یہ اس پر اُمید زمانے کا ذکر ہے جب انہیں کتابوں کی دکان کھولے اور ڈیل کارنیگی پڑھے دو تین مہینے ہوئے ہوں گے اور جب ان کے ہونٹوں پر ہر وقت وہ دھلی منجھی مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی جو آج کل صرف ٹوتھ پیسٹ کے اشتہاروں میں نظر آتی ہے ۔اس زمانے میںان کی باتوں میں وہ اُڑکر لگنے والا جوش اور ولولہ تھا جو با لعموم انجام سے بے خبر سٹے بازوں اور نو مسلموں سے منسوب کیا جاتا ہے۔
دکان کیا تھی کسی بگڑے ہوئے رئیس کی لائبریری تھی ۔معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے چن چن کر وہی کتابیں دکان میں رکھی ہیںاور جو خود ان کی پسند تھیں اور جن کے متعلق انہوں نے ہر طرح اپنا اطمینان کرلیا تھا کہ بازارمیں ان کی کوئی مانگ ہے نہ کھپت ۔ہمارے دوست مرزا عبدالودود بیگ نے دکان میں قدم رکھتے ہی اپنی تمام ناپسندیدہ کتابیں اس خوش سلیقگی سے یکجا دیکھیں تو ایک دفعہ اپنی پرانی عینک پر اعتبار نہیں آیا اور جب اعتبار آگیا تو الٹا پیار آنے لگا ۔اپنے مخصوص کھٹ مٹھے لہجے میں بولے: ’’یارا! اگر عام پسند کی بھی دو چار کتابیں رکھ لیتے تو گاہک دکان سے اس طرح نہ جاتے جیسے سکندر دنیا سے گیا تھا۔۔۔۔دونوں خالی۔
تاجرانہ تبسم کے بعد ’’میں صرف معیاری کتابیں بیچتا ہوں۔‘‘
پوچھا ’’معیار کی کیا پہچان؟‘‘
ارشادہوا ’’سنو ،میرے ایک قریبی ہمسایے ہیں،پروفیسر قاضی عبدالقدوس۔چوبیس گھنٹے کتابوں میں جٹے رہتے ہیں ۔لہٰذا میں نے کیا یہ دکان کھولنے سے پہلے ا ن سے ان کی اپنی پسندیدہ کتابوں کی فہرست بنوالی ۔پھر ان کتابوں کو چھوڑ کر ،اردو کی بقیہ تمام کتابیں خرید کے دکان میں سجا دیں ۔اب اس سے بہتر انتخاب کوئی کرکے دکھادے۔‘‘پھر ایکا ایکی تاجرانہ لہجہ بناکر صیغہ جمع میں ہنکارے ’’ہماری کتابیں،اردو ادب کی آبرو ہیں۔‘‘
’’اور ہم یہ بہت ارزاں بیچتے ہیں ۔‘‘مرزا نے اسی لہجہ میں جملہ پورا کیا۔
مصیبت یہ تھی کہ ہر کتاب ہر مصنف کے متعلق ان کی اپنی رائے تھی ۔ بے لاگ اور اٹل،جس کا اظہار و اعلانِ بالجہر وہ بمنزلہ دینی فرض سمجھتے تھے ۔ چناچہ بارہا ایسا ہوا کہ انہوں نے گاہک کو کتاب خریدنے سے جبراً باز رکھا کہ اس سے اس کا ادبی ذوق خراب تر ہونے کا اندیشہ تھا ۔سچ تو یہ ہے کہ وہ کتب فروش کم اور کتب نما زیادہ تھے ۔کبھی کوئی خریدار ہلکی پھلکی کتاب مانگ بیٹھتا تو بڑی شفقت سے جواب دیتے :’’یہاں سے دو گلیاں چھوڑ کر سیدھے ہاتھ کو مُڑ جایئے ،پرلے نکڑ پر چوڑیوں کی دکان کے پاس ایک لیٹر بکس نظر آئے گا ۔اس کے ٹھیک سامنے جواونچی سی دکان ہے ۔بچوں کی کتابیں وہیں ملتی ہیں ۔‘‘ایک مرتبہ کا واقعہ اب تک یاد ہے کہ ایک صاحب کلیات مومنؔ پوچھتے ہوئے آئے اور چند منٹ بعد مولوی محمد اسماعیل میرٹھی مرحوم کی نظموں کا گلدستہ ہاتھ میں لیے ان کی دکان سے نکلے ۔
