سرینگر // گردوں کے عالمی دن کے موقعے پر ماہرین کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں گردوں کی بیماری کافی تیزی سے پھیل رہی ہے جسکی اصل وجہ شوگر اور بلڈ پریشر ہے ۔ ماہرین کامزید کہنا ہے کہ وادی میں گردوں کی بیماری کی سب سے بڑی وجہ ڈاکٹروں کی صلاح کے بغیر ادویات کا استعمال کرنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گردوں کی بیماری خواتین میں دوران زچگی پیدا ہوتی ہے اور اسلئے مردوں کے مقابلے میں خواتین میں گردوں کی بیماری مردوں کے مقابلے میں 2فیصدزیادہ پائی جاتی ہے۔امسال عالمی یوم خواتین کے ساتھ ساتھ 8مارچ 2018کو گردوں کا عالمی دن بھی منایا جارہا ہے اور اسلئے گردوں کے عالمی دن کا موضوع ’’ گردے اور خواتین کی صحت‘‘ مقرر کیا گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق گردوں کی خرابی کی وجہ سے ہر سال پوری دنیا میں 6لاکھ لوگ فوت ہوجاتے ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین کی ہوتی ہے۔ گردوں کے عالمی دن پر بات کرتے ہوئے شیر کشمیر انسٹیچوٹ آف میڈیکل سائنسز صورہ میں شعبہ نیفرولاجی کے سربراہ ڈاکٹر محمد اشرف بٹ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’کشمیر میں ہر دس افراد میں سے ایک گردوں کی بیماری میں مبتلا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ گردوں کی بیماری کی اصل وجہ بلڈ پریشر اور شوگر کی بیماری ہے مگر یہ بیماری دیگر وجوہات کی وجہ سے بھی ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں گردوں کی بیماری کی سب سے بڑی وجہ ڈاکٹروں کی صلاح کے بغیر ادویات کا استعمال ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین میں سب سے زیادہ گردوں کی بیماری ہوتی ہے جسکی سب سے بڑی وجہ موٹاپا، ذہنی دبائو، زچگی کے دوران خون آنا اور دیگر وجوہات ہیں۔وادی مین زچگی کی معروف معالجہ ڈاکٹر فرحت جبین کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین میں گردوں کی بیماری میں مبتلا ہونے کے زیادہ امکانات رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر چہ اس حولے سے ہمارے پاس کوئی بھی اعدادوشمار موجود نہیں ہیں تاہم دوران حمل کئی خواتین گردوں کی بیماری کی شکار ہوجاتی ہیں ۔ انہوں نے کہا’’ حاملہ خواتین میں ذہنی دبائو ، بلڈ پریشر اور زچگی کے دوران زیادہ خون آنا ، گردوں کی بیماری کی بڑی وجوہات بن کر ابھرتی ہے ۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ زچگی کی کے دوران حاملہ خاتون کی بہتر دیکھ بال ، پرائمری ہیلتھ سینٹروں اور ضلع اور سب ضلع اسپتالوں میں بیماری کا بروقت پتا لگا نے سے بیماری کو روکا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر فرحت جبین نے بتایا ’’ ریاستی اور ملکی سطح پر اس بیماری سے نپٹنے کیلئے ایک جامع منصوبہ ترتیب دیا جانا چاہئے تاکہ شروعات میں ہی بیماری کا پتہ لگا کر مخصوص علاج کیلئے مریضوں کوخصوصی شعبہ جات میں منتقل کیا جاسکے۔