اردو زبان وادب کے فروغ ،اس کی ترقی اور خدمات کے سلسلے میں جہاں دبستان دہلی،دبستان لکھنو اور دبستان عظیم آباد نے کلیدی رول ادا کیا ہے تو وہیں دبستان رام پور بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ان تمام دبستانوں کا اردو زبان کو نکھارنے سنوارنے میں خاصا عمل دخل رہا ہے۔ڈاکٹر شریف احمد قریشی کا تعلق رام پور سے ہے۔وہ اگر چہ 15 جولائی 1953 کوبمقام قصبہ گھاٹم پور،ضلع کانپور (یوپی) میں پیدا ہوئے لیکن رام پور کی سرزمین نے ان میں علم وادب کے جوہر پیدا کیے۔ابتداہی سے نہایت ذہین اور باصلاحیت رہے ہیں۔علم وادب سے والہانہ لگاو ہونے کی وجہ سے نہ صرف اردو میں ایم اے،بی ایڈ اور پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی بلکہ ہندی میں بھی ایم اے کیااوراسکے بعد ’’اردو کہاوتوں کی جامع فرہنگ‘‘کے موضوع پر 2012میں روہیل کھنڈ یونیورسٹی بریلی(یوپی)سے ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔ایک طویل عرصے تک گورنمنٹ رضاپوسٹ گریجویٹ کالج رام پور میں اردو کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کرنے کے بعد اب ملازمت سے وظیفہ یاب ہوچکے ہیں۔موصوف کی شخصیت اردو ادب میں باغ وبہار کی سی ہے۔وہ نہ صرف ایک اچھے محقق ونقاد اور دانشور ہیں بلکہ ایک ایسے شاعر بھی ہیں جن کی شاعر ی میںگل وبلبل،ذلف جاناں اور لب ورخسار کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی حسن وعشق کا بیان ہے بلکہ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے غزل کا روایتی معنی ومفہوم بدل دیا ہے ۔ان کی شاعری براہ راست عصری مسائل ومعاملات اور آج کی مشینی زندگی میں انسان کی ذبوں حالی اور اقدار کی شکست وریخت پر دعوت فکر وعمل دیتی ہے۔ان کی غزلوں کے بیشتر اشعار ایسے ہیں جو قاری کے دل کو چھولیتے ہیں۔مثلا ان اشعار پر دھیان دیجیے:
جن کا خمیازہ بھگتنا پڑے نسلو ں کو کبھی
کام ایسے نہ کرو دوستو نادانی میں
۔۔۔
میں قاتل ہوں تڑپ کا،جوش کا،جذبے کا،گرمی کا
کبھی مردہ دلی کو زندگی کہتے نہیں بنتی
ڈاکٹر شریف احمد قریشی کے ان اشعار پہ دھیان دیجیے تو معلوم ہوگا کہ ان میں زندگی کی صداقتوں اور آفاقیت کا بیان موجود ہے۔شاعر کا احساس، مشاہدہ اور تجربہ اپنی فکری رفعتوں کے ساتھ ایک حساس اور سنجیدہ قاری کے دل پہ تازیانے کا کام کرتا ہے۔پہلے شعر میں شاعر نے انسان کی بے حسی کو موضوع بنایا ہے۔واقعی انسان جب وقت پہ دور اندیشی اور دانشمندی سے کام نہیں لیتا ہے تو لمحوں کی خطا صدیوں پہ بھاری پڑتی ہے۔لہذا اس شعر میں شاعر کا ناصحانہ اندازقاری میں ذہنی بیداری پیدا کرنے کے ساتھ یہ باور کراتا ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے۔دوسرے شعر میں شاعر کے ولولہ انگیز جذبے کادخول زندگی کوزندہ دلی قرار دیتے ہوئے بے حسی کو مردہ دلی سے تعبیر کرتا ہے۔