ایک دن میں نے پوچھا اختر شیرانی کی کتابیں کیوں نہیں رکھتے ؟مسکرائے ۔فرمایا :وہ نابالغ شاعر ہے ۔میں سمجھا شاید Minor Poetکا وہ یہی مطلب سمجھتے ہیں ،میری حیرانی دیکھ کر خود ہی وضاحت فرمادی کہ وہ وصل کی اس طور پر فرمائش کرتا ہے گویا کوئی بچہ ٹافی مانگ رہا ہے ۔اس پر میں نے اپنے ایک محبوب شاعر کا نام لے کر کہا کہ بیچارے ہوش ؔخلیج آبادی نے کیا خطا کی ہے؟ ان کے مجموعے بھی نظر نہیں آتے؟ارشادہوا کہ اس ظالم کے تقاضائے وصل کے یہ تیور ہیں گویا کوئی کابلی پٹھان ڈانٹ ڈانٹ کر ڈوبی ہوئی رقم وصول کررہا ہے ۔میں نے کہا مگر وہ زبان کے بادشاہ ہیں ۔بولے ٹھیک کہتے ہو ۔زبان ان کے گھر کی لونڈی ہے اور وہ اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے ہیں۔عاجز ہوکر میں نے کہا ، اچھا یونہی سہی مگر فانیؔ بدایونی کیوں غائب ہیں؟فرمایا :ہش! وہ نرے مصورغم ہیں تو مہدی مصور بنت ِغم۔واللہ،وہ انشائیہ نہیں ،نسائیہ لکھتے ہیں ۔بالاخر میں نے ایک جانے پہچانے پروفیسر نقاد کا نام لیا مگر پتہ چلا کہ انہوں نے اپنے کانوں سے فاضل پروفیسر کے والد بزرگوار کو لکھنو کو نکھلو اور مزاج شریف کو مجاز شریف کہتے سنا تھا ۔چنانچہ اس پدرانہ نااہلی کی بنا پر ان کے تنقیدی مضامین دکان میں کبھی بار نہ پاسکے ۔یہی نہیں،خود پروفیسر موصوف نے ایک محفل میں ان کے سامنے غالب ؔکا ایک مشہور شعر غلط پڑھا اور دوہرے ہو ہو کر داد وصول کی،سو الگ !میں نے کہا: اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟بولے:فرق کی ایک ہی رہا۔میرن صاحب کا قصہ بھول گئے ؟کسی نے ان کے سامنے غالبؔ کا شعر غلط پڑھ دیا ۔تیوریاں چڑھا کر بولے :میاں ! یہ کوئی قرآن و حدیث ہے ،جیسے چاہا پڑھ دیا ۔
آپ نے ملاحظہ فرمالیا کہ بہت سی کتابیں وہ اس لیے نہیں رکھتے تھے کہ ان کو سخت ناپسند تھیں اور ان کے مصنفین سے وہ کسی نہ کسی موضوع پر ذاتی اختلاف رکھتے تھے لیکن معدودے چند مصنفین جو اس معتوب و مغضوب زمرے سے خارج تھے، اُن کی کتابیں دکان میں رکھتے ضرور تھے مگر کوشش یہی ہوتی کہ کسی طرح بکنے نہ پائیں کیونکہ وہ انہیں بے حد پسند تھیں اور انہیں منگوا منگواکر رکھنے میں عجیب روحانی لذت محسوس کرتے تھے ۔ پسندو ناپسند کی اس غیر تاجرانہ کشاکش کا نتیجہ یہ نکلا کہ’’کتب از جا نہ جنید‘‘
سنی سنائی نہیں کہتا ۔میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دیوان غالبؔ (مصور) دکان میںمہینوں پڑا رہا ۔محض اس وجہ سے کہ ان کا خیال تھا کہ دکان اس کے بغیر سونی سونی معلوم ہوگی ۔مرزا کہا کرتے تھے کہ ان کی مثال اس بدنصیب قصاب کی سی ہے جسے بکروں سے عشق ہوجائے۔
