سرینگر//جنوبی کشمیر کے شوپیاں علاقے میں فوج کی طرف سے ایک ذہنی مریض کو نشانہ بناکر ابدی نیند سلانے کے واقعے نے ایک بار پھرسرکاری فورسز کے’’معیاری عملیاتی طریقہ کار‘‘ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے،جبکہ مشتبہ نقل و حرکت کے دوران فوج کے ایس ائو پی میں3بار زور سے ہاتھ اپر کرنے کی انتباہ کے بعد ہوا میں بطور وارنگ گولی چلانا شامل ہیں۔اس دوران گزشتہ15برسوں میں قریب زائد از15ذہنی مریضوں کو فورسز نے گولیوں سے بھون ڈال،جبکہ شوپیاں واقعے میں فوج کا کہنا ہے کہ اگر چہ معیاری عملیاتی طریقہ کار کا تعاقب کیا گیا تاہم ،مہلوک شخص نے کوئی بھی ردعمل پیش نہیں کیا۔ شوپیاں کے پہنو علاقے میں قائم فوجی کیمپ سے وابستہ اہلکاروں کی طرف سے2اور3نومبر کی درمیانی شب کو معذور اور مفلوج شخص رئیس احمد وانی ولد عبدالحمید وانی ساکنہ بیگام کولگام کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا،جس کے بعد بشری حقوق تنظیموں کی طرف سے ایک بار پھر فورسز پر معیاری عملیاتی طریقہ کار کی عملداری نہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔پہنو شوپیاں میں پیش آیا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے،جب فورسز نے کسی ذہنی مریض کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا،بلکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ15برسوں میں زائد از 15ذہنی مریضوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ذرایع کا ماننا ہے کہ امسال 19فروری کو بڈگام میں ائر فورس اسٹیشن میں تعینات اہلکاروں نے سویہ بگ کے عام شہری اور6بچوں کا باپ سید حبیب اللہ شاہ کو گولی مار کر ہلاک کیا،جبکہ پولیس نے کہا کہ دماغی طور پر معذور یہ شخص سیکورٹی ائریا میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا،اور بار بار کے انتباہ کے بعد بھی نہیں رکا۔ رواں برس میں یہ دوسرا واقعہ ہے جب کسی ذہنی مریض کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا۔ 6جنوری2009کو فوج نے سرینگر کے حساس علاقے گپکار روڈ پر اس وقت کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ لکہ رہائش گاہ سے چند سو میٹر کی دوری پر ایک گونگے اور بہرے شخص عبدالرشید ریشی کو گولی مار کر ہلاک کیا،جبکہ5جنوری2011کو لولاب کپوارہ میں ایک غیر شناخت شدہ ذہنی مریض کو گولی مار کر خاموش کیا گیا۔ سوپور کے وٹلب علاقے میں بھی26 اکتوبر2007کو عقیل احمد میر نامی ذہنی مرض میں مبتلا نوجوان کو اس وقت گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا گیا،جب وہ مبینہ طور پر فورسز کیمپ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ سال2008میں11اپریل کو بونیار اوڑی میں شکیل احمد ملک نامی نوجوان کو نشانہ بنایا گیا،جبکہ فوج نے اس واقعے کو بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذکورہ نوجوان فوجی کیمپ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ سرینگر کے آبی گزر میں5ستمبر2005کو ایک غیر شناخت شدہ نوجوان کو فورسز نے گولی مار کر ہلاک کیا۔