تیسرا شعر انتہائی پر لطف اور خلوص بیکرں کا حامل ہے کہ جس میں شاعر کی تعمیری سوچ و تفکر اپنی لطف انگیزی کے ساتھ موجودہ دور کے انسان کی عیّارانہ ذہنیت پر گہرا طنز معلو م ہوتا ہے۔چونکہ آج کا انسان نفسا نفسی کے عالم میں جی رہا ہے،اس لیے اس کے دل میںجذبہء رحم وکرم کا فقدان ہے۔پیڑ لگواکر پھل سے محروم رہنا ایک خوب صورت شاعرانہ ترکیب ہے۔چوتھے شعر کی خوبی یہ ہے کہ اس میں شاعر نے صدا قت پسندی کے جذبے کوابھارا ہے،کیونکہ شاعر کا مزاج سیاہ کو سفید اورسفید کو سیاہ کہنے کا نہیں ہے۔پانچواں شعر بھی نہایت خوب ہے۔شاعر نے حسد ورشک ،بغض وعناد جیسی ذہنی خباثتوں پہ جس شاعرانہ انداز میں طنز کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔چٹھے شعر میں حسن کردار اور حسن سیرت کی بے قدری پر شاعر ماتم کناں ہے۔مغربی کلچر نے انسانی قدروں کو بری طرح پس پشت ڈال کرنفسانی خواہشات کی تکمیل کا سلسلہ شروع کیا ہے وہ انسانیت کش ہے اور ہر باشعور کے لیے لمحئہ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ساتویں شعر کا تعلق فرد اور سماج کی عیارانہ ذہنیت سے ہے۔خلوص،سچائی اور نیک نیتی نام کی کوئی بھی قدر باقی نہیں رہی ہے بلکہ شاعر کی نطر میں ہر شخص خود غرضی اور منافقت کا مکھوٹا پہنے پھر رہا ہے۔آخری شعر سے شاعر کااحساس عجز وانکساری ابھرتا ہے اور اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اچھا نام رکھنا اچھی بات ہے لیکن نام کی مناسبت سے شخصی جوہر کا پیدا ہونا بغیر محنت اور صبر کے ناممکن ہے۔بہر حال شریف احمد قریشی کے ان تمام اشعار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ موصوف نرم مزاج،وسیع فکر ونظر اور حیات وکائنات میں انسان کی عظمت ورفعت کے قائل ہیں۔وہ انسانی اقدار کے فقدان پہ ملول ومضطرب معلوم ہوتے ہیں۔ناصحانہ جذبات و احساسات سے مملو ان اشعار سے شاعر کی انسان دوستی،خلوص اور محبت واخوت کا درس تو ملتا ہی ہے لیکن اسکے ساتھ ہی فرد اور سماج کی عیّاری ،مکاری اور غدّاری کا ایک دل سوز رخ بھی عیاں ہونے لگتا ہے جو ایک حسّاس ،صاحب فہم وفراست شخص کے لیے مایوسی کے کئی باب کھولتا ہے۔ایک اچھے شاعر ہونے کے علاوہ ڈاکٹر شریف احمد قریشی ایک دیدہ ور محقّق ونقاد اور ماہر لسانیات بھی ہیں۔وہ بہت حد تک اردو ادب سمندر پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ان کی مطبوعہ کتب میں’’فرہنگ روح نظیر‘‘(1969)’’فرہنگ نظیر‘‘(1991)’’فرہنگ فسا نہء آزاد اور اس کا عمرانی اور لسانی مطالعہ ‘‘(2000)’’دید وباز دید‘‘(تنقیدی تبصروں کا مجموعہ 2002)’’ کہاوتیں اور ان کا حکایتی وتلمیحی پس منظر‘‘(2003)’’کہاوت کتھا کوش‘‘(ہندی) (2005)’’تلمیحات نظیر اکبرآبادی‘‘(2006)’’رانی کیتکی کی کہانی کی فرہنگ‘‘(2008)’’رام پور میں اردو افسانہ‘‘(2009)’’رانی کیتکی کی کہانی۔مقّدمہ‘‘(2010) اور ’’تیسری آنکھ‘‘(2010)اہم درجہ رکھتی ہیں۔