اُمت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کے لئے صدیوںسے جدوجہدجاری ہے۔اس جہدوکاوش کی نوعیت علمی وفکری بھی ہے،سماجی و تہذیبی بھی اورسیاسی وتمدنی بھی۔ہردورکے صاحبانِ علم وفکر اپنی اپنی صلاحیتوںاورفہم ودانش کے مطابق اس جدوجہدمیںحصہ لیتے رہے ہیں۔اُن اکابر ین ِامّت کی لمبی فہرست ہے جن کی کاوشوںاورقربانیوںکے دمکتے نقوش جریدئہ عالم کے صفحات پرثبت ہیں۔بیسویںصدی کے قافلہ سالاروںمیںمتعددنام سامنے آتے ہیں مگرجن شخصیات نے امت کی بیدرای میںبہت نمایاںکرداراداکیااورعلمی وفکری اورتعلیمی دائروںمیںنہایت وسیع اثرات مرتب کئے،ان میں ہمیں مولانا سیدابوالاعلٰی مودودیؒنمایاںنظرآتے ہیں۔
۱۹۳۱ء میںمولاناسیدمودودی نے رسالہ’’ترجمان القرآن‘‘خریدا۔بعدازاںیہی رسالہ مولاناکے افکارونظریات کی شاعت کے ساتھ ساتھ ان کی شہرت کاذریعہ بنا۔۱۹۳۶ء تک یہ رسالہ خالص علمی ومذہبی نوعیت کاتھا۔’’حکومت الٰہیہ‘‘یا’نظامِ اسلامی کی ا قامت کے حوالے سے ابھی تک اس رسالے کے صفحات ناآشناتھے۔مسلمانوںکے مذہبی افکارواعمال پرتنقیدکے ساتھ ساتھ مغربی افکارونظریات اورتہذیب فرنگ کے تاریک پہلوئوںپرمولانامتکلمانہ تنقیدکرتے تھے اوراسلامی تہذیب کے محاسن کی تائید وحمایت کاپہلوغالب تھا۔یہ رسالہ غیرمنقسم ہندوستان میںبلاامتیازمسلک وعقیدہ اہل علم کی ایک بڑی تعدادکومتاثرکئے بنانہ رہ سکا۔مولانامودودیؒ ایک منجھے ہوئے انشاء پردازتھے۔اُن کے قلم کاجادواقبالؔاورکلامؔ کوبھی اپنااسیرکرگیا۔اُن کے اچھوتے اسلوبِ نگارش اوردل کش منطقی طرزِاستدلال کابھی اس جذب والتفات میںبڑاحصہ تھا۔
۱۹۳۷ء کے جداگانہ انتخاب میںکانگریس کوہندوستان کے اکثرصوبوںمیںواضح اکثریت حاصل ہوگئی تھی۔اس صورت حال نے مسلمانوں میں اضطراب وسراسیمگی کی کیفیت پیداکردی اوروہ اپنے مستقبل کے بارے میںسنجیدگی کے ساتھ سوچنے پرمجبورہوگئے۔مسلمان محسوس کرنے لگے تھے کہ اگراس خطرے کابروقت سدباب نہ کیاگیاتومسلمانوںکے ملّی تشخص اوران کی تہذیبی انفرادیت کاخاتمہ یقینی ہے۔کانگریس کی اس غیرمعمولی کامیابی کودیکھ کر مسلمانوںکاایک طبقہ جس کی قیادت علماء کے ایک گروپ کے ہاتھ میںتھی،کانگریس کاہم نوابن گیااور’’متحدہ قومیت‘‘کی حمایت شروع کردی۔ مسلم لیگ اوراس کے حامی علماء نے شدیدمخالفت کی ۔اس صورت حال کے پیش نظرمولاناسیدمودودیؒنے ۱۹۳۷ء کے آخراور۱۹۳۹ء کے آغازتک ایک سلسلہ مضامین شروع کیاجوبعدازاں’’مسلمان اورموجودہ سیاسی کشمکش‘‘کے نام سے کتابی صورت میںشائع ہوا۔ان مضامین میںایک طرف جمہوری لادینی نظام کی مضرتوںسے،جس کی بنیادقومیت واحدہ کے کانگریسی نظریہ پر قائم تھی،مسلمانانِ ہندکوآگاہ کیاگیاتودوسری طرف آئینی تحفّظات اوربنیادی حقوق کی اصلیت وحقیقت بھی ان پرواضح کی گئی اورانہیںخبردارکیاگیاکہ الفاظ کے گورکھ دندوںمیںنہ اُلجھیںبلکہ حقائق پرنگاہیںمرکوزرکھیں۔علاوہ ازیںمولانانے ان مضامین میںہی مثبت طورپراپنے نصب العین کابھی اظہارکیا،جوآگے جاکراقامتِ دین کی ان کی دعوت وفکر کاسنگ بنیادبنا۔اسلامی نظامِ حیات کے بارے میںمولانامودودیؒ کی تحریروں،اُن کے استدلال،ان کے علمِ کلام اوران کے سائنٹفک اسلوبِ نگارش نے مشرق ہی نہیںبلکہ مغرب کی نئی نسل پردوسروںسے زیادہ وسیع اورگہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔اپنی کتابوںکے ذریعے فکری سطح پرانہوںنے بعض کلیدی نوعیت کے نکات کوواضح کیا۔
