ماہ رمضان المبارک ایمان ویقین کے روح پرور جھونکے مشام جان کو معطر کرتے ہیں ،چمنستان اسلام میں بہار کی آمد ہوتی ہے، رحمت کی گھٹائیں جھوم جھوم کو برستی ہیں اورجان بلب انسانیت کو آب حیات سے ملاتی ہیں کہ انسانیت کی سوکھی ہوئی کھیتی لہلااُٹھتی ہے۔روحانیت ونورانیت کے اس موسم بہار میں دلوں پر سکینت طاری ہوجاتی ہے ایمان میں تازگی وشفتگی اور نیکی کے کاموں میں نشاط کی لہر دوڑ جاتی ہے۔مساجد ذکر وتسبیح اور نمازیوں سے بھر جاتی ہیں، حق تعالیٰ کی طرف سے جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین کو بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے ،پھر بندہ ان اعمال خیر اور روزہ کی برکت سے انے خالق ومالک سے اتنا قرب حاصل کرلیتا ہے کہ حق تعالی اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اپنی خاص رحمت نازل فرماتے ہیں خطائیں معاف اور دعائیں قبول فرماتا ہے، رحمت ومغفرت اور آگ سے نجات کا فیصلہ فرماتا ہے ۔حدیث پاک میں ہے کہ جس نے ایمان واحتساب کے ساتھ خدائے تعالیٰ سے اجر وثواب کی امید پر ماہ صیام کے روزے رکھے اس کے گذشتہ تمام گناہ بخش دئے گئے ۔
خدائے تعالی کی رحمت وہدایت اس کا راستہ جدوجہد کے ساتھ وابستہ ہے۔ ہلال رمضان ملت اسلامیہ کے لئے ایک اہم پیغام لے کر نمودار ہوتا ہے ، اس کا پیغام کوئی ڈھکا چھپا نہیں ،اس کی آمد تن ِمردہ میں جان ڈالتی ہے ،قدردانوں کی شوق و مستی اور دروں کی دولت سے مالا مال کر دیتی ہے۔
آج مشینی دور کے انسان کا دامن اصل سرمایہ سے خالی ہوچکا ہے، حلم وتدبر رخصت ہے ، ضعف اعصاب اور چڑ چڑا پن اور حرص وہوس کی حکمرانی ہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ آج کا گمراہ انسان اپنے آپ سے مطمئن ہے کہ جو وہ کررہا ہے بس وہی صحیح اور حرفِ آخر ہے ۔ یہ سوچ بڑے خطرے کی نشانی ہے، نقصان کا احساس نہ ہونا بھی بڑے نقصان کی بات ہے۔آج کے عام مسلمان کے احوال پر طائرانہ نظر ڈالئے تو معلوم ہوگا کہ ہم نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی خون سے اپنے ہی ہاتھ رنگیں کر رکھے ہیں، ہم ازخودقصر اسلام کی ایک ایک اینٹ اُکھاڑ ر ہے ہیں ، اپنا سارا اثاثہ لٹا کر غیروں کے درپہ کاسۂ گدائی لئے کھڑے ہیں ، کل جن کو ہم نے خیرات دی، آج انہیں کے آگے گدا گربنے ہیں۔ یہ کیسا روح فرسا حسرت ناک اور جگرسوز منظر ہے۔ افسوس کہ جن اقوام و ملل کا مقصد زندگی بے ایمانی ، بے ضمیری ،بے حیائی اوربے وفائی تھا ،وہ اپنے قومی معاملات میں متحد ہیں اور جس ملت اسلامیہ کا مقصد حیات احتساب کائنات اور جہابانی وجہاں آرائی ہے، آگ کے شعلوں کو گلزار بنانا ہے ،تاریکی میں رشد وہدایت کی شمعیں روشن کرنا ہے، وہ منتشر ہے ، باہم دگردست وگریبان ہے ، برادرکشی کو اپنا مشغلہ ٔ حیات بناچکی ہے ۔ اُمید ہے کہ بہت ماریں کھانے کے بعد کچھ ہوش کے ناخن لے کر اب کی بار ماہ مبارک کے موسم بہار کا استقبال عبادات وریاضات، اصلاحِ باطن وتزکیہ نفس، احتساب و اصلاحات، خدمات و احسانات سے کریں گے اور اس بات کی کوشاں رہیں گے کہ اُمت مسلمہ کی عظمت رفتہ کا احیائے نو ایمان ،اخلاق اور احتساب کے بل پر ہو۔ روزہوںکا اصل مقصد ومنشاء یہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر تزکیہ نفس، پاکیزگی ٔاخلاق اورخواہشات نفس پر قابو پاکر گناہ معاصی سے اجتناب کی صلاحتیں اجاگر ہوں اور ایک ایک مسلمان میں تعمیری جذبے کے تھ نیا خون ،نئی روح ،نیا ولولہ ، نیا جوش عمل پیدا ہو ۔ماہ ِمباک رحمت ،مغفرت اورجہنم سے خلاصی کا نقش راہ ہے اور اسی ماہ میںاللہ جل شانہ نے ایک ایسی تقدیرسازرات بھی رکھی ہے جو اپنی برکات ، انوارات ، کمالات اور روحانی اثرات کے لحاظ سے ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔یہ شب قدر ہے اور اس رات رحمت کے فرشتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے ۔اس لئے جو جس قدر ہمت اورشوق کا سودا کرسکے، ان قیمتی دس طاق راتوں سے فائدہ اٹھائے، کیا معلوم آئندہ سال اس کا موقع ملے نہ ملے۔ اس ماہ کے اخیر میں رحمت خداوندی زیادہ متوجہ ہوتی ہے اس لئے پیغمبر اسلام صلی ا للہ علیہ وسلم میں مسجد نبوی میں معتکف ہوجاتے تھے ۔
