نئی دہلی //سابق وزیر داخلہ و خزانہ کانگریس کے سنیئر لیڈر پی چدمبرم نے کہا ہے کہ مذاکرات کار کی نامزدگی تقسیم کرنے کا حربہ ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ دینشور شرما کی تعیناتی اس بات کی نشاندہی نہیں کرتا کہ کشمیر کے تئیں پالیسی میں مرکز کا دل بدل گیا ہے یا پھر اپروچ میں تبدیلی آئی ہے لیکن یہ ایک تقسیمی حربہ ہے کیونکہ مرکز اپنی طاقت کی پالیسی جاری رکھے گا۔انہوں نے کہا”مجھے اس بات پر تشویش ہے کہ وادی میں کیا ہورہا ہے کیونکہ یہاں پر شدید ہیجان پایا جاتا ہے“۔انکا کہنا تھا ” مذاکرات کار کی نامزدگی ہمیں اس بات کی دلیل نہیں دے رہا ہے کہ حکومت کا د ل بدل گیا ہے، مجھے اس بات پر یقین نہیں کہ دل اور اپروچ میں تبدیلی آئی ہے،مجھے اب بھی یقین ہے کہ وہ مسلے کے حل کےلئے طاقت کی پالیسی اور فوجی حل نکالنا چاہتے ہیں“۔انہوں نے کہا کہ آئی بی کے سابق سربراہ دنیشور شرما کو تمام متعلقین سے بات چیت کرنے کےلئے کہنا در اصل تقسیم کا حربہ ہے تاکہ اس طبقے کو خوش کیا جائے جو مرکز سے کہہ رہا تھا کہ وہ ریاست میں بات چیت کا آغاز کرے۔انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کے آفس میں وزیر مملکت جتیندر سنگھ نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ دینشور شرما کوئی مذاکرات کار نہیں ہیں،جبکہ فوجی سربراہ بپن راوت نے یہ بات زور دیکر کہی کہ مرکز کے اس اقدام سے فوجی آپریشنوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ پی چدمبرم نے کہا” مجھے لگتا ہے کہ دو وضاحتیں حکومتی خیال کی بھر پور عکاسی کرتی ہیں“۔انہوں نے کہا” میں اس بات پر قائل نہیں کہ شرما کو تمام طبقوں کیساتھ بات چیت کرنے کا منڈیٹ حاصل ہے“۔انہوں نے کہا کہ کرمرکزی سرکار کی کشمیر پالیسی گمراہ کن تھی اور اسی وجہ سے ریاست کی صورتحال خراب ہوئی۔انکا کہنا تھا ” کشمیر کی جو اس وقت صورتحال ہے ایسی ماضی میں کبھی نہیں تھی اور بیشک2011سے زیادہ خراب ہے“۔انہوں نے کہا”2011سے2015تک این ڈی اے کے دور میں بہترین کام گذشتہ دو سال کی سورتحال کی وجہ سے تحلیل ہوئے ہیں“۔