رئیس یاسین
بلاشبہ ہماری اسلامی تہذیب میں حیا ءوہ گوہر نامدار ہے۔جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔اسلامی تاریخ اس درخشندہ گوہر کی عظیم روایت کی نہ صرف بانی ہے بلکہ اس کو آج تک سینے سے لگائے اس کی حفاظت پر مامور ہے۔ جانتے ہو حیاءکیا ہے؟حیا حیات ہے، حیا نہیں تو حیات نہیں۔
علامہ ابن فارس لکھتے ہیں کہ حی سے حیات بھی نکلتی ہے اور حیابھی۔دونوں کا مادہ ایک ہے۔دونوں زندگی کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔جیسے زندہ رہنے کے لیے سانسوں کی ضرروت ہوتی ہے وہیں ایک باکردار زندگی کے لیے حیاء کی بھی لازمی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بغیر حیاء کے معاشرے اور تہذبیں دفن ہو جایا کرتی ہیں۔
حدیث مبارک میں حضرت ابو ہریرہ ؓ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ایمان کے ستر سے زیادہ درجے ہیں اور حیاء بھی ایمان کے درجات میں سے ایک ہے۔ ‘‘ایک روایت میں آتا ہے کہ :’’جب آپ کے اندر حیاء نہ ہو تو جو چاہے کرو‘‘۔مزید ارشاد ہوا کہ ’’بے شک ہر دین کی ایک خصلت ہوتی ہے اور دین اسلام کی خصلت حیاء ہے۔‘‘نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اولین و آخرین میں سب سے زیادہ باحیاء اور باشرم تھے۔ روایت میں ہے کہ ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردہ نشین کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ حیادار تھے۔‘‘حیا مسلمانوں کی شان تھی ، حیا مسلمان عورت کی پہچان تھی ،اور دور سے پہچانی جاتی تھی کہ یہ مسلمان گھرانے کہ خاتون ہے۔لیکن آج کی اس مغربی تہذیب نے عورت کے سر سے دوپٹہ ہی غائب کردیا ۔ آج کے تعلیمی ادارے عورت کو اسلامی لباس پہن کرآنا پسند ہی نہیں کرتے ہیں ۔ اس کے ذمہ دار ہم خود ہے یہ جو آج کل ہم ہر سُو بے حیائی کے نظارے دیکھ رہے ہیں ۔ اس کا ذمہ دار بذات ِ خود ہمارا مسلم معاشرہ ہی ہے۔ہمارے مسلم معاشرے کے ہر گھرانے کا ایک باپ ہے، ایک بھائی ہے، ایک شوہر ہے ، جو اس عورت کو پردہ کا پابند نہیں بناتا ۔گویا اس حیا سوز ماحول کو قائم کرنے میں معاشرے کا ہر فرد ملوث اور مجرم ہے ۔
عورت اور میڈیا ہمارے معاشرے کے دو مضبوط ستون ہیں جو روایات کو بگاڑنے اور سنوارنے میں اہم کردار ادا کر تے ہیں۔اگر ان کا قبلہ درست ہو جائے تو یہ معاشرے کے لیے بہت اچھا اقدام ہو سکتا ہے مگر ستم یہ ہے کہ آج کے دجالی میڈیا کا سب سے پہلا ہدف ہی عورت ہے۔مارننگ شوز اور ڈراموں کے ذریعے بڑی خوبصورتی سے ان کا مائنڈ سیٹ تبدیل کیا جا رہا ہے۔ان کے سامنے دنیا کو اتنا سجا بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ یہی محسوس ہوتا ہے کہ زندگی تو بس دنیا کی ہی ہے اور اس دنیا کو سنوارنے اور خوبصورت بنانے کے چکروں میں نئی نسل کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے۔اس تعلیم کے ذریعے یہ امید رکھنا کہ وہ نیک اور صالح بنیں گے ، ایسے ہی ہے جیسے گندم بو کر چنے کی فصل کی امید رکھناہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں الحاد اور لا دینیت کی جو لہر آندھی اور طوفان کی طرح آگے بڑھ رہی ہے، اس کے آگے بندھ باندھا جائے۔