معاشرے میںصالح انقلاب کے بارے میںمولانامودودیؒ کے نظریہ وفکرکی ترجمانی ، اُن کی بپاکردہ تنظیم جماعت اسلامی کررہی ہے۔یہ جماعت پاکستان،بنگلہ دیش،سری لنکا،ہندوستان اورجموںوکشمیرمیںوہاںکے مخصوص حالات کی روشنی میں،طریقِ کارکی تبدیلی کے ساتھ اوراپنے خودمختارنظم کے ساتھ کام کررہی ہے۔مولانامودودیؒ کے افکارکاحلقۂ اثراب محض جنوبی ایشیاء تک محدودنہیںرہابلکہ دنیاکے بیشترعلاقوںتک ان کے اثرات پہنچے ہیں۔مختلف اسلامی تحریکیںمولاناکے فکرونظرسے متاثرہوئے ہیں۔
مولانامودودیؒ نے جماعت اسلامی کی تاسیس نصب العین کے حصول کے لئے اجتماعی جدوجہدکے لئے کی۔وہ نصب العین جیسا کہ سطورِبالامیں اشارہ کیاگیا’’حکومتِ الٰہیہ‘‘کاقیام ہے۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جس طرح عالم ِتکوین کے سارے معاملات اللہ کی مرضی ومنشاء کے مطابق انجام پاتے ہیںاورکائنات کی ہرچیزاس کے تابع فرمان ہے،اسی طرح عالم تشریع یعنی انسان کی تمدنی زندگی کابھی حاکم وآمراللہ ہے۔اس لئے انسان کے انفرادی واجتماعی دونوںمعاملات اسی کے حکم وہدایت کے مطابق انجام پانے چاہئے۔اگراس کے برخلاف ہے تویہ حاکم حقیقی کے خلاف بغاوت کے ہم معنی ہے۔ ’نصب العین‘کے عنوان کے تحت مولانائے محترم رقمطرازہیں:’’جماعت اسلامی کانصب العین اوراس کی تمام سعی وجہدکامقصوددنیامیںحکومت ِالٰہیہ کاقیام اورآخرت میںرضائے الٰہی کاحصول ہے ۔‘‘
(مسلمان اورموجودہ سیاسی کشمکش،حصہ سوم۔ص۱۷۲)
اسلامی ریاست کی ضرورت کے متعلق مولاناکاستدلال یہ ہے کہ قرآن مجیدنے زندگی گزارنے کاجواسلامی تصوردیاہے،وہ یہ ہے کہ انسان کواپنی پوری زندگی اللہ کی رضااورمنشاکے حصول کے لئے صرف کردینی چاہئے۔قرآن صرف اخلاقیات کے اصول ہی بیان نہیںکرتابلکہ زندگی کے دیگرشعبوںکے لئے بھی ہدایات دیتاہے۔وہ بعض جرائم کی سزائیںبھی تجویزکرتاہے اورمالیاتی معاملات کے اصول بھی طے کردیتاہے۔جب تک کوئی ریاست ان کونافذکرنے کے لئے موجودنہ ہو،یہ سارے اصول اورضابطے عمل میںنہیںلائے جاسکتے اوراسی سے اسلامی ریاست کی ضرورت سامنے آتی ہے ۔ مولانا نے سورۃ النساء کی آیت ۵۹؍ سے اسلامی ریاست کے اصول اخذکئے۔
سیدمودودیؒ کاایک بڑاکارنامہ اسلامی ریاست کے قیام کے لئے رائے عامہ کی ہمواری اوراس کی فکری وفلسفیانہ بنیادوںکی تشریح وتوضیح ہے۔ مولانانے پورے عزم وایقان کے ساتھ قدیم کے حوالے سے ہراحساسِ کہتری اورجدیدکے بارے میںہرمرعوبیت سے بالاترہوکر،اسلامی ریاست کے تصور،اس کے فلسفے،نظامِ کاراوراصولِ حکمرانی کی شرح وبسط کے ساتھ وضاحت کی ہے۔اس عمل میںقدم قدم پراُن کے تفقہ فی الدین،سیاسی واجتہادی بصیرت،عصری آگہی اورجدیداسلوب میںاُن کاانتہائی موثراندازبیان ،استدلال اورمتکلمانہ لب و لہجہ نمایاںہے۔یہ اُن کاوہ کارنامہ ہے جس میںگزشتہ تقریبََاتین صدیوںسے عرب وعجم میںکوئی ان کاثانی نہیں۔
