روایت ہے کہ حضرت ام الفضل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چچی تھیں۔ایک مرتبہ گھبرائی ہوئی آپؐ کی خدمت میں تشریف لائیں ،عرض کیا کہ یارسول اللہ ؐ!میں نے آج انتہائی ڈراونا اور بھیانک خواب دیکھا ہے ،میں نے خواب میں فاطمہؓکے جسم سے کٹا ہوا گوشت کا ٹکڑا آپ ؐ کی گود میں رکھ دیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سُن کر فرمایا : رایتِ خیرماکہ تو نے اچھا خواب دیکھا ہے ،اس کی تعبیر یہ ہے کہ میری فاطمہ کے گھر بیٹا پیدا ہوگا ۔ایک دن نبی کریم ؐ مسجد نبوی میں جلوہ افروز تھے کہ خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرا ؓ کے ہاں بیٹے کی ولادت کی اطلاع ملی،آپؐ فوراً ان کے گھر پہنچے ،حضرت ام الفضل ؓ نے معصوم چاند جیسے حسین ، حضرت حسینؓ کو آپ ؐ کی گود میں رکھ دیا ،نبی کریمؐ نے چچی کو مخاطب کرکے فرمایا کہ چچی یہ تیرے خواب کی تعبیر ہے۔سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسے کو پیار کیا پھر آپؐ نے گھٹی دی ،تصور کیجئے کہ حضرت حسینؓ کتنے خوش نصیب تھے کہ گھٹی کے طور پر آپ کے منہ میں جانیوالی سب سے پہلی میٹھی چیز دہن رسالت کا لعاب تھا ،جو امرت جل سے کہیں زیادہ بہتر اور آب زولال سے بدرجہا پاک اور صاف و شفاف ۔اس کے بعد نبی کریمؐ نے حضرت حسینؓ کے ایک کان میں اذان دی اور دوسرے کان میں تکبیر کہی۔حضرت ام الفضل ؓ کا بیان ہے کہ اپنے نومولود نواسہ کو دیکھ کر سرور کائنات ؐ کا چہرہ انور فرط ِمسرت سے چمک اٹھا ،آپؐ بار بار حضرت حسینؓ کو چومتے اور آنکھوں سے لگا لیتے ،اچانک میں دیکھتی ہوں کہ رحمت عالم ؐ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ،یہاں تک کہ چہرہ انور اشکبار ہوگیا ۔میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ؐ یہ کیا معاملہ ہے۔؟ فرمایا :مجھے نواسے کو دیکھ کرخوشی ہوئی مگر اب میدان کارزار کا نقشہ سامنے آگیا ہے۔جب حضرت معاویہ ؓ کے بعد یزید تخت نشین ہوا تو حضرت حسینؓ نے اس کو اس اعلیٰ منصب کے اہل نہ سمجھا ،یہیں سے یزید اور امام حسین ؓ کا اختلاف شروع ہوجاتا ہے ۔یزید نے حضرت حسینؓ کو رام کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا مگر چونکہ یہ اختلاف اسلامی حدود اور تعلیمات اسلام سے یزید کی رو گردانی کی بنیاد پر تھا ،اس لئے حضرت حسینؓ اپنے موقف پر اٹل رہے تاکہ آنکہ حق و صداقت کا بول بالا کرنے کے لئے اپنے سمیت سارے خاندان کی قربانی پیش کی،سر کٹا دیا مگر باطل کے سامنے ایک لمحہ کے لئے بھی اس کا جھکانا گوارا نہ کیا ۔
سرداد نہ داددست دردست یزید
حقا کہ بنا ء لا الہ ہست حسین