روزہ ارکان اسلام میں سے ایک رُکن ہے جو ہر بالغ ومقیم مسلمان پر فرض ہے۔ یہ عبادت امم سابقہ میں بھی فرض تھی اورتمام انبیاء کرام علیہ السلام کی عبادت وشریعت میں شامل رہی ۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے کہ اے ایمان والو!روزہ تم پر اسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تاکہ تم میں تقوی پیدا ہو۔ اسلام دین فطرت ہے اور فطرت کاہر عمل انسان کی فلاح کیلئے ہے۔ اس طرح روزہ کے دینی اور روحانی مقاصد ومفاہیم اپنی جگہ مسلم ہیں مگر یہ جسمانی یعنی طبی فوائد سے بھی انسان کے لئے مفید ہے۔ ماہرین طب اس امر پر متفق ہیں کہ وقت مقرر پر کھانے پینے سے صحت بحال رہتی ہے۔ طب وسائنس اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ روزہ سے جسم کی ان رطوبات کا خاتمہ ہوتا ہے کہ جن سے بیماریاں جنم لیتی ہیں ۔ روزہ سے ان کی قوتوں کو فائدہ ہوتا ہے جو غیر حیات بخش عناصر کو جسم سے خارج کرتے ہیں، قوتِ ہاضمہ جو ان عناصر کو برسر پیکار رکھتی ہے، ان سے فارغ ہوکر قوتِ مدافعت میں شامل ہوکر اسے مضبوط بنادیتی ہے۔ کیلیفورنیا امریکہ کے ایک ڈاکٹر لوگان لکھتے ہیں کہ جب وہ بیمار ہوتے ہیں تو روزہ رکھ کر صحت یاب ہوجاتے ہیں۔اسی طرح دنیاکے دیگر ممتاز اور ماہرمعالجین کے تجربات بھی روزہ داری کی ترغیب دلاتے ہیں۔ مغرب کے ماہرین ِطب وسائنس کاکھلا اعتراف ہے کہ روزہ بہت سے امراض کا علاج ہے۔ آج کل سلمنک سنٹروں کی بہتات ہے جہاں مصنوعی ادویات اور فاقہ کشی سے جسم کی فالتو چربی اور موٹاپا کاعلاج کیا جاتا ہے ،مگر دیکھا جائے تو روزے میں موٹا پے اور دیگر کئی جسمانی امراض کا ایک موثر قدرتی علاج پنہاںہے۔ لہٰذا آپ روزہ کے طبی پہلو اورقدرت کی رحمت سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
اس بار ماہ صیام ایسے خون آشام وقت میں آرہا ہے جب اسلام مخالف قوتیں متحد ہوکر چراغ ِمصطفوی ؐکو گل کرنے کے لئے ناکام کوششوں پر کمر بستہ ہیں ۔دنیا کے ہر خطہ میں اہل ایمان پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ اسلام کے صاف و شفاف چہرے کو مسخ کرنے ، اسلامی تعلیمات کے چشمہ ٔ صافی کے سوتے خشک کرنے ، ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نعوذباللہ کھلواڑ کرنے ، امت مسلمہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا جارہا ہے۔ لہٰذا ! وقت کی اشد ضرورت اور حالات کا بنیادی تقاضاہے کہ امت مسلمہ کا فرد فردماہ صیام کے لمحات کو غنیمت جانے اور رحمتِ الہٰی کے دلنواز جھونکوں سے اپنے مشام ِجان کو معطر کرے اور امت کی کشتی کو گرداب سے نکال ایمان اور صالح عملی کے بل بوتے پرساحل ِمراد تک لانے کے لئے ہرممکن جدوجہد کرے ۔ رب ذوالمنن پوری امت مسلمہ کو ماہ صیام کے فیوض وبرکات سے بہرہ ور فرمائے اور نیک اعمال کو توفیق بخشے اس مشت خاک کو بھی اپنی مخلصانہ دعائوں میں یاد رکھیں۔