کتابوں سے عشق کا یہ حال تھا کہ عین بوہنی اور بکری کے اوقات میں بھی مطالعے میں کمر کمر غرق رہتے ۔یہ کمر کمر کی قید اس لیے لگانا پڑی کہ ہم نے آج تک انہیں کوئی کتاب پوری پڑھتے نہیں دیکھا ۔مرزا ؔاسی بات کو یوں کہتے تھے کہ بہت کم کتابیں ایسی ہیں جو اپنے کو ان سے پڑھوا سکی ہیں ،یہی نہیں اپنے مطالعے کی تکنیک کے مطابق رومانوی اور جاسوسی ناولوں کو ہمیشہ اُلٹا یعنی آخر سے پڑھتے تاکہ ہیر وئین کا حشر اور قاتل کا نام فوراً معلوم ہوجائے ۔(ان کا قول ہے کہ معیاری ناول وہی ہے جو اس طرح پڑھنے پر بھی اخر سے شروع تک دلچسپ ہو) ہر کہیں سے دو تین صفحے اُلٹ پلٹ کر پوری کتاب کے متعلق بے دریغ رائے قائم کرلینا اور پھر اسے منوانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ۔بعض اوقات تو لکھائی چھپائی دیکھ کر ہی ساری کتاب کا مضمون بھانپ لیتے ۔مجھے یاد ہے کہ اردو کی ایک تازہ چھپی ہوئی کتاب کا کاغذ اور روشنائی سونگھ کر نہ صرف اسے پڑھنے بلکہ دکان میں رکھنے سے بھی انکار کردیا ۔اُن کے دشمنوں نے اُڑا رکھی تھی کہ وہ کتاب کا س ورق پڑھتے پڑھتے اونگھنے لگتے ہیں اور اس عالم ِکشف میں جو کچھ دماغ میں آتا ہے ،اس کو مصنف سے منسوب کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے بیزار ہوجاتے ہیں۔اور مصنف غریب کس شمار و قطار میں ہیں ۔اپنے ادبی قیاس و قیافے کا ذکر کرتے ہوئے ایک دن یہاں تک ڈینگ مارنے لگے کہ میں آدمی کی چال سے بتا سکتا ہوں کہ وہ کس قسم کی کتابیں پڑھتا رہا ہے ۔اتفاق سے اس وقت ایک بھرے بھرے پچھائے والی لڑکی دکان کے سامنے سے گزری ،چینی قمیض اس کے بدن پر چست فقرے کی طرح کسی ہوئی تھی۔سر پر ایک ربن سلیقے سے اوڑھے ہوئے،جسے میں ہی کیا کوئی شریف آدمی دوپٹہ نہیں کہہ سکتا ۔اس لیے کہ دوپٹہ کبھی اتنا بھلا معلوم نہیں ہوتا۔مختصر یوں سمجھئے کہ ہر کام پر ایک قد آدم صلیب بناتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔
’’اچھا بتائو ،اس کی چال سے بتائو ،کیسی کتابیں پڑھتی ہے؟‘‘میں نے بھی پیچھا نہیں چھوڑا ۔
’’پگلے ! یہ تو خود ایک کتاب ہے ۔‘‘انہوں نے شہادت کی انگلی سے سڑک پر ان خواند گان کی طرف اشارہ کیا جو ایک فرلا نگ سے اس کے پیچھے فہرست مضامین کا مطالعہ کرتے چلے آرہے تھے۔دیکھا گیا ہے کہ وہی کتب فروش کامیاب ہوتے ہیں جو کتاب کے نام اور قیمت کے علاوہ اور کچھ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ ان کی ناواقفیت عامہ جس قدر وسیع ہوگی ،جس قدر عمیق اور متنوع ہوگی ،اتنی ہی بھرپور خود اعتمادی اور معصوم گمراہی کے ساتھ بری کتاب کو اچھا کرکے بیچ سکیں گے ۔ اس کے برعکس کتابیں پڑھتے اور بغداد ی جم خانے میں کبھی دیسی وہسکی کی زیادتی سے موصوف پر ہذیانی کیفیت طاری ہوجاتی تو دشمنان اسلا م پر گھونسے تان تان کر تڑاق پڑاق ایسے ڈائیلاگ بولتے ،جن سے شوقِ شہادت اس طرح ٹپکا پڑتا کہ بیروں تک کا ایمان تازہ ہوجاتا ۔ مسلسل ورق گردانی کے سبب نئی نویلی کتابیں اپنی کنواری کراری مہک اور جلد کی کساوٹ کھو چکی تھیں ،بیشتر صفحات کے کونے کتے کے کانوں کی طرح مڑ گئے تھے اور بعض پسندیدہ اوراق کی یہ کیفیت تھی کہ جانا جاتا ہے اس راہ سے لشکر گزرا اور لشکر بھی وہ جو خون کی بجائے پیگ کی چھینٹیں اُڑاتا ہوا گزر جائے ۔ایک مرتبہ اُن کوبھری دکان میں اپنے ہی سائز کے ایک اسلامی ناول کا عطر نکالتے دیکھا تو مرزا نے ٹوکا :’’لوگ اگر کسی حلوائی کو مٹھائی چکھتے دیکھ لیں تو اس سے مٹھائی خریدنی چھوڑ دیتے ہیں اور ایک تم ہو کہ ہر آئے گئے کے سامنے کتب چشی کرتے رہتے ہو۔‘‘پھر کیا تھا پہلے ہی بھرے بیٹھے تھے ،پھٹ پڑے :’’کتب فروشی ایک علم ہے برخوردار !ہمارے ہاں نیم جاہل کتابیں لکھ سکتے ہیں مگر بیچنے کے لئے باخبر ہونا ضروری ہے ۔بعینٖہ اُسی طرح جیسے ایک اندھا سرمہ بنا سکتا ہے مگر بیچ بازار میں کھڑے ہوکر بیچ نہیں سکتا ۔میاں تم کیاجانو؟ کیسے جید جاہل سے پالا پڑتا ہے ۔(اپنی عزیز ترین کتاب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے )جی میں آتا ہے ’’دیوان غالبؔ‘‘(مع مقدمہ مولانا امتیاز علی عرشی) ان کے سر پر دے ماروں ۔تمہیں یقین نہیں آئے گا ۔دو ہفتے ہونے کو آئے ایک مظلوم صورت کلرک یہاں آیا اور مجھے اس کونے میں لے جاکر کچھ شرماتے ،کچھ لجاتے ہوئے کہنے لگا کہ کرشن چندر ایم اے کی وہ کتاب چاہئے جس میں ’’تیری ماں کے دودھ میں حکم کااکا ‘‘والی گالی ہے ۔خیر اسے جانے دو کہ اس بیچارے کو دیکھ کر واقعی محسوس ہوتا تھا کہ یہ گالی سامنے رکھ کر ہی اس کی صورت بنائی گئی ہے ،مگر ان صاحب کو کیا کہو گے جو نئے نئے اردو کے لیکچر رمقرر ہوئے ہیں ،میرے واقف کار ہیں ۔اسی مہینے کی پہلی تاریخ کو کالج سے پہلی تنخواہ وصول کرکے سیدھے یہاں آئے اور پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ لگے پوچھنے :صاحب ! آپ کے ہاں منٹوؔ’ کی وہ کتاب بھی ہے جس میں ’’دھرن تختہ ‘‘کے معنے ہوں؟اور ابھی پرسوں کا ذکر ہے ایک محترمہ تشریف لائیں ۔سن یہی اٹھارہ اُنیس کا نکلتا ہوا فربہ بدن ، اپنی گڑیا کی چولی پہنے ہوئے تھیں ،دونوں ہتھیلیوں کی رحل بناکر اس پر اپنا کتابی چہرہ رکھا اور لگیں کتابوں کو ٹکر ٹکر دیکھنے ۔اسی جگہ جہاں تم کھڑے ہو۔پھر دریافت کیا ،کوئی ناول ہے ؟ میں نے راتوں کی نیند حرام کرنے والا ایک ناول پیش کیا ۔رحل پر سے بولیں :یہ نہیں ،کوئی ایسا دلچسپ ناول دیجئے کہ رات کو پڑھتے ہی نیند آجائے ۔میں نے ایک ایسا ہی غشی آور ناول نکال کردیا مگر وہ بھی نہیں جچا ۔دراصل انہیں کسی گہرے سبز گرد پوش والی کتاب کی تلاش تھی ،جو ان کی خواب گاہ کے سرخ پردوں سے ’’میچ ‘‘ہو جائے ۔اس سخت معیار پر صرف ایک کتاب پوری اُتری،وہ تھی ’’استاد موٹر ڈرائیوری‘‘(منظوم)جس کو دراصل اردو زبان میں خود کشی کی آسان ترکیبوں کا پہلا منظوم ہدایت نامہ کہنا چاہئے۔میں نے نوخیز خاتون کی حمایت کی: ’’ہمارے ہاں اردو میں ایسی کتابیں بہت کم ہیں جو بغیر گرد پوش کے بھی اچھی لگیں۔گرد پوش تو ایسا ہی ہے جیسے عورت کے لئے کپڑے۔‘‘