یزید نے ہر چند حضرت امام حسینؓ پر بیعت کے لئے زور ڈالا مگر حضرت حسینؓنے صاف انکار کردیا ،دوسری طرف اہل کوفہ نے خطوط کے ذریعہ حضرت امام حسینؓ کو کوفہ ٓانے کی دعوت دی ،آپؓ کے عزہ ، اقارب اور دوستوں و رشتہ داروں نے آپؓ کو کوفہ جانے سے روکا مگر آپ ؓ نے فرمایا کہ میں نے وہاں جانے کا پختہ ارادہ کرلیا ہے ۔حضرت ابن عباسؓ نے جذباتی ہوکر فرمایا :اگر مجھے معلوم ہوتا کہ حضرت حسینؓ میرے کہنے پر رُک جائیں گے تو میں آپؓ کے سر کے بالوں کو پکڑ کر روک لیتا ،لیکن آپؓ رُکنے والے نہیں ،میں دیکھتا ہوں کہ کوفہ جانا خطرہ سے خالی نہیں کیونکہ کوفہ والے بے وفا اور دغا باز ہیں،چنانچہ باہمی مشورہ کے بعد حضرت مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر آگاہ کریں۔جب حضرت مسلم بن عقیلؓ کوفہ پہنچے تو کوفیوں نے ان کے شایان شان استقبال کیا اور دیدہ و دل فرش راہ کو دئے ،ہر طرف سے خوش آمدید کے نعرے بلند ہوئے ،ہزاروں کوفیوں نے آپ ککے ہاتھ پر بیعت کی،کوفیوں کا جذبہ و جوش دیکھ کر حضرت مسلم بن عقیل ؓ نے حضرت امام حسینؓ کو پیغام بھیجا کہ یہاں کی فضا سازگار ہے ، اس لئے آپؓ تشرف لائیں۔
دوسری طرف وہ حجازی لباس میں مکہ والے راستہ سے مغرب و عشاء کے درمیان بڑے ڈرامائی انداز میں کوفہ میں داخل ہوا اور مشہور کردیا کہ حضرت حسینؓ تشریف لے آئے ہیں۔ابن زیاد نے چہرہ پر نقاب ڈال رکھا تھا ،یہ نقاب اترتے ہی کوفیوں کے چہرے اتر گئے ،ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا ،وہ بڑا جابر اور ظالم حکمران تھا ،مسلم بن عقیل ؓ کی راہوں میں آنکھیں بچھانے والے اب آنکھیں چرانے لگے،چنانچہ مسلم بن عقیل کی گرفتاری کا اعلان ہوگیا اور انہیں پناہ دینے والے کے خلاف بھی سخت کاروائی کا اعلان کردیا گیا ۔حضرت مسلم بن عقیلؓ ایسے ہوشربا حالات میں تنہا رہ گئے ،حضرت ہانی ؓ نے ان کو اپنے ہاں پناہ دی،سرکاری جاسوس قاصد کے لباس میں حضرت ہانی کے گھر پہنچا اور ابن زیاد کو آپ کی موجودگی کی اطلاع دے دی،دوسرے دن صبح ہی کو حضرت ہانی کو گرفتار کرکے پیش کیا گیا ۔ابن زیاد نے کہا کہ اگر آپ مسلم بن عقیل کو ہمارے حوالہ کردیں تو آپ کی جان بچ سکتی ہے ،حضرت ہانی نے نہایت بے باکی اور جرأت سے جواب دیا کہ میری جیسی ہزاروں جانیں قربان جاسکتی ہیں مگر گلستان نبوت کا پھول تمہارے ہاتھ میں نہیں دیا جاسکتا ،یہ سن کر ابن زیاد بھڑک گیا اور جلاد کو اشارہ کیا ،تلوار اٹھی اور ایک لمحہ میں حضرت ہانی کا سر تن سے جدا ہوکر زمین پر آگیا ۔حضرت مسلم بن عقیل ؓ نے اپنے میزبان کی شہادت کا ذکر سُنا تو تلوار نیام سے نکال کر میدان میں آگئے ،آپ کے ساتھ حضرت ہانی کے قبیلہ کے لوگ بھی شرک ہوگئے ۔ابن زیاد نے ان کے مقابلہ کے لئے ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا ،تیر اندازی شروع ہوئی ،سب لوگ بھاگ نکلے ،حضرت مسلم بن عقیل پھر تنہا رہ گئے۔سارا کوفہ دشمن ہوگیا اور وہاں کے درودیوار سے وحشت و بربریت ٹپکنے لگی ۔ایک رات حضرت مسلم بن عقیل تھک ہار کر ایک مکان کے دروازے کی سیڑھیوں پر بیٹھے تھے کہ اچانک دروازہ کھلا ، ایک بڑھیا نے کہا کہ چودھویں رات کے چاند جیسا حسین اس کے دروازے پر بیٹھا ہے،حضرت مسلم بن عقیل نے بڑھیا سے کہا ’’ماں دو گھونٹ پانی پلادو‘‘بڑھیا نے پوچھا ،تم کون ہو ؟