عہدحاضرمیںاسلامی ریاست کی تشکیل کاعمل اوراس کامخصوص منہج یاطریقہ کاروہ موضوع ہے،جس کی تفہیم وعملی تفسیرمیںمولانامودودیؒ کودوسرے مفکرین پرسبقت اورامتیازحاصل ہے۔ریاست کی تنظیم کیسے ہو،اس کی تشکیل وطریقہ کاراورمنہج کیساہوکہ اس میںعصری ضرورتوںکی تکمیل بھی ہوسکے اورقرآن وسنت کی بنیادی تعلیمات اوررہنمااقداراورخلافتِ راشدہ کے تاریخی تعامل سے سرِموانحراف بھی نہ ہو،اس موضوع پرعلماء میںسے صرف مولانا مودودی ؒنے دلچسپی لی۔اسلامی حکومت کے قیام کی صحیح ترتیب مولاناکے نزدیک یہ ہے کہ پہلے ایک تمدنی‘اجتماعی اوراخلاقی انقلاب پیداکیاجائے کیونکہ اسلام کے احکام وقوانین صرف اوپرسے ہی مسلط نہیںکئے جاسکتے بلکہ اندرسے اُن کے اتباع کادلی جذبہ پیداکیاجاناضروری ہے۔(اسلامی ریاست،ص ۵۶)
اسلامی حکومت کسی معجزے کی صورت میں صادرنہیں ہوتی۔اس کے پیداہونے کے لئے ناگزیرہے کہ ابتدامیںایک ایسی تحریک اٹھے جس کی بنیاد میں وہ نظریہ حیات،وہ مقصدِزندگی،وہ معیارِاخلاق،وہ سیرت وکردارہوجواسلام کے مزاج سے مناسبت رکھتاہو۔اس کے لیڈراورکارکن صرف وہی لوگ ہوںجواس خاص طرزکی انسانیت کے سانچے میںڈھلنے کے لئے مستعدہوں۔پھروہ اپنی جدوجہدسے سوسائٹی میںاُسی ذہنیت اوراُسی اخلاقی روح کو پھیلانے کی کوشش کریں۔پھراسی بنیادپرتعلیم وتربیت کاایک نیانظام اٹھے،جواُس مخصوص ٹائپ کے آدمی تیارکرے،جودنیاکے ناخداشناس ائمہ فکرکے مقابلے میںاپنی عقلی وذہنی قیادت کاسکّہ بٹھادیںاورہربھٹی میںتَپ کرہرآزمائش میںسرخ رُوہوکراپنے قول وفعل سے،اپنی انفرادی واجتماعی کردارسے اسلام کی شہادت دیںتاکہ صالح عناصراُن کی طرف کھینچتے چلے آئیںاورپست ذہنیت اورپست سیرت افراددبتے چلے جائیںاورعوام کی ذہنیت میںایک انقلاب رونماہوجائے اوروہ نظامِ زندگی عملََاقائم ہوجائے جس کے لئے زمین تیارہوچکی ہے۔اسلامی حکومت کے قیام کایہی تدریجی طریقہ ہی فطری طریقہ ہے اوریہ انقلاب اُسی صورت میںرونماہوگا،جب ایک عمومی تحریک قرآنی نظریات وتصورات اورمحمدی ؐ سیرت وکردارکی بنیادپراُٹھے اوراجتماعی زندگی کی ساری ذہنی،اخلاقی،نفسیاتی اورتہذیبی بنیادوںکوطاقت ورجدوجہدسے بدل دالے۔(ایضََا،ص۶۹۵)
سیدمودودیؒ اس زمانے کی پیداوارہے جب چہارطرف مغربی افکار،سائینس وٹیکنالوجی کادبدبہ تھا۔مشرق زیرعتاب تھااورمرعوب بھی۔عوام وخواص معذرتانہ رویہ اختیارکئے ہوئے تھے۔اس ماحول میںمولاناسیدابوالاعلیٰ مودودیؒ جیسابطلِ جلیل مشرق کی گودسے اٹھتاہے اورمغرب کی آنکھ میںآنکھ ڈال کراُن کے فسادِفکرونظرکی قلعی دلائل وبراہین سے کھولتاہے۔مولاناکایہ سب سے بڑاکارنامہ ہے۔’’حکومتِ الٰہیہ‘‘کانظریہ سیدمودودیؒ کی سیاسی فکر کاہمیشہ مرکزی نکتہ رہاہے۔فکرِسیاسی میںیہ استقلال،پامردی اوراستحکام وہ عمل ہے جوفکروعمل کی تاریخ میںسیدمودودیؒ کوبہت ممتازبنادیتاہے:
’’دین اللہ بھی صرف اُسی چیزکانام نہیںہے جومسجدوںاورنمازروزے تک محدودہوبلکہ اس سے مرادبھی اُس پوری شریعت کی پابندی ہے،جواللہ کی رضاسے ماخوذ اور اس کی حاکمیت پرمبنی ہواوراجتماعی زندگی کے تمام پہلوئوںکواپنی گرفت میںلے لے۔‘‘(ایضََا،ص ۶۸)
