ثلاثہ کو غیر آئینی قرار دیا اور بھارت کی مرکزی سرکار کی طرف سے ایسا ایک قانون بنانے پر زور دیا جو مسلم سماج میں شادی اور طلاق سے وابستہ معاملات کے نپٹارے کے لئے مستعمل ہوسکے ۔نتیجہ حال ہی میں لوک سبھا نے اس بل کو منظوری دے دی۔حالانکہ طلاق ایک ناپسندیدہ لیکن شرعی فیصلہ ہے جس پر علیحدہ اور غیر شرعی قانون بنانا آئین ہند کے دفعہ 25 کی بھی خلاف ورزی ہے جس کے ذریعے ملک میں رہ رہے، مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ اپنے مذاہب کے مطابق نجی معاملات کا حل نکالنے کے مجاز ہیں ۔یہاں یہ سوال اٹھانا جائز ہے کہ کہیں طلاقِ ثلاثہ بل کا ایوان میں پیش کیا جانا یا منظور ہونا ایک سیاسی ایجنڈا تو نہیں ؟ کیا واقعی میں مسلم مہیلائیں طلاق کو لے کر اتنی پریشان ہیں ؟ کیا طلاق کا مسلٔہ محض مسلم خواتین کو در پیش ہے؟ موجودہ وقت میں ٹرپل طلاق بل کی کتنی ضرورت تھی؟ان سوالوں جواب ٹٹولتے ہوئے چند حقائق پہ غور کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ راقم الحروف عرض کر چکا ہے کہ ہندوستان کے مسلم سماج میں طلاق اور نکاح سے متعلق معاملات مسلم پر سنل لاء کے حد اختیار میں آتے ہیں ۔ ایسے میں اگرطلاق سے متعلق مسائل پیدا ہوں تو اُن کے لئے کو رجوع کرنا ہی بہتر مانا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کی شادی یا طلاق سے جُڑے مسائل کو حل کرنے کے لئے Dissolution of Muslim marriage act 1939، The muslim women(protection of rights on divorce)act 1986 جیسے قوانین پہلے سے ہی موجود ہیں لیکن AIMPLB کو در کنار کرکے طلاقِ ثلاثہ کو سیاست کی ترازو میں تولتے ہوئے اسے ’’غیر آئینی‘‘ قرار دئے جانے کے حق میں بی جے پی سمیت دیگر چند گروہ حد درجہ سرگرم عمل رہے ،جن میں مسلم راشٹریہ منچ نامی پریواری جماعت بھی شامل ہے جو سیدھے طورآر آر ایس کی اکائی ہے اور فطرتاََ مسلم سماج سے جڑے کئی بے ضمیر افراد کو سنگھ پریوارایجنڈے کے مطابق کھلے طور استعمال کر رہی ہے۔ ٹرپل طلاق کو لے کر آر آر کا ایجنڈا مضبوط کرنے کے لئے مسلم راشٹریہ منچ کے شانہ بہ شانہ مہم جوئی کرتے ہوئے بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن نامی آرگنائزیشن نے ایک بے بنیاد سروے رپورٹ شائع کیا تھا جس میں یہ دعوے کیا گیا تھاکہ ہندوستان میں طلاق شدہ خواتین میں سے مسلم مطلقہ خواتین کا تناسب ۱۱؍ فی صد ہے جب کہ2011ء کی سرکاری مردم شماری کے مطابق طلاق کا تناسب مسلمان خواتین میں 0.56% ہے جو ہندو مذہب ماننے والی مطلقہ خواتین کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس بے بنیاد رپورٹ کو بہانہ بناتے ہوئے ہندوستان میں رہ رہیں مسلمان خواتین کو مظلوم کی صورت میں پیش کرکے ایک ایسا سیاسی چال چلی جارہی ہے اور تصویر یوں بنائی جاتی ہے کہ گویا وزیراعظم مودی جی ، آر ایس ایس اور بی جے پی مسلم مہیلاوں کے مسیحا ہیں جو حقائق سے بعید ہے ۔ اب اگر بالفرض ٹرپل طلاق کے متعلق مسلم مہیلا آندولن کا سروے صحیح بھی مانیں اور طلاق کو سلگتا مسئلہ مان بھی لیں لیکن اسی ملک میں کم سنی کی شادی کا مسئلہ دورِ قدیم سے ہندو برادری میں درپیش ہے۔اس سے ہندو سماج کو مختلف گھمبیر مسائل کا سامنا ہے مگر اس کے خلاف کوئی آندولن ہوانہ مباحثے چھڑے اور نہ ٹاک شوز ہوئے ، نہ کوئی عدالت متحرک ہوئی اور نہ پارلیمنٹ میں قانون بنانے کی ضرورت پیش آئی۔ ایک رپورٹ کی مانیں تو ہندوستان میں لگ بھگ1.2 کروڑ شادیاں بال ویہوا( چائلڈ میریج ) کے زمرے میں آتی ہیں جن میں سے 84فیصد شادیاں ہندو دھرم کے ماننے والوں میں ہوتی ہیں لیکن بے چاری آر ایس ایس اور لاچار بی جے پی کرے تو کیا کرے، انہیں ٹرپل طلاق، گو ہتھیا،لوجہاداور مسلمان بچوں کی تعداد ہی بڑے مسائل نظر آتے ہیں ۔
بہر کیف یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ طلاقِ ثلاثہ جیسے معاملے اسلام اور اس کے ماننے والوںکے عقائد اور شریعت سے جُڑے ہوئے ہیں اور ان پر غیر شرعی قوانین کی بالادستی قائم کر نا مداخلت فی الدین کا زندہ و جاوید ثبوت ہے۔ یہاں یہ کہنا قطعی بے جا نہ ہوگا کہ طلاقِ ثلاثہ اور اس جیسے مذہبی معاملات کو سیاسی رنگت دینااور فرقہ پرستانہ دباؤ ڈالتے ہوئے مسلمانوں کے خالص نجی معاملات میں بے جا مداخلت کرنا ہمارے بنیادی حقوق اور ہماری شہری آزادیوں کو سلب کئے جانے کے مترادف ہے۔
ہندوستان کی موجودہ مر کزی حکمران پارٹی سے مسلم اقلیت کا کسی خیر کی اُمید کرنا حماقت ہو گی ۔اسی سرکار کے زیر سایہ جہاں ایڈلٹری اور ہم جنس پرستی جائز مانی جاتی ہے وہاں دوسری شادی پہ قدغن لگانا انصاف اور شرافت ماناجاتا ہے ۔اذان ، نماز اور قربانی پر پہلے ہی ان لوگوں کے ہاتھوں سوالیہ نشان لگا ہوا ہے ۔ ایسے میں طلاق اور نکاح کو بھی شرعی زاوئے سے دیکھنے کے بجائے ان کے تعصب زدہ مسلم بیزار ذہن سے دیکھا جا نا مسلمانوں کو قابل قبول نہیں ہوسکتا اور اگر حکمرانوں کا حال احوال رہا تووہ دن دور نہیں جب کھلے طور پہ ہندوستان میں مقیم مسلمانوں کو کلمۂ کفر پڑھنے پر مجبور کیا جائے گا بلکہ اسلام کا نام لیوا بن کر ان کے لئے زندہ رہنا بھی قابل تعزیر جرم مانا جائے گا اور ہمارا حال یہ ہو گا ؎
رکھ دئے جائیں گے نیزے لفظ اور ہونٹوں کے بیچ
ظلِ سبحانی کے احکامات جاری ہو گئے
اس لئے اس سے پہلے وہ ساعتیں اور گھڑیاں آئیں، بہتر یہی ہے کہ مسلمان خود جاگ جائیں اور اپنے دین و شریعت کی ہر ممکن حفاظت کے لئے قانون کا دکھایا ہوا ہر راستہ اپنایں اور سر اُٹھاکر جینے کا ہنر سیکھیں۔ یہ مسلمانانِ ہند کے لئے ایک نازک گھڑی ہے جس کا مقابلہ ہوش وگوش اور دوراندیشی سے کر نے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ آج یہ سہ طلاق کا شرعی قانون بدل رہے ہیں، کل یہ قرآن کو العیاذ باللہ بدلنے کا قانون پاس کر کے ہمارے ملّی وجود کو داؤ پر لگائیں ۔
فون نمبر 9906607520