آپ نے فرمایا :میں حسینؓ کا وکیل مسلم بن عقیل ہوں۔غریب الدیار ہوں ، مظلوم و بے کس ہوں ،زمانہ دشمن ہے ،لوگ میرے خون کے پیاسے ہیں ۔بڑھیا نے کہا ،بیٹا اندر آجائو ،میں تمہیں امان دیتی ہوں ۔نیک دل بڑھیا کا بیٹا درباری تھا ،کم بخت نے مخبری کردی اور حضرت مسلم بن عقیل ؓ کی گرفتاری کے لئے مکان کا گھیرائو کرلیا گیا ۔آپ نے گرفتاری دینے کے بجائے مقابلہ کیا ،شدید زخمی ہونے کے بعد پکرے گئے ،ابن زیاد کے دربار میں پیش کیا گیا ،جہاں آپ نے بے پناہ استقامت اور بلند حوصلگی کا مظاہرہ کیا لیکن ظالم کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا ۔بالآخر شہید کردیا گیا اور آپ کو پناہ دینے والی میزبان بڑھیا اپنے مہمان کی شہادت سے پہلے ہی شہید ہوگئی۔ادھر حضرت حسینؓ نے مدینہ منورہ سے مکہ جانے کے لئے رخت سفر باندھا اور سوچا کہ ابتلاو آزمائش کے جس سفر پر نکل رہا ہوں پھر شائد کبھی دیار نبی ؐ دیکھنا نصیب نہ ہو ،آخری بار اپنے نا نا کو سلام کہنے کیلئے روضہ ٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دیتے ہیں۔تصور کیجئے کہ سیدنا حسینؓ کے دل پر کیا گذررہی ہوگی ،جب آپ نانا کے روضہ پر آخری سلام کے لئے تشریف لے گئے ہوں گے ،نواسہ رسول ؐ کو معلوم تھا کہ روضہ رسول ایک ایسی دولت ہے جو مدینہ کے علاوہ زمین کے کسی گوشہ کو نصیب نہیں ۔اس زمین کی مٹی پر کہکشاں بھی ناز کرتی ہے ،اس سر زمین کے مقدر پر آفتاب و ماہتاب بھی رشک کرتے ہیں ،اس جگہ کی تعریف خود عرش والا ہی کرتا ہے ۔سیدنا حسینؓ اس مرکز خلائق سے دور جارہے تھے،نواسہ رسول ؐ کو معلوم تھا کہ نانا کے روضہ پر بیٹھ کر عبادت کرنا سعادت مندی ہے ،یہاں کی عبادت افضل ترین عبادت ہے لیکن حضرت حسینؓ امت محمدیہ کو یہ سبق دینا چاہتے تھے کہ جب نبی کا دین خطرہ میں ہو اور شرافت و دیانت اور حق و صداقت کو پامال کیا جارہا ہو تو پھر نبی ؐ کے روضہ کو چھوڑنا بھی سب سے بڑی عبادت ہے۔
حضرت حسینؓ اور ان کا خاندان ۲۷؍ رجب ۴۰ ھ کو مدینہ سے روانہ ہوتا ہے اور ۲۷؍ رجب کو شہنشاہ دو جہاں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم معراج کیلئے تشریف لے جاتے ہیں گویا کہ اسی تاریخ کو نانا نبوت کی معراج پر جارہا ہے ،سفر کرتے ہوئے راستہ میں ایک مقام پر سیدنا حسینؓ کے قافلہ کو مشہور عربی شاعر فرذوق ملتا ہے ،سیدنا حسینؓ نے اس سے کوفہ کے حالات پوچھے تو وہ بولا کہ ’’اہل کوفہ کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور تلواریں یزید کے ساتھ ہیں ۔‘‘ایک مقام پر پہنچ کر آپؓ کو حضرت مسلم بن عقیلؓکی شہادت کی المناک خبر ملی ،یہی وہ مقام تھا کہ جہاں پر سیدنا حسینؓ نے سنجیدگی کے ساتھ آگے نہ جانے کے بارے میں سوچا لیکن مسلم بن عقیلؓ کے رشتہ دار بضد ہوگئے کہ ہم مسلم بن عقیل کا انتقام لیں گے یا خود ختم ہوجائیں گے ،اس پر حضرت حسینؓ نے فرمایا کہ ان کے بغیر اب زندگی میں کوئی مزہ نہیں ۔