مولانامودودیؒکے ساتھ لیکن ایک المیہ یہ ہوا ہے کہ اُن کے بعدان کی فکرکوکچھ عناصرنے غلط فہمی کی بناپر’’شدت پسندی‘‘کابیانیہ بنا ڈالا ۔ عہد ِحاضر میں دنیاکے بیشترممالک میںجنگ کاسمابندھاہواہے۔کلیساکے پیروہوںیاتسبیح کے’’ محافظ‘‘،کہیںنہ کہیں،کسی نہ کسی طریقے سے دہشت گردی کوختم کرنے کی آڑمیںخودبھی شدت پسندی کی صف میںکھڑے نظرآتے ہیںاور’’دانش ور طبقہ‘‘وتجزیہ نگاروںکاایک شکم پرست گروہ اس کے تانے بانے مولاناسیدمودودیؒ کی فکر و نظر کے ساتھ نتھی کرنے پرمُصرہیں۔حالانکہ مولاناؒکی فکر اورطریقہ کارواضح ہے۔انہوںنے دعوتِ دین یا اسلامی حکومت کے قیام کے لئے زیرزمین سرگرمیوں ، خفیہ کاروائیوں،مسلح جدوجہداورغیرآئینی طریقِ کارکوہمیشہ تنقیدکانشانہ بنایا۔اس طرح کے تمام طریقوںکووہ حکمت عملی کے خلاف ،ناروا اور غیرموزوں تصورکرتے تھے۔مولاناؒکی بعض تحریروںکوسیاق وسباق سے کاٹ کرخائنوںنے فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کی۔نومبر۱۹۶۹ء میںاسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے اجتماع میںایک سوال کے جواب میںمولانانے نونہالوں کونصیحت کرتے ہوئے کہا:’’ہماراکام خفیہ تحریک چلانانہیںبلکہ کھلم کھلااپنے نظریات کوپھیلاناہے۔۔۔خفیہ تحریک اس طریقے سے چلتی ہے کہ اگرکسی شخص کے بارے میںیہ شبہہ بھی ہوجائے کہ وہ پارٹی کاوفادارنہیںہے تواُسے بلاتکلف قتل کردیاجاتاہے اوریہ قتل وغارت گری اس تحریک کاعام مزاج بن جاتاہے۔۔۔۔خفیہ طریقے سے کوئی مسلح انقلاب برپاکرنااسلام کے مزاج کے بھی خلاف ہے اورانجام کے لحاظ سے خطرناک بھی۔‘‘( تصریحات،ص۱۴۹۔۱۵۰)
اسی ضمن میں مولانا مودودی نے اپنی تحریروں او ربیانات میں یہ نکتہ بھی غیر مبہم انداز میں واضح کیا ہے کہ جدید جمہوری ریاستوں میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کا صرف وہی راستہ جائز ہے جو آئین وقانون کی حدود کے اندر ہو، جب کہ غیر آئینی طریقوں سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ شرعاً دُرست ہوگی اور نہ حکمت عملی کی رُو سے۔ اس حوالے سے مولانا کی بعض تصریحات کو یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا۔ مولانا سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا موجودہ صورت حال میں آئینی ذرائع سے انقلاب لانا مشکل نہیں ہو گیا؟‘‘ اس کے جواب میں فرمایا: ’’۔۔۔میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر کے ساتھ، تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کار بھی علانیہ اور کھلم کھلا تبلیغ کا طریقہ تھا ۔۔۔آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ اپنی اخلاقی ساکھ کو کبھی نقصان نہ پہنچنے دیں اور غیر آئینی طریقوں کے بارے میں سوچنے والوں کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کریں۔ حالات جیسے کچھ بھی ہیں، ہمیں ان حالات کو درست کرنا ہے۔ غلط طریقوں سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں۔‘‘ (تصریحات، ص ۱۹۱،۱۹۲)
