شیخ العالم شیخ نورالدین نورانی رحمتہ اللہ علیہ محتاج تعارف نہیں ۔ ان کے والد گرامی کا نام سالارالدین اور والدہ ماجد کانام سدر ہ ماج تھا۔ ان دو نیک ہستیوں کے چمن پُر بہار میں ۶؍ جمادی الاول ۹۷۷ ؍ہجری جمعرات کو شیخ العالم ؒ کی صورت میں ایک مہکتااور چمکتاگلاب کھلا جس نے اپنے مقام ِ ولایت اور عظمت کردارسے خوشبو ئے روحانیت اور شاہراہِ شریعت و طریقت سے پوری وادی کشمیر کو جگمگایا ، جسے حضرت میر سیدمحمد ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ جیسے ولی اللہ وپابند شرع عارف باللہ کے دست حق پرست کی بیعت نصیب ہوئی۔ حق وصداقت کی دنیا کی اس مبارک ہستی کو ہم حضرت علمدارکشمیر، شیخ العالم اور نندریشی کے پیارے اور باعزت وہردل عزیز ناموں سے یاد کرتے ہیں۔حضرت شیخ نور الدین نورانی رحمتہ اللہ علیہ کے حالات زندگی کا مرقع سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہا، جب کہ ان کا مبارک کلام اور دینی خدمات روز اول سے زبان زد عام رہیں۔ کہتے ہیں کہ ہر قوم اور معاشرے کی اپنی ایک محضوص و منفرد شناخت ہوتی ہے جس کی تر قی وترویج قوم کے عظیم سپوتوں کی رہین ِ منت ہوتی ہے۔قوم کشمیر بھی اپنی الگ اور منفرد شناخت رکھتی ہے ، اس کی تزئین کاری جن بزرگوں نے کی ان میں حضرت علمدارکشمیر شیخ نور الدین نورانی رحمتہ اللہ علیہ سرفرست ہیں۔ بزرگان ِ دین فرماتے ہیں کہ اگر قرآن وحدیث کے بعد کسی کلام کو عظمت وفضلیت حاصل ہے تووہ اولیاء کرام ؑکا کلام ہے،کیونکہ یہ عشق الہیٰ میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے ۔وادی کشمیر میں حضرت شاہ ہمدان امیر کبیر میر سید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ کی تشریف آوری سے کشمیر اسلام کے نور سے منور ہوا توقرآن وحدیث کا چرچا ہو مگر اس کی تشریح وترجمانی میں خاصانِ خدا نے اپنا حصہ ڈالا جن میں شیخ العالمؒ سب سے اوپر ہیں۔ امیر کبیر شاہ ہمدانؒ کی آمد کشمیر کے بعد بے شمار اولیاء اللہ اور علمائے رُبانین اس سر زمین میں پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی تمام صلاحیتوں اور محبت و قربت الہٰیہ کی خدا داد قوتوں کو بروئے کار لاکر اسلام اور سنت ِنبویؐ کی تبلیغ انجام دی ۔ان کی بدولت وادی کشمیر کے مسلمانوں کے دین ودنیا کے امور پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔اس برگزیدہ صف میں شارحِ قرآن اورکتاب وسنت کے ترجما ن حضرت علمدارکشمیر شیخ نور الدین نورانی رحمتہ اللہ علیہ نمایاں طور شامل ہیں ۔ یہ علمدارکشمیر شیخ العالمؒ کی دینی خدمات کا ہی اثر بے حصر ہے کہ سات سو برس بعد بھی وہ ہر کشمیری کے دل میں زندہ ہیں۔ان کا عارفانہ کلام اور اُن کے لاہوتی نغمے کشمیری زبان میں وہ روحانی سرمایہ اور ہمارا مشترکہ میراث ہیں جن سے اب تک لاتعدادتشنہ گان عرفان سیراب ہوئے ۔ لہٰذا من حیث القوم کشمیری ہم سب ان کے مقروض واحسان مند ہیں۔ حضرت علمدا رکشمیر ؒ اہل وطن کے ایسے مقبول عام روحانی پیشواہیں جن کے تاریخ ساز مذہبی شخصیت نے کشمیر کی ثقافت اور تمدن کے ارتقا ء میں اہم ترین رول ادا کیا ۔