ڈاکٹر احسان عالم
شمیم الدین احمد علی اپنے قلمی نام شمیم قاسمی سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی کئی شعری اور نثری تخلیقات منظر عام پر آچکی ہیں۔ شعری اور نثری دونوں اصناف میں مہارت رکھتے ہیں۔جہاں اپنے اشعار کے ذریعہ وہ اپنے احساسات و جذبات کی نغمگی پھیلاتے ہیں وہیں اپنی نثروںمیں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ان کی صرف ایک کتاب ’’خاشاکِ تنقید‘‘ میرے مطالعہ میں رہی ہے۔ کئی روز کے مطالعے کے بعد اپنے قلم کو جنبش دینے کی جسارت کر رہا ہوں ۔ ویسے ان کی غزلیں فیس بک پر لمبے عرصے سے پڑھتا آرہا ہوں ۔ان کے اشعار کافی متاثر کرتے رہے ہیں۔ زیر مطالعہ کتاب ’’خاشاکِ تنقید‘‘ میں کل 23مضامین شامل ہیں۔ پہلا مضمون ’’لے سانس بھی آہستہ ۔تخلیقی بیانیہ کا نقطہ اشتعال‘‘ کے عنوان سے اس کتاب میں موجود ہے ۔ ’’لے سانس بھی آہستہ ‘‘ مشہور و معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی کی تخلیق ہے۔ مشرف عالم ذوقی کے اس ناول پر منفرد انداز میں اپنے لفظوں کے جادو جگاتے ہوئے شمیم قاسمی لکھتے ہیں:’’روز مرہ کی روایتی زندگی کے تانے بانے بنتا، جمالیاتی لطافت کی دھیمی دھیمی آنچ پر اپنے خدو خال واضح کرتا زیر مطالعہ ناول کے دو اہم کردار عبدالرحمن ابن وسیع الرحمن کاردارؔ اور نورؔ محمد ابن نظر محمد کے گھرانے کی داستان خوں چکاں کو آئینہ دکھاتا ہے۔ ناول کے سبھی کرداروں کی اپنی مخصوص نفسیات ہے ان کی ذاتی زندگی کے نشیب و فراز ہیں۔ ‘‘(ص:10)کتاب میں شامل دوسرا جامع مضمون ’’خوشبوئوں کا جال۔ ایک مطالعہ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ یہ کتاب عشرت ظہیر کے فکر و نظر کا نتیجہ ہے۔ شمیم قاسمی اس مضمون کے حوالے سے مطالعہ طلب تخلیق رقم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عشرت ظہیر جدیدیت کے ہنگامی دور یعنی ساتویں دہائی میں بھی ایک اعتدال پسند افسانہ نگار کے طور پر ابھرے ہیں۔ جدیدیت کے نام پر غیر ضروری ابہام اور فیشن پرستی کے وہ نہ تو کل قائل تھے اور نہ آج۔ ان کے یہاں جدیدیت کی شدت پسندی کے ابتدائی نقوش یعنی گڑھی ہوئی انوکھی علامات اور تجریدی رویۂ اظہار سے اجتناب برتنے کے رجحان کا صاف پتہ چلتا ہے۔
سلمان عبدالصمد نئی نسل کے معتبر قلم کار ہیں۔ ان کا ناول ’’لفظوں کا لہو‘‘ کافی مقبول ہوا ۔ اس ناول پر انہیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ ان کے اس ناول پر اپنی تحریر رقم کرتے ہوئے شمیم قاسمی لکھتے ہیں:’’پیش نظر ناول میں بیک وقت شہر اور گائوں سانسیں لیتاہوا محسوس ہوتا ہے۔ سبھی اپنے اپنے دامن کی آگ بجھانے اور درپیش مسائل کے تدارک کے لئے ہاتھ پائوں مارتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ تلاش آب ودانہ اور ایک روشن مستقبل کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے گائوں کے معصوم افراد شہر میں منتقل ہورہے ہیں تو شہری زندگی کے عذاب اور کشاکش سے نجات حاصل کرنے کے لئے گائوں کا رخ اختیار کرنے کی سوچ بھی رکھتے ہیں۔ لاشعور طور پر اس ناول میں ’’گھر واپسی‘‘ کو ایک نیا زاویۂ نظر دیا گیا ہے۔‘‘ (ص:53)’’ناکجا آباد‘‘ زاہدہ حنا کی بہت ہی مقبو ل ترین کہانی ہے۔ ان کی کہانیوںمیں سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت اور آفاقی مسائل غالب نظر آتے ہیں۔ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے شمیم قاسمی لکھتے ہیں کہ زاہدہ حنا وسیع المطالعہ رہی ہیں۔ ناقدریٔ زمانہ کے باوجود گذرے ہوئے زمانوں اور سہسرام کے شاندار ماضی کو وہ بھلا نہیں پائی ہیں۔ اپنی ہستی کے جولان گاہ سے اپنے اسلاف کے شاندار ماضی کو پر ے نہ کرسکیں۔ گذشتہ زمانے کی کھٹی میٹھی یادوں ، باتوں، تاریخی عمارتوں کو انہوں نے اپنے افسانے میں جگہ دی ہے۔ ’’شکاری آنکھوں کا شاعر۔ سلطان اختر‘‘ کے عنوان سے شمیم قاسمی نے عمدہ مضمون قلمبند کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سلطان اختر کے فوراً بعد والی نسل تو انہیں نہ صرف ’’سلطانِ جدید غزل‘‘ قرار دیا بلکہ ان کے شعری ڈکشن سے ایک لحاظ تک استفادہ بھی کیا۔
’’ایک مخصوص خطۂ ارض کا سفرنامہ‘‘ کے عنوان سے انور آفاقی کے سفر نامہ ’’دیرینہ خواب کی تعبیر ‘‘ پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے شمیم قاسمی لکھتے ہیں کہ ’’دیرینہ خواب کی تعبیر‘‘ (وادیٔ کشمیر کا سفرنامہ) جو پیش نظر ہے۔ سفر نامہ کے سیاح کا نام ہے انور آفاقی۔ موصوف ایک منجھے ہوئے نثر نگار اور خوش فکر شاعر ہیں۔ اپنے تخلیقی مراقبہ سے جب کبھی باہر کی دنیا میں آتے ہیں تو خیال و فکر کی مہتابی سے اپنے قارئین کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتے ہیں۔
پروفیسر عبدالمنان طرزی عالمی شہرت یافتہ شاعر ہیں۔ ان کی تقریباً پچاس کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ایک دو کتابوں کو چھوڑ کر تمام کتابیں منظوم ہیں۔ شمیم قاسمی نے ’’لاک ڈائون کی شاعری اور بیانِ طرزی‘‘کے عنوان سے ایک مضمون رقم کیا ہے۔ ان کی شخصیت اور شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں:’’پروفیسر طرزی کی باوقار پہلو دار شخصیت سے کون واقف نہیں ؟معاصر اردو تنقید کے باب میں ان کی عہد ساز منظوم تنقید ی صلاحیت اور علمی لیاقت کا ایک زمانہ معترف ہے۔ وہ تمام عمر شعروادب کو عبادت کا درجہ دیتے رہے ہیں۔ اٹھتے ، بیٹھتے ، سوتے جاگتے ، یہاں تک کہ کرو ناز وہ لمحات یعنی لاک ڈائون پیریڈ میں بھی جدید شاعری کی بف لٹ کو نہارنے ، گیسوئے ادب کو سنوارنے کا بڑے خوش گوار موڈ میں فریضہ انجام دیتے رہے ۔ ‘‘(ص:105)
’’شاعروں کا شاعر ڈاکٹر محبوب راہی ۔ ایک مطالعہ‘‘ کے عنوان سے شمیم قاسمی اپنا تنقیدی رنگ بکھیرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہند وپاک کے تقریباً تمام ادبی و نیم ادبی رسائل و جرائد یہاں تک کہ علاقائی اخبارات وغیرہ میں مسلسل اور بے تحاشہ لکھنے یعنی پرنٹ میڈیا میں بنے رہتے ہوئے اپنی ایک الگ پہچان اور چھاپ چھوڑنے والے شعرا ء وادباء میں ڈاکٹر محبوب راہی کا کام اور نام بلاشبہ محتاج تعارف نہیں۔ تقریباً تمام مروجہ اصناف ادب پر طبع آزمائی کرنے والے کسی شاعر وادیب کا جب بھی ذکر چھڑے تو یہاں بھی محبوب راہی کی محبوبیت اور قدآوری چھپائے نہیں چھپتی۔علامہ کیف سہسرامی کی شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے شمیم قاسمی اپنے تنقیدی افکار کی عکاسی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت کیف سہسرامی کی شاعری کی عمر تقریباً چار دہائیوں سے زائد رہی ہے۔ اس درمیان آپ کے خیالات و نظریات میں کئی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں لیکن آپ کی شاعری نے کبھی شاعرانہ وصف کا دامن ہاتھ سےجانےنہ دیااورغزل کی رمزیت کو ہر جگہ برقرار رکھا۔