ان کتب کے عنوانات ہی سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ شریف احمد قریشی نے انتہائی کٹھن اور دقّت طلب موضوعات پر کام کیا ہے اور یہ سارا کام بغیر عرق ریزی کے ممکن نہیں۔یہاںاس حقیقت کاذکر کرنا لازمی معلوم ہوتا ہے کہ عصر حاضر میں یونیورسٹیوں میںخاص کر ادبیات کے میدان میں جس طرح کے موضوعات پر تحقیق کروائی جاتی ہے وہ زیادہ تر کسی ادبی شخصیت کی ادبی خدمات سے متعلق ہوتی ہے۔لیکن شریف احمد قریشی چونکہ ایک کہنہ مشق تخلیق کار ہونے کے علاوہ باصلاحیت تحقیق کار بھی ہیں،اس لیے انھوں نے دقیق موضوع کا انتخاب کر کے اپنی تحقیقی صلاحیتوں کا ٹھوس ثبوت پیش کیا ہے۔انھوں نے دوران تحقیق لفظوں کی معنویت اور موزونیت پر خاص دھیان دیا ہے۔ان کے تحقیقی وتنقیدی مضامین ہندوستان کے تقریبا تمام اردو کے اہم رسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔اتر پردیش اردو اکادمی لکھنو،آل انڈیا میر اکیڈمی،بزم احباب رام پور،میر انیس لائبریری گھاٹم پور ضلع کانپور،بزم ہم مشرب رام پور کی جانب سے ڈاکٹر شریف احمد قریشی کوان کی علمی وادبی خدمات کے لیے انعامات واعزازات سے نوازہ گیا ہے۔ڈاکٹر موصوف کا علمی ادبی دائرہ کافی وسیع ہے۔ان کی مطبوعہ کتب نہایت ضخیم ہیں اور رسائل وجرائد میں اردو ادب کی قدآور شخصیات پر ان کے مضامین،تبصرے اور تجزیے ادبی لطافتوں،نزاکتوںاور معنی آفرینی کی خوشبو لیے ہوئے ایک سنجیدہ قاری کو جہان ادب کی سیر کراتے ہیں۔ہندی اور اردو ادب سے گہری واقفیت نے ان میں علم وادب کی ایک ایسی جوت جگائی ہے کہ جو ادب کے میدان میں خاص کرتحقیق کی دنیا میں قدم رکھنے والوں کے لیے مشعل راہ کا کام دے گی۔یقین نہ آئے تو ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تاریخ ساز کتاب’’کہاوت اور حکایت‘‘جو بڑی خوب صورت اور دیدہ زیب طباعت کے ساتھ منظر عام پر آچکی ہے، کا مطالعہ کیجیے تو بخوبی اس بات کا اندازہ ہوگا کہ ان کا تحقیقی نقطئہ نظر کس قدر صاف،واضح،ایماندارانہ،علم وآگہی اور سنجیدگی کا حامل ہے۔
ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی کتاب ’’کہاوت اور حکایت‘‘768صفحات پہ مشتمل میری نظروں میں ہے۔زیر نظر کتاب اردو اکیڈمی لکھنو کے مالی تعاون سے 2011میں شائع ہوئی ہے۔جس کا صوری ومعنوی حسن جازب نظر اور پرکشش ہے۔مواد کی فراہمی اور اس کی ترتیب وتہذیب میںتحقیق کار نے اس بات کاخاص خیال رکھا ہے کہ قاری از اوّل تا آخرکتاب کے مطالعے میں اس قدر مستغرق ہوجائے کہ اس کی دلچسپی بتدریج بڑھتی جائے۔چنانچہ کہاوتوں اور حکایتوں میں ایک ایسا ربط وتسلسل برقرار رکھنے کی شعور ی کوشش کی گئی ہے کسی بھی مقام پر ادبی چاشنی کا تسلسل منقطع نہیں ہوتا۔تمام کہاوتوں کو زیر نظر کتاب کی فہرست میںاس طرح شامل کیا گیا ہے کہ قاری جس بھی کہاوت کو دیکھنا یا سمجھنا چاہے تو بآسانی دیکھ اور سمجھ سکتا ہے۔جدید فکر وفلسفے کے باعث یا مختلف ادبی رجحانات کی ہوڑ میں محاورات اور ضرب الامثال کا استعمال کسی حدتک ترک کردیا گیا ہے لیکن یہاں یہ بات ذہن نشن رہے کہ محاورات اور ضرب الامثال کی اپنی اہمیت وافادیت رہی ہے۔