احمد دیدات کا اصل نام احمد حسن دیدات تھا۔وہ ایک اعلیٰ پایہ کے مبلغ،مقرر،مناظر تھے۔ان کی اکثر تقاریر اسلام،مسیحیت اور قرآن و انجیل کے تقابلی مطالعے پر مرکوز تھیں ۔ ان کی پیدائش یکم جولائی ۱۹۱۸ ء کو ممبی کے شہر سورت میں ہوئی ۔اس خاندان کے سربراہ حسن دیدات اپنے بیٹے احمد کی پیدائش کے چند ماہ بعد جنوبی افریقہ چلے گئے۔احمد دیدات کی تعلیم کچھ زیادہ نہ تھی مگر وہ بہت ذہین وفطین تھے ۔انہوں نے صرف چٹھی کلاس تک پڑھا لکھامگر اپنے طور انگریزی زبان میں مہارت حاصل کی ۔ کم عمر ہی سے ایک اسٹور میں ملازمت ملی ۔ یہاں عیسائی پادری خریداری کے لئے آتے جاتے اور ساتھ میں تبلیغ عیسائیت بھی کرتے ۔احمد دیدات اُن سے کبھی سوالات کرتے مگر انہیں کوئی اطمینان بخش جواب نہ ملتا تھا۔وہ اپنے افکار و عقائدکے پابند تھے ۔انہوں نے اسلام کے ساتھ ساتھ اب عیسائیت پر تحقیق شروع کردی۔ ان کا حافظہ بہت مضبوط تھا جس کی وجہ سے انہوں نے قرآن کے ساتھ بائبل کا لفظ لفظ حفظ کیا ۔اُن کے لئے یہ ایک بڑی کامیابی تھی ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ پانچویں پاس کرنے والے اس جوان نے ایسا کرشمہ کردیا اور بائبل پر اُن کو سند کا درجہ حاصل ہوا۔ احمددیدات نے اپنی تحقیق جاری رکھ کر جرأت اور ایمانی جذبے کے ساتھ بڑے بڑے عیٔسائی عالموں اور پادریوں کو چلنج کیا کہ یہ کتاب تحریف شدہ ہے اور پُراز اغلاط ہے۔علمی مباحث اور مناظروں کے میدان میں آکر دیدات نے غیر قرآنی عقائد کی پول کھول دی کہ پادریوں کی زبان بند ہوئی ۔ان کا عالمانہ خطابات ہمیشہ سنجیدہ ،مبنی بر حقیقت اور پُراثر ہوتے تھے جن کا عیسائی علماء جواب دینے سے قاصر رہتے تھے۔وقت کے ساتھ ساتھ عیٔسائی مشنریوں نے جو بھی اعتراضات اشکالات اسلام پر لگائے تھے ،اُن کا جواب دینے کے لئے وہ جارحانہ اور غیر علمی انداز اپنا نے والے عیسائی مشنریوں کا جوابمسکراہٹ کے ساتھ بائبل ہی کے حوالوں سے دیتے کہ ان کی زبانیں گنگ ہوتیں ۔اس سے متاثر ہوکر نہ صرف مسلمانوں کا ایمان دین پر مستحکم ہو ابلکہ لاتعداد عیسائیوں نے اسلام کی حقانیت قبول کی ۔دعوت و تبلیغ کا یہ علمی انداز فرزندان توحید کے لے بہت مفید ثابت ہوا اور بہت کم مدت میںاحمد دیدات کی شہرت د نیا بھر میں پھیلی اور انہیں ملکوں ملکوں دعوت دین کے لئے بلاوے آئے ۔آپ نے مسیحوں کے علاوہ بے شمار بین المذاہب عوامی مباحثے منعقد کئے ۔ان کی ایمان افروز تقاریر کے اہم موضوعات بائبل،قرآن،نصرانیت وغیرہ ہوتے تھے ۔دعوت اسلامی کو آگے بڑھانے کے لئے انہوں نے ایک بین الاقوامی اسلامی تبلیغی دعوتی تنظیم قائم کی۔دعوت و تبلیغ کاکام کا میابی کے ساتھ مسلسل پچاس سال کرنے پر آپ کو ۱۹۸۶ء میں شاہ فیصل بین الاقوامی انعام دیا گیا۔احمد دیدات اپنی ذات میں ایک روشن ستارے تھے جنہوں نے غیر مسلموں کے ذہن سے اسلام کے بارے میں اشکالات اور غلط فہمیوں کو کھرچ ڈالا اور اُن کے اعتراضات کا علمی جواب دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی دیگرموضوعات پر بھی قلم اور زبان کی توانائیاں خرچ کیں ۔اسلام پر ان کی کئی مقبول عام کتابیں ہیں جو آج بھی ہاتھوں ہاتھ بک رہی ہیں اور بڑے شوق سے پڑھی جاتی ہیں ۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ احمد دیدات ایک وسیع الفکر اور راسخ العقیدہ عالم تھے ۔ ۱۸؍ اگست ۲۰۰۵ ء کو شیخ احمد دیدات اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔وہ کہا کرتے تھے:
islam will win with or without you but without islam you will get lost and loose————–
……………….
فو ن نمبر 8491052950