’’مگر ہالی وڈ میں آج کل زیادہ تر ایکٹرسیں ایسی ہیں جو اگر کپڑے پہن لیں تو ذرا بھی اچھی نہ لگیں‘‘۔مرزا نے بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا لیکن نیا نیا شوق تھا اور ابھی یہ نوبت نہیں آئی تھی کہ ایسے واقعات سے ان کی طبیعت سچ مچ مکدر ہوجائے ۔ڈیل کارنیگی کے مشورے کے مطابق وہ ہر وقت مسکراتے رہتے اور ہم نے سوتے میں بھی ان کی باچھیں بطور خیر سگالی کھلی ہوئی دیکھیں۔اس زمانے میںبقول مرزا ؔ،وہ چھوٹا دیکھتے نہ بڑا ،ہر کس و ناکس کے ساتھ ڈیل کارنیگی کیا کرتے تھے ۔حد یہ کہ ڈاکیہ اگر بیرنگ خط بھی لاتا تو انعام و اکرام دے کر رخصت کرتے ۔گاہکوں کو تو ذاتی مہمان سمجھ کر بچھ بچھ جاتے اور اکثر متاع ِسخن کے ساتھ (اور کبھی اس کے بغیر ہی) خود بھی بک جاتے ۔سچ ہے خوش خلقی کبھی رائیگان نہیں جاتی ۔چناںچہ چند ہی دنوں میں دکان چل نکلی مگر دکانداری ٹھپ ہوگئی ۔یہ صورتِ تضاد اس طرح پیدا ہوئی کہ دکان پر اب ان قدر دانوںکی ریل پیل رہنے لگی جو اصل میں ان سے کوکا کولا پینے یا فون کرنے آتے اور روکن میں ایک آدھ کتاب عاریتاً لے کر نکلتے ۔جس گاہک سے خصوصیت برتتے ،اس کی پیشوائی کو بے تحاشا دوڑتے ہوئے سڑک کے اس پار جاتے ۔ پھر اسے اپنے اونچے سے اسٹول پر بٹھاکر فوراًدوسرے گاہک کو چالیس قدم تک رخصت کرنے چلے جاتے ۔ہر دو رسوم کی پر تکلف ادائیگی کے دوران گاہک کسی ایک گاہک یا گروہ کی اجتماعی تحویل میں رہتی۔نتیجہ؟ کتابوں کی قطاروں میں جابجا کھانچے پڑگئے ،جیسے دانت ٹوٹ گئے ہوں۔ان کے اپنے بیان کے مطابق ایک نئے گاہک کو (جس نے ابھی ابھی ’’غبار خاطر‘‘کا ایک نسخہ ادھار خریدا تھا )پاس والے ریستوران میں مصنف کی من بھاتی چینی چائے پلانے لے گئے ۔حلفیہ کہتے تھے کہ مشکل سے ایک گھنٹہ وہاں بیٹھا ہوں گا ،مگر واپس آکر دیکھا تو ’’نوراللغات ‘‘کی چوتھی جلد کی جگہ خالی تھی ۔ظاہر ہے کہ کسی بے ایمان نے موقع پاتے ہی ہاتھ صاف کردیا ۔انہیں اس کی جگہ’’ فسانہ آزاد‘‘ کی چوتھی جلد رکھنا پڑی اور آخر کو یہی سیٹ چاکسو کالج لائبریری کو بذیعہ وی پی سپلائی کیا۔
چوریاں بڑھتی دیکھ کر ایک بزرگوار نے جو یوم افتتاح سے دوکان پر اُٹھتے بیٹھتے تھے (بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ صرف بیٹھتے تھے،اس لئے کہ ہم نے ان کو کبھی اُٹھتے نہیں دیکھا)مال کی ناجائز ’’نکاسی‘‘روکنے کے لئے یہ تجویز پیش کی کہ ایک تعلیم یافتہ مگر ایمان دار منیجر رکھ لیا جائے ۔ ہر چند کہ ان کا روئے سخن اپنی ہی طرف تھالیکن ایک دوسرے صاحب نے (جو خیر سے صاحب دیوان تھے ۔ (بقیہ اگلی سوموار کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)