زبان کو پرلطف بنانے یا اس میں چٹخارہ پیدا کرنے میں محاورات اور ضرب الامثال کا خاصا عمل دخل ہوتا ہے۔اس ضخیم اور معلومات سے پر کتاب میں شامل تمام کہاوتوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر کہاوت ایک مخصوص تاریخی و سماجی پس منظر سے جڑی ہوئی ہے۔فاضل مصنف نے حسن ترتیب کا خیال رکھتے ہوئے سب سے پہلے پیش لفظ میں اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ’’کہاوت اور حکایت‘‘ جیسے مشکل ترین موضوع پر تحقیق کرنے پر ان کے استاد محترم جناب پروفیسر محمد حسن نے تحریک دی جو اردو کے ایک ممتاز ادیب اور دانشور تھے۔مزید برآں مذکورہ موضوع کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔تشّکر وامتنان میں ان تمام ادب نواز دوستوں کا شکریہ کیا گیا ہے جنھوں نے مذکورہ کتاب کے مصنّف جناب شریف احمد قریشی کو مواد کی فراہمی میں یا موضوع سے متعلق اپنے ذرّیں خیالات سے نوازہ ہے۔ضرب المثل کیا ہے؟اس سے متعلق ڈاکٹر شریف احمد قریشی نے اردو ،ہندی اور انگریزی کے اہم نقّادوں اور ماہر لسانیات کے اقوال کے حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ دنیا کی تقریبا ہر ایک زبان میں کہاوتوں اور حکایتوں کا بیش قیمت سرمایہ موجود ہے۔مثلا ایک جگہ کہاوت اور ضرب المثل کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’تجربات ومشاہدات کا بے کنار سمندر جب چند مخصوص الفاظ کے کوزے میں سماجاتا ہے تو کہاوت یا ضرب المثل کا روپ اختیار کرلیتا ہے۔مختلف قسم کے نسلی تجربات و مشاہدات ،قصص وحکایات،عقائد ونظریات،حقائق وتوہمات،نفسیاتی ردّ عمل وفلسفیانہ خیالات،قوانین وضوابط،پند ونصائح، اقوال وملفوظات،تاریخی ونیم تاریخی واقعات و حادثات،لوک کہانیاں،شعری ٹکڑوں اور دوہوں وغیرہ کے ایسے قول عام کلیدی جملوں،فقروں یا کلمات وغیرہ کو جن میں اختصار اور معنوی زور بھی ہو کہاوت یا ضرب المثل کہتے ہیں‘‘.میرے خیال میں صاحب کتاب نے کہاوت یا ضرب المثل کی جو تعریف کی ہے وہ جامع اور مختصر ہے۔اس سے بڑھ کر اور کیا تعریف ہوسکتی ہے۔دراصل ضرب المثل انسانی تجربات ومشاہدات یا نفسیاتی ردّعمل کا ایک ایسا فوری اظہاریہ ہے جس میں صداقت کا پہلو مضمر ہوتا ہے۔’’کہاوت اور حکایت‘‘ میںکل 1690 کہاوتیں شامل کی گئی ہیں۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ہر کہاوت کسی نہ کسی کہانی یا واقعے سے جڑی ہوئی ہے۔جس کی وجہ سے زیر نظر کتاب نہایت دلچسپ،بصیرت افروز اور اخلاقی درس کا ایک عمدہ خزینہ معلوم ہوتی ہے۔شریف احمد قریشی نے نہایت آسان،عام فہم،شستہ اور دلچسپ زبان وبیان کا استعمال کیا ہے کہ قاری کے ذہن میںکہاوت کا معنی ومفہوم واضح ہونے کے بعد وہ کہاوت کے پس منظر میں پوشیدہ کسی نہ کسی کہانی سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے دو سری اہم بات یہ کہ مصنّف نے اس امر کی بھی نشاندہی کی ہے کہ ایک ایک کہاوت کومختلف الفاظ سے بیان کیا جاتا رہا ہے یعنی معمولی سے فرق کے ساتھ کہاوتیں نسل در نسل منتقل ہوتی آئی ہیں۔