ماہ صیام مسلمانوںکی ایسی منفرد دینی دولت ہے کہ جس سے ان کو مختلف النوع فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔عبادت کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے متعدد گوشے اصلاح ودرستگی کے عمل سے گزرتے ہیں۔آپس کی ہمدردی ،غم خواری تعاون اور مساوات ویکجہتی کا بہتری دنیا میںمرقع پیش ہوتا ہے ۔ حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کوپیغمبر اسلام نے ہم کوایک خطبہ دیا۔اس میں آپ ؐ نے فرمایا اے لوگو!تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے اس مہینہ کی ایک رات (شب قدر )ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔اس مہینے کے روزے خدا تعالی نے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوںمیں بارگاہ الہٰی میں کھڑے ہونے کو(یعنی نماز تراویح )کو نفل عبادت مقرر کیا ہے(جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے )جو شخص اس مہینہ میں خدائے تعالی کی رضا اوراس کا قرب حاصل کرنے کے لئے کوئی سنت یا نفل ادا کرے گا تو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر اس کو ثواب ملے گا اور اس مہینہ میں فرض میں فرض اداکرنے کا ثواب دوسرے زمانہ کے ستر فرضوں کے برابر ملے گا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے اوریہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوںکے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے جس نے اس مہینہ میں کسی روزہ دار کو (خدائے تعالی کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لئے )افطار کرایا تواس کے لئے گناہوں کی مغفرت اور آتش ِدوزخ سے آزادی کاذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ آ پ ؐسے عرض کیا گیا کہ ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا (تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے ) ۔ آپ ؐنے فرمایاخدائے تعالی یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دووھ کی تھوڑی سی لسی پر یا پانی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرادے ۔اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پوراکھانا کھلادے اس کو خدائے تعالی میرے حوض سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کوکبھی پیاس نہ لگے گی تااینکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔ آپ ؐنے فرمایا کہ جو آدمی اس مہینہ میں اپنے غلام وخادم کے کام میں تخفیف وکمی کردے گا، خدائے تعالی اس کی مغفرت فرمادے گا اور دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا۔
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول خداؐ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ رمضان کے روزے ،ایمان واحتساب کے ساتھ رکھیں گے ان کے سب گناہ معاف کردئے جائیں گے اور ایسے ہی جو لوگ ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں نوافل (تراویح وتہجد )پڑھیں گے ،ان کے سارے پچھلے گناہ معاف کردئے جائیں گے اوراسی طرح جو لوگ شب قدر میں ایمان واحتساب کے ساتھ نوافل پڑھیں گے ان کے بھی سارے گناہ معاف کردئے جائیں گے۔ ایک اور حدیث مبارک حضرت ابوہریرہ ؓسے رایت ہے کہ پیغمبراسلامؐنے فرمایا روزہ رکھاکرو تندرست رہا کرو گے (طبرانی)اور روزہ سے جس طرح ظاہری وباطنی مضرت زائل ہوتی ہے اسی طرح ظاہری وباطنی مسرت حاصل ہوتی ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب رمضان المبارک کا عشرئہ اخیر ہ شروع ہوتا تو رسو ل خدا کمر کس لیتے اور شب بیداری کرتے (یعنی پوری رات عبادت اور ذکر ودعا میں مشغول رہتے )اور اپنے گھر کے لوگوں (یعنی ازواج مطہرات اور دوسرے متعلقین )کو بھی جگاتے (تاکہ وہ بھی ان راتوں کی برکتوں اور سعادتوں میں حصہ لیں)۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول خداؐنے ارشاد فرمایا جو آدمی سفر وغیرہ کی شرعی رخصت کے بغیر اور بیماری جیسے کسی عذر کے بغیر رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ ے گا وہ اگر اس کے بجائے عمر بھر بھی روزہ رکھے تو جو چیز فوت ہوگئی وہ پوری ادا نہیں ہوسکتی ۔
