تجزیہ
عظیم انصاری
سخن زارِ بنگالہ ( تذکرہ و تجزیہ) کے مصنف تھے۔ان معروف شاعر و ادیب ایم نصراللہ نصر ہیں جس کو شکیل انور نے ترتیب سے نوازا ہے۔ اس سے قبل شکیل انور کا ایک شعری مجموعہ ’’شعریات شکیل‘‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آچکا ہے۔ ’’سخن زارِ بنگالہ‘‘ کے تعلق سے ان کا کہنا ہے:’’کافی دِنوں سے یہ خیال دل میں پک رہا تھا کہ دیگر مرتبین کی طرح کیوں نہ میں بھی کوئی کتاب ترتیب دوں۔ اس لئے جب میرا پہلا شعری مجموعہ ’شعریات شکیل‘ منظر عام پر آ گیا اور اس کی پذیرائی علم و دانش میں ہونے لگی تو یہ خیال شدت آشنا ہو گیا۔ پھر میں نے اپنے شفیق و رفیق ایم نصراللہ نصر سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ انھوں نے کئی اہلِ فن کے نام گنوائے اور موضوعات کے نام بھی بتائے مگر میں نے ان کے نام پر انگلی رکھ دی۔ ‘‘’’سخن زارِ بنگالہ‘‘ میں تقریباً 55 پچپن شعراء کا تذکرہ اور ان کی تخلیقات کا تجزیہ ہے۔ ریسرچ اسکالرز کے لیے یہ کتاب کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ شکیل انور کا یہ کارنامہ قابل صد ستائش ہے کہ انہوں نے اس طرح ایک معروف قلمکار کی برسوں کی محنت کو نذر طاق نسیاں ہونے سے بچالیا اور اس طرح اردو ادب کے نمایاں خدمت گزاروں میں اپنا نام درج کرا لیا۔
ایم نصراللہ نصر ایک اچھے شاعر و ادیب ہیں اور اب تک ان کی دس کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں اور ماشاءاللہ ابھی بھی ان کا قلم رواں دواں ہے ۔ اس موقعے پر مجھے بلند اقبال کا ایک خوبصورت مطلع یاد آرہا ہے ۔میری کہاں بساط ، کرم بولتا رہا،الہام ہو رہا تھا قلم بولتا رہا۔
اللہ کرے ایم نصراللہ نصر پر یہ الہامی کیفیت طاری رہے اور بنگال کے شعر و ادب کی دنیا ان کی تخلیقات سے مالامال ہوتی رہے۔اس کتاب سے متعلق ایم نصراللہ نصر کا کہنا ہے:
’’جو مضامین اور مقالے شامل ہیں وہ بنگال کے شعراء اور ان کی شاعری کا ایک سرسری جائزہ ہے۔ ان کے توسط سے بنگال کی اردو شاعری اور اردو ادب کے منہاج و مقام کو سمجھنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش کی گئی ہے۔ ‘‘اس کتاب میں چونکہ تقریباً 55 مضامین شامل ہیں ،لہٰذا ان سب پر سیر حاصل بحث کرنا ممکن نہیں ہے لیکن ایم نصراللہ نصر کا بنگال کے شعراء پر جو تذکرہ و تجزیہ ہے۔ ان کے چند مضامین کے اقتباسات کی روشنی میں ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کی ہلکی سی کوشش کی جاسکتی ہے۔ پہلے یہ بتاتا چلوں کہ تذکرہ سے مراد کسی چیز ، واقعہ یا خیال کا واضح اور تفصیلی بیان ہے جب کہ تجزیہ میں اس بیان کردہ مواد کو الگ الگ حصوں میں منقسم کرکے ان کا گہرائی سے جائزہ لینا اور ان کے مفہوم اور اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کرنا شامل ہے۔ میرے خیال سے ایم نصراللہ نصر اس پس منظر میں پورے طور پر کامیاب ہیں۔