بالآخر قافلہ حق و صداقت ایک میدان میں پہنچ گیا ،آپؓ نے پوچھا یہ کونسی جگہ ہے ؟بتایا گیا کہ ’’کربلا ‘‘ہے ۔فرمایا :کرب و بلا یعنی غم اور آزمائش کی جگہ۔میدان کرب و بلا : بے شک یہ جگہ اولاد رسول ؐ کی آزمائش گاہ تھی ۔سات محرم الحرام کو آل رسول کا پانی بند کردیا گیا ،دشمن نے گھیر ڈال دیا اور موت کے سائے گہرے ہوتے چلے گئے ،خطرات بڑھنے لگے ،خوف و ہراس کا ماحول گرم ہوگیا ،خدشات اور وسوسوں نے حقیقت کا بھیس بدل لیا ،بالآخر نواسہ رسول نے دشمن سے ایک رات کی مہلت مانگی ،اس لئے نہیں کہ ان لمحات میں ارباب اقتدار سے سمجھوتہ کرلیں یا کہیں سے امداد طلب کرلیں یا راتوں رات مقابلہ کے لئے کوئی لشکر ترتیب دے دیں ،یا ڈر کر کہیں فرار کی راہ اختیار ا کرلیں بلکہ اس لئے ،تاکہ اپنے خدا کو راضی کرسکیں ۔حضرت حسینؓ نے تمام بچوں ،عورتوں اور مردوں کے ساتھ مل کر خیموں میں ساری رات خداوند قدوس کی عبادت کی اور اس کی تسلیم و رضا کیآگے سجدہ ریز ہوگئے۔
نواسہ ٔرسول ٔ کا رقت انگیز خطاب: عاشورہ محرم کے دن افق پر خونی سورج طلوع ہوا،سیدنا حسینؓ نے محسوس کرایا کہ ظالم و جابر حکومت ان کے خون کی پیاسی ہے اور دشمن کے بدلتے ہوئے تیور میں جارحیت و بربریت کا غرور دیکھ کر نواسہ ٔرسول ؐنے سنگ دل ظالموں پر ندائے حق کی دستک دی کہ شائد ان کا ضمیر جاگ اٹھے ،شائد وہ نواسۂ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ و مقام کو پہچان لیں اور خون ناحق سے اپنے ہاتھوں کو رنگنے سے باز آجائیں لیکن اقتدار و حکومت کا ضمیر جب سوتا ہے تو بیدار نہیں ہوتا ۔سیدنا حسینؓ اونٹنی پر سوار ہوئے اور خداکا قرآن سامنے رکھ کر دشمنوں سے یوں مخاطب ہوئے:لوگو!میرا حسب و نسب یاد کرو،سوچو میں کون ہوں،پھر اپنے گریبانوں میں منہ ڈالواور اپنے ضمیر کا محاسبہ کرو،خوب غور کرو،کیا تمہارے لئے میرا قتل کرنا اور میری حرمت کا رشتہ توڑنا روا ہے؟کیا میں تمہارے نبیؐکی بیٹیؓ کا بیٹا نہیں ہوں؟کیا سید الشہدا ء امیر حمزہؓ میرے باپ کے چچا نہ تھے؟کیا ذوالجنا حین جعفر طیارہؓ میرے چچا نہیں ہیں؟کیا تم نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کا یہ قول نہیں سُنا کہ آپؐ میرے اور میرے بھائی کے حق میں یہ فرماتے تھے ،سید شباب اہل الجنتہ ،اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے کیونکہ واللہ میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد آج تک جھوٹ نہیں بولا ہے ،تو بتائو کیا تمہیں برہنہ تلواروں سے میرا استقبال کرنا چاہئے ،اگر تم میری بات پر یقین نہیں کرتے تو تم میں ایسے لوگ موجود ہیں ،جن سے تصدیق کرسکتے ہو۔جابر بن عبداللہ انصاریؓ سے پوچھو ،ابو سعید خدریؓ سے پوچھو ،سہل بن سعد ساحری ؓ سے پوچھو۔زید بن ارقم ؓ سے پوچھو،انس بن مالکؓ سے پوچھو ،تمہیں بتلائیں گے کہ ُانہوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں رسول اللہ ؐ کو یہ فرماتے سُنا ہے یا نہیں؟