آیئے نمونے کے طور پر ’’کہاوت اور حکایت‘‘سے ماخوز ایک کہاوت ملاحظہ فرمائیں کہ جس میں مصنّف نے نہ صرف اس کا معنی ومفہوم واضح کیا ہے بلکہ اس کہاوت کے پس پردہ حکایت کو بھی بیان کیا ہے۔مثلا:’’ایک آپ ،دوسرا بغل چاپ(ال)جب کوئی شخص بغیر بلائے کسی کے یہاں جائے اور اپنے ساتھ ایسے شخص کو بھی لے جائے جس کی خاطر مدارات میزبان کو کرنا پڑے تو کہتے ہیں۔اس کہاوت کے پس منظر میں ایک حکایت اس طرح بیان کی جاتی ہے:ایک شخص نے اپنے بیٹے کی برات میں لے جانے کے لیے کچھ لوگوں کو مدعو کیا: برات کے ہمراہ دیگر لوگوں کے علاوہ حجام،درزی اور دھوبی وغیرہ بھی تھے۔لڑکی والے اپنے یہاں دستور کے مطابق ہر مہمان کا حصّہ پوچھ پوچھ کر دے رہے تھے۔جب حجام کا نمبر آیا تو اس نے کئی حصے لینے کی غرض سے حصّہ بانٹنے والے سے کہا:استاد،حجام ،نائی ایک میں ایک میرا بھائی یعنی مجھے پانچ حصے ملنا چاہیے(جب کہ وہ شخص ایک ہی تھا)اس کے بعد جب درزی کانمبر آیا تو اس نے بھی حجام کی طرح کئی حصے دار بتائے۔آخر میں جب حصہ لینے کے لیے دھوبی کی باری آئی تو اس نے بھی حجام اور درزی کی طرح کئی حصے دار گنادیے۔اس پر حصہ بانٹنے والے ہیں کہا’’ایک آپ دوسرا بغل چاپ‘‘’’کہاوت اور حکایت‘‘میں شریف احمد قریشی نے اسی طرح تمام کہاوتوں کے معنی ومفہوم کی وضاحت کے ساتھ کسی نہ کسی حکایت یا قصّے کہانی سے مربوط کرکے ترتیب دیا ہے کہ جس طرح مندرجہ بالا کہاوت کو ایک خاص واقعے سے جوڑا ہے۔مزید برآں کہاوتوں کو حروف تہجی کے تحت شامل کیا گیا ہے تاکہ قاری دوران مطالعہ کسی بھی طرح کی ذہنی الجھن کا شکار نہ ہو۔بہرحال پوری کتاب کے مطالعے سے یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ ہمارے اردو ادب میں کہاوتوں یا ضرب الامثال کا کتنا عمدہ سرمایہ موجود ہے۔کس موقعے پر کون سی کہاوت صادق آتی ہے۔اس بات کی طرف بھی مصّّف نے خصوصی توجہ دی ہے ۔میرے خیال میں زیر نظر کتاب’’کہاوت اور حکایت‘‘شریف احمد قریشی کی برس ہا برس کی محنت و لگن کا نتیجہ ہے کہ جس کے مطالعے سے موصوف کی علمی وادبی دلچسپی،ذوق وشوق اور وسیع معلومات کا پتا چلتا ہے۔سہل پسندی بلکہ کسل مند ی کے اس دور میں’’کہاوت اور حکایت‘‘جیسی ضخیم ،خوبصورت،معلومات افزا ، دقیق اور نئے موضوع پر لکھی کتاب اردو کی نئی نسل کے لیے نمونہء بلند ہمتی اور محنت شاقّہ کی حیثیت رکھتی ہے۔میں دل کی گہرائیوں سے ’’کہاوت اور حکایت‘‘ کے مصنّف جناب پروفیسر شریف احمد قریشی کو مبارک باد دیتا ہوں ،اس امید کے ساتھ کہ وہ آگے بھی اردو زبان وادب کے گلستاں میں نئے گلوں کا اضافہ کریں گے۔
رابطہ :اسسٹنٹ پروفیسر۔ شعبہ اردو باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی، راجوری(جموں وکشمیر)
9419336120