کہکشاں توحید کی کئی کہانیاں بچوں کے معروف رسائل کھلونا، پیام تعلیم، مسرت اور سہسرام سے بچوں کا ماہنامہ ’خوشبو‘ وغیرہ میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ محترمہ کے ایک ناولٹ ’’ذرا سی زندگی‘ ‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے شمیم قاسمی لکھتے ہیں کہ کہکشاں توحید کی زیرمطالعہ تازہ تخلیقی کتاب کانام ’’ذرا سی زندگی‘‘ ہے، جسے انہوں نے ناول ؍ ناولٹ کے طور پر پیش کیا ہے ۔ یہ ایک طویل کہانی ہے جو ایک مخصوص گھر کی چہار دیوار اور ایک مخصوص تہذیب و کلچر میں مختلف ڈرامائی واقعات و سانحات سے اپنے بال و پر نکالتی ہوئی اپنے وجود کے اثبات و نفی کا جواز فراہم کرتی نظر آرہی ہے۔
ڈاکٹر منصور عمر ایک نوجوان ادیب ، شاعر اور صحافی ہیں۔ ان کی ایک ترتیب کردہ کتاب بہار میں اردو صحافت : سمت و رفکار ‘‘کے عنوان سے ہے۔ اس کتاب پر تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے ’’بہار میں اردو صحافت کے خد و خال ‘‘ کے عنوان سے شمیم قاسمی نے لکھا ہے کہ ملک کی تقریباً تمام بڑی زبانوں نے صحافت کے میدان میں نمایاں رول ادا کیا ہے لیکن آج ہمیں اس کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ایک باوقار جمہوری معاشرہ کا تصور لئے قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں اردو صحافت کی بے لوث خدمات کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ہے۔ لفظ ’’انقلاب زندہ باد‘‘ دراصل اردو صحافت کی دین ہے۔ ’’سرفروشی کی تمنا‘‘ کو عوام کی آواز اور لاکھوں دلوں کی دھڑکن بنانے میں اردو صحافت کا بڑا عمل دخل ہے۔
کیف عظیم آبادی کی شعری جمالیات پر روشنی ڈالتے ہوئے شمیم قاسمی لکھتے ہیں:
’’کیف عظیم آبادی کو تمام عمر زندگی سے والہانہ لگائو رہا۔ ’’گھر آنگن‘‘ سے قلبی لگائو رکھنا اور بال بچوں کے ایک خوشحال مستقبل کے لئے جدوجہد کرتے رہنا ان کے لئے مقصد حیات رہ ااورجب تک وہ اس روئے زمین پر رہے اپنا ’’نصب العین ‘‘ کبھی نہیں بھولا۔ ‘‘(ص:178)
’’عہد وسطی میں ہندوستان کے مسلم حکمراں ‘‘ پرویز اشرفی کی کتاب ہے۔ وہ بنیادی طور پر ایک روایت پسند افسانہ نگار ہیں ۔ ان کے چار افسانوی مجموعے ’’آخری پڑائو کا کرب‘‘، ’’ماں کی آنکھ سے ٹپکتا خون‘‘ ، ’’روپڑا آسمان‘‘ اور ’’ذرا یاد کرو قربانی‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں ایک مقصد حیات ہے ۔ ان کا ایسا ماننا ہے کہ داستان موضی کے مطالعہ کے بغیر قوم و ملت کے روشن مستقبل کی تعمیر ممکن نہیں۔
’’دربدر ‘‘ کا شاعر پروین کمار اشک‘‘ کے عنوان سے ایک اچھا مضمون شمیم قاسمی نے قلمبند کیا ہے۔ اس سلسلے میں شمیم قاسمی لکھتے ہیں کہ اشک ایک حساس دل، حساس طبیعت کا مالک ہے۔ موصوف اپنے تخلیقی سفر کے دوران ہمیں اپنی شعری بصیرتوں کا واضح احساس کراتا ہے۔ اس کی بدولت ہم زندگی کی تہہ بہ تہہ سچائیوں سے آنکھیں ملانے کا ہنر سیکھتے ہیں۔ ان کی شاعری بہت فطری ہے۔ گھٹن، نفرت ، مایوسی اور تعفن کی فضا میں اشک کے اشعار ہوا کے تازہ جھونکوں کی مثال معلوم ہوتے ہیں۔ حسن رہبر ایک معتبر افسانہ نگار ہیں۔ ان کی کہانیوں کا رشتہ عام قاری سے بڑا اٹوٹ رہا ہے۔ وہ عام انسانوں کی کہانیاں اپنے آس پاس کے ماحول سے اٹھاتے ہیں۔
اس کے علاوہ ’’کرشن چندر کا نیا پرانا کشمیر‘‘، کچھ محفل خوباں کی :میری نظر میں‘‘ ، ’’ناز برداران اردو پر ایک نظر‘‘ اور ’’زمین نثر میں ریزہ خیالی کے شگوفے‘‘ بھی توجہ طلب مضامین ہیں جو شمیم قاسمی صاحب کے فکر ونظر کے نتیجے میں تخلیق کئے گئے ہیں۔
اس طرح شمیم قاسمی کی یہ کتاب ’’خاشاکِ تنقید‘‘ مطالعہ طلب کتاب ہے۔ کتاب کی زبان منفرد ہے۔ پڑھتے وقت قارئین ایک خاص دلچسپی میں ڈوب جاتاہے ۔ کتاب کی اشاعت کے لئے محترم شمیم قاسمی صاحب کو بہت بہت مبارکباد اور ان طویل عمر کی دعائیں۔
رابطہ۔9431414808