کیا یہ بات بھی میرا خون بہانے سے نہیں روک سکتی،واللہ اس وقت روئے زمین پر بجز میرے کسی نبی کا بیٹا موجودنہیں ،میں تمہارے نبی کا بالاواسطہ نواسہ ہوں ۔،کیا تم مجھے اس لئے مجھے ہلاک کرنا چاہتے ہو کہ میں نے کسی کی جان لی ہے،کسی کا مال چھینا ہے ،کہو کیا بات ہے؟آخر میرا قصور کیا ہے؟حضرت حسینؓ کا یہ آخری خطبہ اتنا اثر اور درد انگیز تھا کہ اگر یہ خطبہ پہاڑوں کو سنایا جاتا تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتے ،زمین کو سنایا جاتا تو وہ شق ہوجاتی ،بادلوں کو سُنایا جاتا تو وہ اشکوں کی برسات بن جاتے ،لیکن سیدنا حسینؓ جن ظالموں سے خطاب فرما رہے تھے ،ان کے سینوں میں دل نہیں پتھر تھے۔
بالآخر میدان کارِ زار گرم ہوا ،بچے ،بوڑھے اور پردہ نشین عورتوں تک باری باری شجاعت و بہادری کی تاریخ رقم کردی۔سیدنا حسینؓ لاشوں پر لاشیں اٹھائے لارہے تھے ،انہیں خیموں میں رکھ دیتے اور باقی ماندگان کو صبر کی تلقین کرتے ،آخر اٹھارہ برس کا جوان رعنا علی اکبر ہاتھ میں تلوار اٹھائے خیموں سے اس طرح نکلا جیسے کربلا کی اندھیر نگری میں حسن و جمال کا آفتاب طلوع ہوگیا ہو ،دشمنوں کو للکارتا ہوا علی اکبر آگے بڑھا ،اس کی رگوں میں فاطمہ ؓ کا خون تھا ،ہاتھ میں علیؓ کی تلوار تھی،حمزہؓ کی شجاعت و جرأت کا پیکر تھا ،سیدنا حسینؓ کے لخت جگر نے بہادری کے خوب جوہر دکھائے ،دشمن نے علی اکبر کو محاصرہ میں لے لیا ،ایک کم بخت نے گردن پر تلوار ماری ،علی اکبر کا سر تن سے جدا ہوکر زمین پر جا پڑا،زینب ؓ یہ دلخراش منظر دیکھ کر تڑپ اٹھیں ،اپنے بھتیجے کو پکارتی ہوئی تیزی سے خیموںسے باہر نکلیں ،سید نا حسینؓ نے اس طرح بھاگتے دیکھ کر زینبؓ کو روکا ،انہیں ہاتھ سے پکڑ کر خیمے کے اندر لے گئے۔
حضرات ! تاریخ بڑے بڑے بہادروں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے لیکن تاریخ میں سیدنا حسینؓ جیسا بہادر نظر نہیں آتا ،جس کے سامنے سارا خاندان تہہ تیغ کردیا گیا ہو ،مگر سیدنا حسینؓ بڑے حوصلہ اور صبر کے ساتھ اس خون آشام منظر کو دیکھ رہے ہیں اور دشمن کی ننگی تلواروں کے سامنے چٹان بنے ہوئے ہیں ،سیدنا حسینؓ نے جنگ کے دوران اپنے چھ ماہ کے لخت جگر علی اصغرؓ کو گود میں اٹھالیا اور دشمنوں سے مخاطب ہوکر فرمایا :’’ظالمو!دشمنی تمیں مجھ سے ہوسکتی ہے ،اس معصوم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟یہ پیاس سے بلبلا رہا ہے ،اسے تو پانی کے دو گھونٹ پلادو۔‘‘جواب میں دشمنوں نے تیر مارا ،جو علی اصغر کے حلق پر پیوست ہوگیا ،سیدنا حسینؓ نے تیر کو کھینچ کر نکالا، خون کا فوارہ پھوٹ پڑا ،آپؓ نے شہید لخت جگر کے خون سے چلو بھرا اور آسمان کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا :خدایا دیکھ تیرے نبی کی اولاد کے ساتھ کیا ظلم ہورہا ہے۔سیدنا حسینؓنے علی اصغر کی لاش زمین پر رکھ کر اپنے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کئے اور دعا مانگی :پروردگار عالم ،اپنے حضور میری آخری قربانی قبول فرما ،کیونکہ حضرت حسینؓ کو معلوم تھا کہ دشمن ظالم ہے ،اس کا دل پسیجنے والا نہیں ،جنہوں نے نواسہ رسول ؐ کی ساری اولاد کو خاک و خون میں ترپایا تھا ،ان سے رحم کی توفیق کیونکر کی جاسکتی ہے۔