اپنے ایک مضمون ’’سراپا شاعر: وکیل اختر‘‘ میں ان کی شاعری کے تعلق سے وہ لکھتے ہیں :’’ان کی شاعری میں سچائی ، دلکشی ، دلنوازی ہے ، حیات و کائنات کی عکاسی ہے ، عصری آگہی کی منظر کشی ہے۔ حسن و عشق کی باتیں بھی ہیں اور تلخ و شیریں لمحات کی عکس ریزی بھی۔‘‘ ایک اور مضمون ’’علقمہ شبلی : اپنی نظم نگاری کے آئینے میں‘‘ان کی نظم نگاری کا محاسبہ کرتے ہوئے نصر نے یہ لکھا ہے :’’ہر نظم میں ایک مخصوص اور عمدہ خیال کو خوبصورتی کے ساتھ ایک فریم میں سجا دیا گیا ہے۔مصرعے سازی کا عمل اس قدر ہنر مندانہ ہے کہ تسلسل میں ریشمی فرش پر چلنے کا احساس ہوتا ہے۔‘‘
معروف شاعر و ادیب حلیم صابر صاحب کے متعلق اپنے ایک مضمون ’’ہر فن میں ہوں میں طاق ، مجھے کیا نہیں آتا ‘‘ یوں رقمطراز ہیں۔’’جب وہ شعر کہتے ہیں تو ان کی شعری بصیرت اور دور اندیشی قابلِ دید ہوتی ہے، نیز جب وہ تبصرہ ، تجزیہ یا کوئی مضمون زیرِ تحریر لاتے ہیں تو ادب کی بیشمار خوبیاں اس میں سمٹ آتی ہیں۔ صنفِ سخن کی اتنی اصناف سے وہ واقف ہیں کہ ان کو شمار میں لانا مشکل ہے۔ نئی نئی اصنافِ سخن پر طبع آزمائی کرنا ان کا شوقِ سخن ہے۔‘‘
’’لمحوں کے قدم‘‘ کے آئینے میں ڈاکٹر معصوم شرقی کی نظم گوئی سے متعلق ایم نصراللہ نصر کی ناقدانہ رائے کچھ یوں ہے:’’موضوعاتی نظموں میں ان کی بیشتر نظمیں نظم نگاری کے تقاضے کو پوری کرتی ہیں۔ ہاں ان کو اور خوبصورت اور ندرت خیز بنانے کی سعی کی جاسکتی تھی ۔ انہیں اور اثر انداز بنایا جاسکتا تھا ، گلِ خندہ کو گلِ تر بنایا جاسکتا تھا لیکن ہر شاعر کی اپنی خصوصیت ہوتی ہے۔ اپنا اندازِ بیاں ہوتا ہے۔ معصوم شرقی صاحب نے اپنی بساطِ سخن گوئی کو بھرپور استعمال کیا ہے اور سادگی ، سنجیدگی اور رنگ آمیزی سی جو نظمیں تخلیق کی ہیں ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ بیشک ان کے نقوش تا دیر قائم رہیں گے۔‘‘
مندرجہ بالا اقتباسات کی روشنی میں یہ کہنا شاید مبالغہ آرائی نہ ہوگا کہ نصر کا شعور نقد انہیں بنگال کے ناقدین میں نمایاں مقام عطا کرتا ہے۔ وہ ارضِ بنگالہ کے ایسے فنکار ہیں جو مسلسل گیسوئے ادب کو سنوارنے میں مصروف کار ہیں۔ وہ ایک نہایت مہذب اور خلیق انسان ہیں جس کا عکس ہمیں ان کی تحریروں میں جابجا دیکھنے کو ملتا ہے۔ ادب کی دنیا کے وہ انجان سفیر نہیں ہیں۔ کم بولتے ہیں ، زیادہ پڑھتے ہیں اور دل سے لکھتے ہیں۔ زبان و بیان میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ ان کی نثر کی زبان سلیس اور رواں دواں ہے۔ وہ کسی بھی قلمکار کا تجزیہ منصفانہ ڈھنگ سے کرتے ہیں۔ متوازن ذہن کے مالک ہیں جس کی جھلک ان کی تحریروں میں اکثر دکھائی دیتی ہے ۔ مجھے امید ہے کہ ادبی حلقوں میں اس کتاب کی خاصی پذیرائی ہوگی اور ان کی ادبی حیثیت اور مستحکم ہوگی۔ اخیر میں اس کتاب کے مرتب شکیل انور کو میں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور یہ امید بھی کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے کو اسی حوصلے و ہمت کے ساتھ جاری و ساری رکھیں گے۔
(رابطہ۔ 9163194776)
[email protected]