پیغمبراسلام صلی ا للہ علیہ وسلم کی سنت یہ تھی کہ جب تک رویت ہلال کاثبوت نہ ہوجائے یا کوئی عینی گواہ نہ مل جائے آپ ؐروزے شروع نہ کرتے جیساکہ آپ نے ابن عمر ؓکی شہادت قبول کرکے روزہ رکھا۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بادل کے دن کاروزہ نہیں رکھتے تھے نہ آپ ؐنے اس کا حکم دیا بلکہ فرمایا جب بادل ہوتو شعبان کے تیس دن پورے کئے جائیں ۔حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا چاند دیکھ کر روزے رکھو اور چھوڑو اور اگر (۲۹ تاریخ کو)چاند دکھائی نہ دے تو شعبان کی تیس کی گنتی پوری کرو۔ حضورعلیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ سحری میں برکت ہے اسے ہرگز نہ چھوڑواوراگر کچھ نہیں تو اس وقت ایک ہی گھونٹ پانی پی لیا جائے کیونکہ سحر میں کھانے پینے والوں پرخدا تعالی رحمت فرماتا ہے اور فرشتے دعائے خیر کرتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا کہ خدائے تعالی کا ارشاد ہے کہ اپنے بندوں میں مجھے وہ بندہ زیادہ محبوب ہے جو روزہ کے افطار میں جلدی کرے (یعنی غروب آفتاب کے بعد بالکل دیر نہ کرے ۔ اکثر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ تراویح کے مسنون ہونے پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے۔ ائمہ اربعہ میں سے امام مالک علیہ الرحمہ ،امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ ، امام شافعی علیہ الرحمہ ، امام احمد بن حنبل علیہ الرحم بیک رائے تراویح پر صراحت کر تے ہیں کہ تراویح سنت مؤکدہ ہیں۔احادیث صحیحہ میںمنقول ہے کہ جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ آتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مسجد میں ایک جگہ مخصوص کردی جاتی اور وہاں کوئی پردہ ڈال دیا جاتایا کوئی چھوٹا سا خیمہ نصب کردیا جاتا ۔ رمضان کی بیسویں تاریخ کو فجر کی نماز کیلئے تشریف لے جاتے تھے اور عیدکا چاند دیکھ کر وہاں سے باہر تشریف لاتے تھے ۔حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ رسول خداؐ نے ارشاد فرمایا کہ شب قدر کو تلاش کرو رمضان کی آخری دس راتوں کی طاق راتوں میں ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول خدانے فرمایا کہ رمضان کی آخری رات میںآپ ؐ کی امت کے لئے مغفرت و بخشش کا فیصلہ کیا جاتا ہے آپ سے دریافت کیاگیا وہ شب قدر ہوتی ہے ؟آپ ؐنے فرمایا کہ شب قدر تو نہیں ہوتی لیکن بات یہ ہے کہ عمل کرنے والا جب اپنا عمل پورا کردے تو اس کو پوری اجرت مل جاتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ رسو ل خداؐنے ایک شخص کو بھیجا کہ مکہ مکرمہ کے گلی کوچوں میں منادی کردے کہ صدقہ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ مردہو یا عورت آزاد ہو یا غلام چھوٹا ہو یابڑا ؟دو مد (تقریباًوسیر) گہیوں کے یا اس کے سوا ایک صاع (ساڑھے تین سیر سے کچھ زائد)کسی دوسرے غلہ یا کھجور وغیرہ کا اوریہ صدقہ فطر نماز عید کوجانے سے قبل دے دینا چاہئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم سال میں دو دن خوشی منایا کرتے تھے ، اب خدائے تعالی نے ان سے بہتر تم کو دودن عطافرئے ہیں عید الفطر اور عید الاضحی اورارشاد فرمایا کہ یہ ایام کھانے پینے اور باہم خوشی کا لطف اٹھانے اور خداکو یاد کرنے کے ہیں۔
رابطہ نمبر 9596664228/7298788620