دہائیوں پرانی روایات کے عین مطابق ٹھیک دو دن بعد ریاست کا سیول سیکریٹریٹ چھ مہینے کی طوالت کے بعد ایک بار پھر سرینگر میں کھلنے جا رہا ہے اور حسب روایت سرینگر کی خشم آلودہ سڑکو ں اور ویران و پریشان عمارتوں کو رنگ و روغن کرنے کا عمل ایک بار پھر زوروں پر ہے ۔ ایسے دور میں جب پوری دنیا کے ایک گلوبل ولیج ہونے کا محاورہ ہر بندے کی زبان پر ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے کتابوں، فائیلوں اور تحریری دستاویزات کی اہمیت کافی حد تک ختم ہو گئی ہے جموں کشمیر کے بد نصیب لوگوں کی خوش نصیب فائلیں سال میں دو بار سرینگر سے جموں اور جموں سے سرینگر کے پُر خطر راستے پر دلہن جیسی سجی گاڑیوں میں سوار ہو کر ریاست کے لوگوں کی بے بسی کا مذاق اڑاتی رہتی ہیں ۔ اگریوں کہیں کہ سیول سیکریٹریٹ عام آدمی کے ارمانوں ، جذبات ، احساسات اور حقوق کا قبرستان بن چکا ہے تو بیجا نہ ہوگا ۔ جہاں عام آدمی پہلے ہی سیول سیکریٹریٹ کی ہر بار منتقلی کو لیکر مختلف مشکلات کا شکار ہے وہاں یہ بات عیاں ہے کہ اس فرسودہ روایت کی وجہ سے خو د سیول سیکریٹریٹ کا کام کاج لگ بھگ سال بھر متاثر رہتا ہے ۔ اگر چہ دربار مو کی اس فضول روایت کو ختم کرنا ریاستی سرکار کیلئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے لیکن سیاسی مصلحت پسندیوں اور مجبوریوں کی وجہ سے شائد ایسا کرنا کسی کیلئے کسی بھی جماعت یا حکمران کیلئے ممکن نہیں ہے کیونکہ بد قسمتی سے ہر معاملے کی طرح یہ معاملہ بھی جموں بمقابلہ کشمیر کی روایتی بحث کی نظر ہو جاتا ہے ۔ یہ بات ذہن میں رکھنے کے قابل ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ کی طرف سے 1872ء میں شروع کی گئی اس عجیب و غریب رسم کا ما سوائے اس چیز کے کہ وہ اور ان کے وزراء کشمیر میں سردیوں سے بچے رہیں اور گرمیوں میں کشمیر کے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو جائیں کچھ بھی نہیں تھا ۔ شخصی حکمران ویسے بھی لوگوں کا خون چوسنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے تھے لہذا اس روایت کا لوگوں کی مشکلات سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ عوامی حکومتوں کے معرض وجود میں آنے کے بعد اس روایت کو ختم کیا جانا چاہئے تھا اور سرینگر کو ریاست کا مستقل دارالخلافہ بنایا جانا چاہیئے تھا لیکن ایسا ابھی تک ممکن نہ ہو ا ۔ پوچھا جا سکتا ہے اگر جموں کشمیر سے کئی گنا بڑی ریاستوں بشمول اتر پردیش، مدھیا پردیش اور مہاراشٹرا کو ایک ہی دارالخلافہ سے چلایا جا سکتا ہے اور ہندوستان جیسے بڑے ملک کیلئے دلی کو واحد دارالخلافہ کے طور خوش اصلوبی کے ساتھ استعمال میں لایا جا سکتا ہے تو جموں کشمیر جیسی پسماندہ ریاست کو دربا مو کے نام پر لوٹنے کا کیا جواز ہے ۔ سرینگر کو مستقل دارالخلافہ بنانے کی ایک سے زیادہ مضبو ط دلائل دی جا سکتی ہیں ۔ یہ بات ہر کسی کو ذہن میں رکھنی چاہئے کہ مہاراجہ کے وقت جب ریاست کی تشکیل دی گئی تو اس سے جموں کشمیر نہیں بلکہ صرف کشمیر کہا جاتا تھا اور لداخ آج بھی سرکاری ریکارڈ کے مطابق کشمیر صوبے کا ہی حصہ ہے ۔ اگر انتظامیہ کا مقصد عوام کی مشکلات کا ازالہ کرنا مطلوب ٹھہراتا ہے تو عیاں ہے کہ سردیوں میں سیول سیکریٹریٹ کشمیر میں موجود رہنا چاہئے تاکہ بھاری برفباریوں کے دوران لوگوں کی مشکلات کا ازالہ ہو سکے اور گرمیوں میں جموں خطہ میں انتظامیہ کی موجودگی واقعی ہر لحاظ سے کار آمد ثابت ہو سکتی ہے لیکن ہوتا ہے اس کے بر عکس کیونکہ جب سردیوں میں کشمیریوں کو انتظامیہ کی ہر لمحہ ضرورت رہتی ہے تو ان کی دادرسی کرنے والے حکمران جموں کی معتدل آب و ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اسی طرح گرمیوں میں اہل جموں کو تپتی ہوئی گرمی سے بجانے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ سرکار اگر مغل روڑ اور کشتواڑ سمتھن روڑوں کی حالت کو بہتر بنائے تو نہ صرف یہ کہ جموں خطہ کی 80فیصدآبادی کیلئے جموں کی نسبت کشمیر آنا آسان ہوگا بلکہ دربار مو کی اس بلا جواز مشق سے بھی بچا جا سکتا ہے ۔ عجیب بات ہے کہ جہاں محمد تغلق کا اس کے دور میں راجدھانی کی منتقلی کو لیکر آج بھی اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے وہاں محمد تغلق کی ہو بہو نقل کرنے والے ہمارے حکمران دربار مو کے نام پر نہ صرف محمد تغلق کے جانشین بن جاتے ہیں بلکہ خزانہ عامر کو بھی دو دو ہاتھو ں سے لوٹنے کے باوجود اس رسم کیلئے داد تحسین وصول کرتے ہیں ۔ اگر ان دونوں شاہرائوں پر ٹنلیں تعمیر کی جائیں تو چناب ویلی اور پیر پنچال خطہ اور سرینگر کے درمیان دوریاں ختم ہو جائیں گی لیکن سرکار عیاں وجوہات کی بنا پر ایسا نہیں کر رہی ہے اور اس کی غالب وجہ جموں کی چند فرقہ پرست طاقتو ں کا ہر معاملے کو اپنے مخصوص زاویہ سے دیکھنا ہے ۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ لگ بھگ ہر سرکاری ملازم، محکمہ کے سربراہ ، ایم ایل اے حضرات اور منسٹر صاحبان کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں کے عہدیدارو ں سے لیکر گھر سے فرار سیاسی گماشتو ں تک کو دربار موو کے نا م پر سرینگر اور جموں دونوں جگہو ں پر عالیشان کوٹھیاں الاٹ کی گئی ہیں ۔ کوٹھیاں تو کوٹھیاں پھر ان کوٹھیو ں کیلئے کم ازکم چھ ماہ تک بلا وجہ سرکار کو سیکورٹی ، بجلی ، پانی اور آرائش وغیرہ کے نام پر اضافی اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں ۔ جہاں کشمیر کے بیوروکریٹ سردیوں میں اپنے رشتہ داروں کو جموں کی سیر کروانے کیلئے سرکاری گاڑیوں اور دیگر چیزوں کا بے دریغ اور کھل کر استعمال کرتے ہیں وہاں جموں خطہ کے ان کے ہم منصب بھی جموں کی گرمی سے بچنے کیلئے اپنے رشتہ داروں اور یاروں دوستوں کو یہاں لا کر سرکار خزانہ عامرہ کو دو دو ہاتھوں سے لوٹے کا فرض نبھا رہے ہیں ۔ ایسے میںعام آدمی چاہے جموں کا ہو یا لداخ کا در در کی ٹھوکریں کھانے کیلئے خود کو مجبور پاتا ہے اور اکثر اوقات معمولی کاموں کیلئے بھی اس سے اس قدر جستجو کرنی پڑتی ہے جتنی کہ شاید فرہاد نے بھی شیرین کی خواہشات پوری کرنے کیلئے نہیں کی ہونگی ۔ تاہم سرکار اور سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مفادات سے ذرہ بھر بھی اوپر اٹھ کر اس معاملے کا کوئی حل نکالنے کی کوشش کریں ایسا دور دور تک نظر نہیں آتا۔ اگر دربار مو کی فرسودہ روایت کو ختم کرنا ان مگر مچھوں کی ترجیح نہیں بن سکتی تو کم از کم انہیں چاہئے کہ انتظامی امورات میں بنیادی اور انقلابی تبدیلیاں لا کر ریاست کے بے بس عوام کے ساتھ کسی حد تک انصاف کریں۔ اگر سرکار چاہے تو جموں اور کشمیر میں مختلف محکموں کے صوبائی سربراہان کی طرز پر اہم محکموں کے لئے کمشنر سیکریٹری کے اضافی پوسٹ قائم کرکے جموں اور سرینگر میں انہیں ہمہ وقت تعینات کیا جا سکتا ہے ۔ ایسا کرکے دربار مو کی بے سود مگر مہنگی روایت سے کافی حد تک نہ صرف بچا جا سکتا ہے بلکہ عوام کے بیشتر مسائل بھی اپنے اپنے صوبوں کے سیول سیکریٹریٹوں کی چار دیواریوں کے اندر ہی نپٹائے جا سکتے ہیں ۔ منسٹر حضرات ویسے بھی پوری ریاست میں گھومنے کیلئے آزاد ہیں اور وہ جب چاہیں کہیں بھی جا سکتے ہیں ۔اس تجربے کو آگے چل کر اس صورت میں مستقل حل بھی بنایا جا سکتا ہے اور سرینگر کو ریاست کا مستقل دارالخلافہ قائم کرکے ریاستی لوگوں کے اوپر بہت بڑا احسان کیا جا سکتا ہے ۔ موجودہ حالات میں شاید اس سے بہتر کوئی اور حل نظر نہیں آتا ۔ عا م لوگوں پر بھی واجب ہے کہ وہ ہر چیز کو فرقہ پرستی اور علاقہ پرستی کی عینک سے دیکھنے کے بجائے واقعی میرٹ کی نظروں سے دیکھنے کی جی توڑ کوشش کریں تاکہ ریاست کو درپیش نازک چلینجوں کا بھی مقابلہ کیا جا سکے اور ریاست کی مکمل واحدانیت کو بھی قائم رکھا جا سکے۔ فی الحال جس طرح دربار مو کے نام پر ہر سال ریاست کے وسائل کا ضیاں کیا جاتا ہے اس کو رروکنے کی کسی کو فکر نہیں ۔ دانشور طبقہ ، سیاسی کارکنوں ، قلمکاروں اور دیگر صاحب رائے لوگوں کو چاہیئے کہ وہ دربار مو کے مسئلہ پر بحث و مباحثوں کا آغاز کریں تاکہ مستقبل قریب میں اس مسئلہ کا کوئی ایسا حل نکل آئے جس سے ریاست کے سارے لوگ قبول بھی کریںاورسرکاری وسائل کا بیجا استعمال روکا بھی جا سکے۔