آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں جس کسی شخص سے آپ ملاقی ہوں ،وہ بہر صورت بے سکونی اور بے اطمینانی کا رونا رروئے گا ۔آج کے دور کے متعلق یہ کڑوا سچ ہی تو ہے کہ مادی ترقی کے علی الرغم انسان پریشان ہے ،مایوسی کا شکار ہے اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہے ۔اس کی خاص وجہ کیا ہے؟؟یہی ہے نا کہ انسان اپنے تمام معاملات کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے کُلی طور اپنی سعی کوششوں پر انحصار رکھتا ہے اور جب بھی مقدور بھر کوششوں کے با وصف مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوتے ،نتیجتاً یاسیت ،مایوسی اور بے سکونی اس کا مقدر بن جاتی ہے اور پھر ایسا شخص ڈِپریشن (Depression)کا شکار ہوتا ہے ۔آج آپ جس کسی انسان کوبھی دیکھیں گے وہ لازماً عارضۂ قلب میں مبتلاہوگا ۔ڈِپریشن اور عارضہ قلب مایوسی اور یاسیت کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اور مایوسی اللہ بزرگ و برتر جو ہمارا خالق ہی نہیں بلکہ ہمارا مالک بھی ہے اور پالن ہار بھی،پر تو کّل نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے ۔توکّل کے معنی ٰکیا ہیں ؟ اسلامی نقطہ نگاہ کے مطابق توکّل کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان زندگی کے کسی بھی معاملہ کو سلجھانے کی راہ میں مقدور بھر کوششیں اور صلاحیتیں کھپا کر معاملات کا انجام خالق کائنات جیسی عظیم ترین ہستی کے ہاں چھوڑ دے۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہم اس نعمت کا رونا روئیں جو ہمارے ہاں نا پید ہے اور اس نعمت کا شکر ادا نہ کریں جس نعمت کا یا جن نعمتوں سے ہمیں اللہ بزرگ و برتر نے بِن مانگے اور بلا معاوضہ نوازا ہے ۔مثلاً ہمارے ہاں سواری کے لئے گاڑی نہیں جس کی وجہ سے ہم مایوس ہوتے ہیں ۔یہ منفی سوچ ہے اس منفی سوچ کے برعکس اگرہم اپنی ٹانگوں کی طرف دیکھ کر اللہ بزرگ و برتر کا شکر بجا لائیں کہ بار الٰہی ! بہت سے انسان معذور ہیں اور ٹانگوں کی نعمت سے بے بہرہ ، توشکرانے کی یہ کیفیت اللہ بزرگ و برتر کے تئیں ہمارے قرب و وصل کا باعث بن جائے گی اور ربانی ارشاد کے مطابق شکرانۂ نعمت سے نعمتوں میں اضافہ اور بڑھوتری ہوتی ہے جب کہ کفران ِ نعمت عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ربّانی ارشاد ہے ۔’’اگر آپ شاکر بن جائیں تو ہم اپنی نعمتوں میں اضافہ کریں گے اور اگر آپ کفرانِ نعمت کے مرتکب ہوں گے تو ہم آپ پر عذاب شدید مسلط کریں گے ۔مایوسی ،یاسیت ،ڈِپریشن اور عوارض قلبی اسی عذاب شدید کی مختلف شکلیں ہیں ۔۔۔۔اسلامی تعلیمات کی رُو سے صبر و شکر مومنانہ کردار کے خصائل میں کلیدی اہمیت کے حامل ہیں ۔نعمت کے فقدان پر صبر اوران کے حصول پر شکر عین عبادت ہے اور ربّانی منشاء کے مطابق عبادت ہمارے تخلیق کی غایت اعلیٰ و اُولیٰ ۔یاد رہے صبر و شکر میں عبادت الٰہی کا پیش خیمہ ہے ۔ اللہ بزرگ و برتر پر کلی توکل ہمیں نہ صرف نفسیاتی آسودگی سے بہرہ مند کرتا ہے بلکہ ہمارے اندر اس احساس کو بھی اُجاگر کرتا ہے کہ اللہ بزرگ و برتر کی شکل میں ایک بالاتر ہستی ہماری پیٹھ پر ہے جو’’ نعم الوکیل ‘‘(بہترین کارساز)اور’’ و نعم النصیر‘‘ ( اوربہترین مددگار)ہے اور جو ہر حال میں میرا نگہبان ہے ۔وہ بالا تر ہستی چاہے تو ہماری کوششوں کے مطلوبہ نتائج برآمد ہوں گے وگر نہ برعکس نتائج سے ہمارا پالاپڑے گا۔برعکس نتائج میںہمارے لئے بہر حال اور بہر صورت خیر کا پہلو ہی مضمر ہوگا جو وقتی طور ہماری کوتاہ بینی کے باعث ہماری نظروں سے اوجھل ہوگا۔ایسے حالات میںیہ ربانی ارشاد ہماری راہ نمائی کے لئے کافی ہے ’’کہ چاہے آپ کو کسی شے ٔ میں شَر نظر آئے مبادا وہ آپ کے لئے باعثِ خیر ہو اور چاہے آپ کو کسی چیز میں خیر نظر آئے مبادا وہ آپ کے لئے باعث ِ شَر ہو،ہم وہ جانتے ہیں جو آپ نہیں جانتے۔‘‘ اس ربانی ارشاد کی رُو سے کوششوں کے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہونے میں ہمارے لئے بہر حال خیر ہی خیر ہو ، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم پر از خود واضح ہوجائے۔یہی سوچ مثبت سوچ ہے جس کے بطن سے ہمارے لئے نفسیاتی آسودگی ،قلبی سکون اور ذہنی طمانیت جنم لے گی اور نتیجتاً مایوسی ،یاسیت ،ڈِپریشن اور دیگر عوارض قلبی جن کا آج کے دور کاانسان بری طرح شکار ہے ،سے نجات پانے کاذریعہ بھی ہو۔یہ قاعدہ کلّیہ اپنے گرہ میں باندھنے کے لائق ہے کہ اللہ بزرگ و برتر پر توکل اس کی نظر ِ التفات کو ہماری طرف متوجہ کرے گی جس کے نتیجے میں سکون قلب کی دولت سے ہم مالا مال ہوں گے اور اس کے تئیں ہماری بے توجہی ،مایوسی اور ذہنی انتشار کو جنم دے گی ۔ ارشاد خداوندی کے مطابق مایوسی کفر ہے اور اللہ کی اَتھاہ رحمت سے محرومی ۔ہمیں اس آفاقی حقیقت کو بہر حال مستحضر رکھنا چاہئے کہ کائنات کا سب سے زیادہ قنوطی ابلیس ہے ،لہٰذا قنوطیت اور مایوسی ابلیسی وصف ہے جسے مومن کسی بھی حال میںاپنے قریب بھٹکنے نہیں دیتا ۔یہی قنوطیت اور اس کے نتیجہ میں اللہ بزرگ و برترجیسی بالاتر ہستی کی اتھاہ رحمت سے محرومی موجودہ دور کے انسان کی وہ ٹریجڈی ہے جس نے اس کو بے سکونی ،یاسیت ،ڈِپریشن اور دیگر عوارض قلبی میں مبتلا کرکے رکھ دیا ہے ۔اللہ کا ارشاد ہے کہ’’ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجایئے۔‘‘ ؎
نہ ہو نو مید ،نومیدی زوال ِعلم و عرفان ہے
اُمید مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں
(اقبالؒ)
رابطہ9906603748