ذرائع کے مطابق16مارچ کو فورسز نے بانہال کے نوگام علاقے میں فوجی کیمپ کے ارد گرد چکر لگانے والی ایک خاتون کو گولی مار کر ہلاک کیا،جس کی شناخت نہ ہوسکی،تاہم بعد میں پتہ چلا کہ وہ ذہنی مریضہ تھی،بانہال ہی میں یکم مارچ2004کو جھڑپ کے دوران ایک ذہنی مریضہ شمیمہ بیگم بھی جان بحق ہوئی۔13اپریل2004کو فورسز نے اسلام آباد(اننت ناگ) میں ایک ذہنی مریض نذیر احمد چکو کو گولی مار کر ابدی نیند سلادیا،جبکہ10اگست2004کو شوپیاں کے زینہ پورہ علاقے میں ذہنی مریض غلام حسن چوپان فوجی کیمپ کے نزدیک مارا گیا۔2004میں ہی25ڈسمبر کو سرحدی حفاطتی فورس کے اہلکاروں نے ترال میں ایک ذہنی مریض شمشاد احمد گنائی کو ہلاک کیا۔ سال2005میں گاندربل کے گنوان کنگن علاقے میں24جون کو فوج نے ایک ذہنی مریض کو گولی مار کر ہلاک کیا،اور بعد میں اس پر معذرت بھی ظاہر کی،جبکہ13مئی2006کو فوج نے محمد عبداللہ شٰیخ نامی ایک ذہنی مریض کو گولی مار کر خاموش کیا۔2006میں16جولائی کو فورسز نے ہندوارہ کے براری پورہ میں ایک ذہنی مریض محمد عبداللہ وانی کو گولی مار کر ہلاک کیا اور بعد میں اس کو غلط شناخت کا نتیجہ قرار دیا۔2011سال کے7اگست کو پولیس نے سرنکوٹ میں لشکر طیبہ کے ایک اعلیٰ کمانڈر کو جھڑپ کے دوران ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا،تاہم بعد میں معلوم پڑا کہ ایک لڑکا ،جو ذہنی مرض میں مبتلا تھا،کو ہلاک کیا گیا۔ فوج کا کہنا ہے کہ وادی میں’’ سیکورٹی تنصیبات کے گرد نواح میں مشتبہ نقل و حرکت‘‘ کیلئے معقول معیاری عملیاتی طریقہ کار موجود ہے،اور سنیچر کو اس ایس ائو پی کا شوپیاں میں بھی تعاقب کیا گیا،تاہم’’ متحرک فوجی اہلکاروں کے انتباہ کو مذکورہ شخص نے نظر انداز کیا اور کوئی جواب نہیں دیا‘‘۔ فوجی حکام نے بتایا کہ معیاری عملیاتی طریقہ کار کی عملداری کے دوران مہلوک شخص کو پہنو شوپیاں میں رات کے قریب3بجے فوجی کیمپ کے نزدیک بڑھنے کے دوران زبانی طور پر زور سے خبردار کیا گیا،جبکہ انہوں نے تار کو بھی پھاند دیا۔ان کا کہنا تھا’’ بار بار زور سے انتباہ کرنے کے باوجود،مذکورہ شخص نہیں رکا،اور متحرک سنتری نے انہیں کم از کم3مرتبہ ہاتھ اپر کرنے کیلئے کہا،جو کہ معیاری عملیاتی طریقہ کار کا حصہ ہے،اور اس کے باوجود اس شخص نے کوئی بھی ردعمل ظاہر نہیں کیا‘‘۔فوجی حکام نے بتایا کہ جب مذکورہ شخص بدستور کیمپ کے نزدیک آرہا تھا تو مستعد جوان نے ہوا میں بھی بطور انتباہ گولی چلائی،اور اس کو بھی نظر انداز کرنے کے بعد فوجی اہلکار کے پاس مشتبہ نقل و حرکت کرنے والے شخص کو گولی مارنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔فوجی افسر نے معیاری عملیاتی طریقہ کار کو فورسز کی طرف سے نظر انداز کرنے کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا’’ کسی بھی خلاف ورزی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،اور یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ کوئی شخص ذہنی مریض ہے،جبکہ عسکریت پسند بھی فوجی کیمپوں کے نزدیک آکر گولیاں چلاتے ہیں۔