سیدناامام حسینؓدلیری و مردانگی کے بھرپور مظاہرہ کررہے ہیں لیکن کب تک۔آخر کار دشمنوں کے گھیرے میں آگئے ،ایکازلی بد بخت آگے بڑھتا ہے ،نواسۂ رسولؐ کے سینہ پر بیٹھ کر آپ کا سَر مبارک قلم کرکے نیزے کی نوک پر لے آتا ہے۔
قتل حسین ؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
دشمنوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آل رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس جسموں پر گھوڑے دوڑادئے ،خیموں کے اندر عورتوں نے یہ منظر دیکھا تو چِلا اٹھیں ،سیدنا حسینؓ کی لاش پر گھوڑوں کا دوڑنا تھا کہ زینبؓ نے بے اختیار اپنے نانا کو پکارا:اے محمد ؐ تجھ پر ایمان کے فرشتوں کا درود و سلام ،یہ دیکھ حسینؓ ریگستان میں پڑا ہے ،خاک و خون سے آلودہے ، تیری اولاد تہہ و تیغ کردی گئی ہے ،ہوا ان پر خاک ڈال رہی ہے ،حضرت زینبؓ کی یہ چیخ سُن کر دوست دشمن سب رونے لگے ۔
اے کربلا کی خاک اس احسان کو نہ بھول
ترپتی ہے تجھ پہ لاش جگر گوشہ بتول
اسلام کے لہو سے تیری پیاس بجھ گئی
سیراب کرگیا تجھے خون رگ رسول
سیدنا حسینؓ کا کٹا ہوار سَر ابن زیاد کے دربار میں لایا گیا ،روایت ہے کہ آپؓ کا سَر مبارک طشتری میں رکھا ہوا تھا ،ابن زیاد فتح و نصرت کے نشہ میں اٹھا اور اپنی چھڑی حضرت حسینؓ کے لبوں پر رکھی،درباری کانپ اٹھے،جلیل القدر صحابہ حضرت زید بن ارقمؓ تڑپ اٹھے ،دربار میں کھڑے ہوگئے ،فرمایا:ابن زیاد خدا سے ڈر،تو ان لبوں پر چھڑی ماررہا ہے ،جن لبوں کو سرکار دو عالم ؐ چوما کرتے تھے۔یہ کہہ کر حضرت زیاد بن ارقم دربار سے چلے گئے۔
زمانہ ہوگیا باغ محبت کی تباہی کو
ابھی تک ہیں وہی کلکاریاں خوش شہید کی
سیدنا امام حسینؓنے میدان کربلا میں بے مثال قربانی پیش کرکے قیامت تک کے لئے علم اسلام کو بلند کردیا ،سیدنا حسینؓ چاہتے تو جان بچا سکتے تھے لیکن مقصد صرف جان بچانے ہی کا نہیں تھا ،بلکہ اسلام کی قدروں کی حفاظت مقصد تھا ،جو جان بچانے سے نہیں جان دینے سے حاصل ہوسکتا تھا،اس لئے سیدنا امام حسینؓ نے اپنی جان کی پرواہ نہ کی ، دنیا کی نظروں میں حضرت حسینؓ نے سب کچھ لٹا دیا ،لیکن خدا کی نظر میں حضرت حسینؓ نے سب کچھ پایا ،اسی کا نام ’’حسینیت ‘‘ہے اور یہی نواسۂ رسولؐ کا درس ہے کہ خاندان تہہ و تیغ ہوتا ہے تو ہوجائے،اولاد کٹتی ہے تو کٹ جائے ،رنج و الم کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں تو ٹوٹتے رہیں ،آزمائش و ابتلا کی آندھیاں چلتی ہیں تو چلتی رہیں،جان جاتی ہے تو جائے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین کسی قیمت پر خطرہ میں نہ پڑے ۔
ستم شعار تو دنیا سے مٹ گئے لیکن
جبیں دہر پہ یاد حسین ؓ باقی ہے