تاریخ اسلام میںامام حسینؑ کی ذات گرامی ایسی گراں قدر ، اولوالعزم اور سرخ رو ہے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔ انہوں نے سسکتی ہوئی انسانیت صراط مستقیم پر گامزن کرکے مومنانہ زندگی جینے کا سلیقہ سکھایا اور اسی کے ساتھ عزت ، صداقت،عفت، مروت، عدالت، شجاعت کے در وس سے بھی بنی نوع انسان کو نوازا ۔ انہوں نے ہمیں آزادی کا حقیقی فہم بخشا ،ظلم و جور اور استبداد کا قلع و قمع کر نے کا حوصلہ دیا اور انسانیت کے تن مردہ میں روح پھونک کراسے حق وصداقت کے لئے زندہ و جاوید کر دیا ۔ شہدائے کربلا نے دنیا کو ایک ایسا روشن چراغ دیا جو قیامت تک لوگوں کے ایامن واعمال کو منور کرتا رہے گا۔ کوئی شخصیت جس قدر اہم ہوتی ہے اس کی یاد آوری اور تذکرہ بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے اور آفاقی شخصیت کا تذکرہ بھی آفاقی ہوتا ہے۔احسان شناس قوم اپنے محسنوںاور شہیدوں کے ایثارو قربانی کو کبھی فراموش نہیں کرتی کہ ان کا تذکرہ ہمیشہ باقی رہتاہے ۔ حضرت امام حسینؑ نے دین ِ حق قائم کرنے اور باطل کو مٹانے کی خاطر ایک عظیم الشان کارنامہ انجام دیا۔اسلام دشمن یزیدی طاقت نے دین اسلام کو منہدم کرنے کی جو منظم سازش تیار کی تھی، امام حسین ؑ نے اپنے قیام سے اس سازش کے سارے تارو پود اس طرح بکھیر دئے کہ یزید کا نام و نشان نہ رہا ۔ البتہ شہدائے کربلا ؑکی یاد فقط اس حد تک نہیں ہے کہ اسے منبروں سے پڑھا جائے اور بیان کیا جائے اور صرف لوگوں کے احساسات متاثر ہوں بلکہ یہ حادثہ پوری تاریخ میں عظیم انقلابوں کا سر چشمہ رہا ہے اور جدیدیزید وںکے خلاف ایک مستحکم آواز ہونے کی بھرپ]ور صلاحیت رکھتا ہے ۔امام عالی مقامؑ نے جس عظیم مقصد کے لئے قربانیاں دیں، وہ مقصد کتنا عظیم تھاکہ اس کے حصول میں امام حسین ؑ نے سب کچھ قربان کردیا، دولت بھی دی ،اولاد بھی دئے ، رفقاء بھی دئے ، جان عزیز بھی دی ، جناب زینب ؑ کی ردا بھی دی، غرض اپنا سب کچھ دیا ۔امام حسین ؑ نے جس مقصد کیلئے قربانی دی ،اسی کے تسلسل کا نام عزاداری ہے۔عزاداری رسم آباء واجداد یابزم شعراء نہیں ہے بلکہ درحقیقت عزاداری تسلسل عاشورا ہے۔ عاشورا رزم ِ حق و باطل کا نام ہے، کربلا اسی تاریخ ساز رزم کا نام ہے ۔ کربلاایک پیکار کا نام ہے، کربلا ایک جنگ کا نام ہے،کربلا ایک نبرد کا نام ہے۔عزاداری اسی چیز کا پیغام دیتی ہے۔ آپ اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنے دائیں بائیں، آگے پیچھے دیکھیں اور روئے زمین میں یزید جیسا سیاہ کردار والا انسان ہوتواس کے خلاف تن من دھن سے اٹھئے، یہی مقصد شہادت حسینی ؑہیں۔’’کل یوم عاشورا کل ارض کربلا‘‘ کا یہی پیغام ہے۔ امام حسین ؑ کو ہماری ہمدردی نہیں چاہئے حسین ؑ ؑ ہم سے پیروی مانگ رہے ہیںکہ ہم ا ن کی مقدس سیرت اپنائیں ۔ حسین ؑ نے روز عاشورا’’ ھل من ناصر ‘‘کی ندا لگائی ،وہ صداآج بھی گونج رہی ہے۔ عزاداری ایک ایسی فکری، ثقافتی اور سیاسی میراث جس سے تمام عالم انسانیت کو فیض یاب ہونا چاہئے۔کربلا ایک واقعہ تھا ،جناب زینب ؑ نے اس کو تحریک بنایا اور ائمہ معصومین ؑ نے اس کو مکتب بنایا۔عزاداری برپا کرنے سے پہلے ہمیں مقصد کربلا کو سمجھنا چاہئے۔مرثیہ خوانی،نوحہ خوانی،مدح خوانی بامقصد ہونی چاہئے ، عزاخانوں میں مقصد کربلا بیان ہونا چاہئے۔عزاداری کو رسم وبزم تک محدود مت رکھئے۔ عزاداری کے لغوی معنی ہے ماتم یا سو گ منانا اور جو یہ ماتم یا سوگ برپا کرے گا اُسے عزادار کہتے ہیں ۔ یہ عزاداری بامقصد ہوتی ہے اور مقصد قیام امام حُسینؑ تک پہنچنے کا ذریعہ ہوتی ہے ۔ عزاداری اس قربان گاہ کی یاد کا ذریعہ ہے جہاں اللہ کے ایک مخلص بندے نے دین خدا کی بقاء ودوام کے لئے اپنا سارا گھر لٹا دیا اور شہدائے کربلاؑ کی یاد جذبہ ایثار و قربانی کی تربیت گاہ اور بقائے دین خداوندی کی ضمانت ہے ۔
عزاداروں کی دو قسمیں ہیں:رسمی عزادار اور حقیقی عزادار۔رسمی عزادار وہ ہوتاہے جو عزاداری کو آباء و اجداد سے ملی ہوئی رسم کے طور پر انجام دیتاہے اور ذمہ داریوں سے بے خبر ہوتاہے اور وہ ایام عزا ختم ہونے کے ساتھ ہی الوداع یا حسینؑ کہہ کر مزاجِ خانقاہی میں محو ہوکر فلسفہ عزاداری سے بے خبر رہتاہے۔حقیقی عزادار عزاداری کو رسم آباء و اجداد نہیں سمجھتا ہے بلکہ سنّت ائمہ معصومینؑ جان کر اور جناب زینبؑ کے نقش قدم پر چل کر تسلسل سے عزاداری انجام دیتاہے، عزاداری کو ظالم نظام اورطاغوت کے خلاف ایک اسلحہ سمجھ کر انجام دیتاہے کہ اس سے نظام طاغوت لرز اُٹھتا ہے ۔ عزاداری صرف نقل ِواقعات اور بیانِ داستان نہیں ہے بلکہ یہ تربیت اور تعلیم کی اوپن یونیورسٹی (Open University)اور عظیم درس گاہ ہے۔ شہداء کربلا ؑ کی عزاداری خد ا و رسولؐ کے دشمنوں سے بیزاری اور نبی کریم صلی ا للہ علیہو سلم اور اہل بیتؑ سے اظہار محبت و عقیدت کا بہترین ذریعہ ہے۔ شہدائے کربلاؑکی یاد دلوں کو حرارت بخشتی ہے ،انسان کو حقیقی مجاہد بنا کر باطل سے لڑنے کا حوصلہ بخشتی ہے ،حسینیؑ باطل کے سامنے سرنہیں جھکاتا اور عزاداری اہل ِحق کی حمایت و نصرت اور باطل سے نفرت و بیزاری کا اعلان ہے۔ اس کے تذکرہ میں اخلاق اور انسانیت کے وہ اعلیٰ نمونے نظر آتے ہیں ۔ مبلغین و ذاکرین پریہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ عزاداری اور منبر کے وقار و تقدس کو محفوظ رکھتے ہوئے ایسی زبان استعمال کریں جس سے فلسفہ عاشورہ سامعین اور خاص کر نئی نسل کو سمجھ آجائے تاکہ افادیت اور تاثیر میں کافی حد تک اضافہ ہوجائے۔ یاد شہدائے کربلا کے ساتھ وقت کے تقاضوں کو بھی مد نظر رکھاجائے ، مغربی اورغیر مغربی ممالک سے تہذیبی جارحیت کے نتیجے میںپیش آنے والے مسائل اور ان کے موثر اسلامی حل کو بھی بیان کیاجائے، فکری ، علمی اور ذہنی مشکلات کا عملی حل پیش کیا جائے تو نئی نسل کی تربیت پر اچھا اثر پڑے گا اور ان کے لئے زندگی کی صحیح سمتیں واضح و روشن ہوجائیں گی ۔اگر عزاداری سے فلسفہ عزاداری کو الگ کیا جائے تو یہ عزاداری بے رُوح ہوگی۔ حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں ’’یہ مجلسیں ، یہ عزاداری، یہ یادِ حسینیؑ اور یہ یادِ عاشورہ خداکی نعمتوں میں سے ہیں ان کی قدر جانئے۔ عاشورہ عزاداری کے اذہان و افکار کی تربیت کا سرچشمۂ حیات ہے‘‘ ۔ امام خمینیؒ اکثر کہا کرتے تھے’:’ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے کربلا اور عزاداری کی بدولت ہے‘‘۔حقیقی عزادار فلسفۂ عزاداری سے واقف ہوکر رسم و رواج اور گروہ بندی، مخصوص فکر اور تنظیموں سے بالا تر ہو کر دین اسلام کی بقاء کی خاطر عزاداری انجام دیتاہے ، رسم شبیریؑ اداکرتاہے کہ جس سے وقت کا یزید لرز اٹھتاہے۔ یہ عزاداری زینبی ؑ عزاداری ہوا کرتی ہے ۔حقیقی عزادار اپنی بستی ،محلہ ، علاقہ میں کردارو گفتار میں نمونۂ عمل ہوتاہے ۔ اپنے تو اپنے دوسرے بھی اس کے مومنانہ کردار سے متاثر ہوتے ہیں۔حقیقی عزادار انسانیت ، دین اور ائمہ معصومینؑ کے بارے میں گہری نگاہ سے غوروفکر کرتاہے اور اپنے زمانے کے حالات سے واقفیت کی بناء پر اپنے عصری شیطانوں اور اللہ کے دین کے دُشمنوں کا مقابلہ کرتاہے ۔ اس طرح انسانوں کی ابدی سعادت و خوش بختی کی راہ میں اس رُکاوٹ کو دور کرتے ہیں جو بد طینت افراد کی پیدا کردہ ہوتی ہے۔حقیقی عزادارکو اچھی طرح یہ معلوم ہوتاہے کہ خداوند عالم کے سامنے وہ جوابدہ ہے، اس لئے اپنے فرائض کی ادائیگی میںکوتاہی نہیں برتتا۔حقیقی عزادار عزاداری کے پیغامات اور اسباق سے پوری طرح واقف ہوتاہے ،خونِ امام حسینؑ کے سودا گروں ، پیشہ وروں، عزاداری کے نام پر اپنے مفادات حاصل کرنے والوںسے باخبر ہوکر ان کے خلاف عملی اقدامات بھی کرتاہے۔حقیقی عزادار شاہراہ ِوفا اور محبت میں اتنا مستحکم اور ثابت قدم رہتاہے کہ ہرمصیبت اور کرب وبلا کو برداشت کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتاہے کیونکہ مصائب و مشکلات کے عاشقانہ استقبال کا سبق اس نے امام حسینؑ اوران کے اصحابِ باوفاسے سیکھا ہوتاہے ۔حقیقی عزادار ظلم پرروتا بھی ہے ، ظالم کے خلاف آواز بھی بلند کرتاہے اور زندہ یزیدی کردارکے خلاف بھی آواز اُٹھاتا ہے ؎
نکل خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیریؑ
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
ترے دین و ادب سے آرہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی اُمتوں کا عالمِ پیری
(علامہ اقبالؒ )