والدین ،اساتذہ، اور علمائے کرام ہی اس بندھ کو باندھنے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔بچوں کے ذہنوں میں چھوٹی عمر سے بٹھایا جائے کہ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اللہ نے انہیں کیوں پیدا کیاہے؟ بالآخر انسان کا انجام کیا ہوگا؟ یہ وہ سوال ہیں،جن کے جواب سنجیدگی، اخلاص ،شفقت اور محبت کے ساتھ اگربچوں کے ذہنوں میں بٹھا دیا جائے تو اس کے اثرات نہایت مثبت اور بہت عمدہ ہوں گے۔ایک اور نکتہ جس کو بچوں کے دماغ میں بٹھانا ضروری ہے، وہ یہ کہ تعلیم کا مقصد بالکل واضح ہونا چاہیے کہ تعلیم کے حصول کا مقصد انسان کی کردار سازی ہے نہ کہ محض نوکری اور ڈگری کا حصول ہے۔
عمارت کی اگر بنیاد مضبوط نہ ہو تو بظاہر جتنی بھی خوبصورت ہو،زمین بوس ہو جایا کرتی ہے۔ہماری نسلیں زمین بوس ہو رہی ہیں، بے حیائی اور فحاشی کا سیلاب انہیں بہائے لے جا رہا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں حیاء کا جنازہ نکل چکا ہے۔ نہ اُستاد میں حیاء رہی نہ طالب علم میں۔ والدین کو پتہ ہوتا ہے کہ میری اولاد تعلیم حاصل کر رہی ہے لیکن وہ اولاد اخلاقی زوال کا شکار ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کا دل مردہ ہو چکا ہوتا ہے، نہ دن کا علم نہ رات کا کوئی اَتہ پتہ۔ وہ نفس کا غلام بن چکا ہوتا ہے ۔ جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
تہذیبِ فرنگی ہے اگر مرگِ اُمومت
ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس عِلم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اُسی علم کو اربابِ نظر موت
والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو حیاء کی تعلیم بچپن سے ہی دیں اور ان کو مسلم و تقوی گزار بنائیں۔ ہمیں حیاء کے مفہوم کو محدود نہیں رکھنا چاہیے ،اس کی صرف مرد و زن تک محدود نہیں رکھنا ہے۔ بلکہ حیاء کی زندگی کے ہر شعبہ میں ضرورت ہے۔جو ملازم رشوت لیتا ہے، اس کو خدا کا خوف کرنا چاہئے، یہی اس کے لئے حیاء ہے۔ جو دوکان دار انصاف سے کام لیتا ہے، اللہ تعالیٰ کےاحکامات کے حدود کا پاس رکھتا ہے، یہی اس کے لئے حیاء ہے۔ اولاد اگر والدین سے حسن سلوک سے پیش آتا ہے تو یہی اس کے لئے حیاء ہے۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں مختلف طریقوں سے فحاشی پھیلائی جارہی ہیں ،جن میں سوشل میڈیا سب سے بڑاہتھیار ہے۔ اس فتنے سے بچنے کے لئے اپنی فکر کی اصلاح ضروری ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہم خیر امت ہیں ۔ ہر وقت آخرت کو نظروں کے سامنے رکھیں، تبھی ہم اس فتنے سے بچ سکتے ہیں۔ قرآن مجید کی سورہ نور کی آیت سے شاید یہ بات زیادہ سمجھ آ جائے کہ ’’ایمان والوں میں جو چاہتے ہیں کہ فحاشی پھیلے ،ان کے لیے درد ناک عذاب ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی،اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔‘‘ اس لیے اس دور میں ہمیں بڑی حکمت اور دانش مندی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
[email protected]
����������������