حضرت نے جسمانی کمزوری اور وسائل کی قلت کے باوجود پوری وادی میں کئی مرتبہ تبلیغی سیاحت کی۔ انہوں نے گلی گلی محلہ محلہ گاؤں گاؤں بستی بستی جاکر اسلام کی دعوت دی ، ملائیت کی تردیدکی اور عوام کو رہبانیت وترک دنیا سے کنارہ کش ہونے کا درس دیا ۔ لوگوں کو اپنے دل میں وحدہ لاشریک کی ذات اقدس بسانے اور انسانیت کی خدمت کا راستہ اپنانے کی ان کی تعلیمات آج کی دنیا میں ازحد ضروری ہیں ۔ انہوں نے وقت کے اوہام پر بھی کھلی تنقید کی ۔ ایک جگہ اپنے کلام اکسیر تاثیر میں فرماتے ہیں : ترجمہ۔ آخر زمانے میں حالت یہ ہوگی کہ بے عمل لوگ اور دنیا پرست لوگ بے خوف عزت کے ساتھ رہیں گئے اور عابد و نیکو کار لوگ ان لوگوں کی منفی خصلتیں دیکھ کر جنگلو ں کی طرف بھاگیں گے۔ کسی بزرگ نے خوب فرمایاجوعابداس غرض سے عبادت کرتاہے کہ بہشت کے مزے اٹھائے گا ،وہ بیمار ہے، حقیقت یہ ہے کہ عبادت کامقصد صرف رضائے الہٰی کا حصول ہونا چایئے۔باقی جو شخص محض جنت کی لالچ اور دوزخ کے خوف سے عبادت کرتا ہے وہ فوری نفع کے لحاظ سے مخلص کہا جا سکتا ہے۔ حضرت علمدارکشمیرؒ یہی فرماتے رہے ۔ آپؒنے زندگی کے ہر موڑ پر اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے،ا س کے معبود حقیقی ہونے ،ا سی کے مختار کل ،رزاق کامل اورپیغمبر آخرزمان ؐ کی مقدس سیرت وتعلیمات کے مطابق عملی زندگی گزارنے میں کامیابی کا درس مضمر بتایا کیونکہ ایمان کی خشت ِاول خدائے واحد کی اطاعت اور رسول رحمتؐ کی اتباع ہے۔ یہ ابدی حقیقت حسین انداز میں پیش کرتے ہوئے حضرت علمدارؒ اپنے کلام میں جگہ جگہ اس کی تشریح میں ایمان باللہ کے بعد ایمان برسالت ؐکا مطلب سمجھا تے ہیں۔ رسول رحمت ؐ اور تمام صحابہ کرام ؓسے بلا تفریق وغیر مشروط محبت رکھنا ایمان کا جزولاینفک بتلاتے ہیں۔اسلام کے اس عظیم المرتب ولی کامل نے جو انمٹ نقوش کشمیر میں دعوت اسلام کے حوالے سے چھوڑ دئے وہ اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ ان کی اخلاقی تعلیمات حیات انسانی کی غایت اولیٰ خدا پرستی ، انسان دوستی اور آخرت پسندی ہیں۔حضرت علمدارکشمیر ؒنے راہ حق میں محنت وجفاکشی میں ساری عمر مبارک گذاری، اس لئے ریشیان کشمیر میں انہیں ممتاز درجہ حاصل ہے۔کشمیر کے یہ عظیم المرتبت روحانی پیشوا ۶۳؍ سال کی عمرمبارک پاکر ۸۴۲ ھ کو واصل بحق ہوئے۔ اختتام پر شیخ العالمؒ کی ایک اہم پیغام ( نصیحت ) پیش خدمت ہے :’’ نیک لوگوں کی صحبت اختیارکر اور اُن سے محبت رکھ لے۔یہ وہی لوگ ہیں جو ہر وقت قبلہ روہوتے ہیں یعنی ہرقدم خدائے کعبہ کے حکم کے تحت اُٹھاتے ہیں۔ نیک لوگوں کی صحبت دِل کو نورانی اور بُروں کی صحبت دل کو سیاہ بناتی ہے‘‘۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وادی گل پوش کو ہر بلا وآفت سے نجات دے اوردنیا کے نقشہ پر اس کا شمار ایک آزاد مملکت میں شمار ہو، نیز خداوند کریم پوری کشمیری قوم کو توحید و سنت رسول ؐ کے ساتھ ساتھ خاصان ِ رب اور صالحین وکاملین کے فیوضات و عنایات سے نوازے( آمین)
( نوٹ : مضمون نگار لبریشن فرنٹ کے سینئر رُکن ہیں)