مزید فرماتے ہیں:
’’بکثرت لوگ اس الجھن میں پڑ گئے ہیں کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جا سکتی ہے یا نہیں اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایسے حالات میں غیر جمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بجائے خود ہمار ے حکمرانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انہوں نے لوگوں کو اس طرح سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن ہم اس پوری صورت حال کو دیکھتے ہوئے اور اس کی پیدا کردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اس رائے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام جسے برپا کرنے کے لیے ہم اٹھے ہیں، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہو سکتا۔۔۔‘‘ (ایضاً، ص ۲۶۳۔۲۶۴)
مولانا سے سوال ہوا کہ اسلامی انقلاب فوری طور پر کیسے آئے گا؟ جواب میںآپ نے فرمایا:’’میں اصولاً قانون شکنی اور غیر آئینی طریق کار اور زیر زمین کام کا سخت مخالف ہوں۔ میری یہ رائے کسی سے خوف یا کسی وقتی مصلحت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ میں سالہا سال کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قانون کا احترام مہذب معاشرے کے وجود کے لیے ناگزیر ہے اور کوئی تحریک اگر اس احترام کو ایک دفعہ ضائع کر دے تو پھر خود اس کے لیے بھی لوگوں کو قانون کا پابند بنانا سخت دشوار بلکہ محال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زیر زمین کام اپنے اندر وہ قباحتیں رکھتا ہے جن کی وجہ سے اس طریقے پر کام کرنے والے آخر کار خود ان لوگوں سے بھی بڑھ کر معاشرے کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں جن کو ہٹانے کے لیے وہ یہ طریقے اختیار کرتے ہیں۔ انہی وجوہ سے میرا عقیدہ یہ ہے کہ قانون شکنی اور خفیہ کام قطعی غلط ہے۔ میں نے ہمیشہ جو کچھ کیا ہے، علانیہ کیا ہے اور آئین وقانون کے حدود کے اندر رہ کر کیا ہے، حتیٰ کہ جن قوانین کا میں شدید مخالف ہوں، ان کو بھی میں نے آئینی وجمہوری طریقوں سے بدلوانے کی کوشش کی ہے مگر کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔۔۔۔ یہی عقیدہ جماعت اسلامی کا بھی ہے۔ اس کے دستور کی دفعہ ۵ میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ ہم ایسے ذرائع اور طریقے کبھی استعمال نہیں کریں گے جو صداقت ودیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔ ہم جو کچھ کریں گے، جمہوری اور آئینی طریقوں سے کریں گے اور خفیہ طریقوں سے نہیں بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کریں گے۔‘‘ (ایضََا۔ص۲۷۴)
مولاناعمارخان ناصراس شدت پسندی کے بیانئے کاتجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ بات اس تناظر میں خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کی اہمیت وضرورت کو اجاگر کرنے اور اس کے لیے عملی جدوجہد کو منظم کرنے کے حوالے سے مولانا مودودی ؒکا شمار دور حاضر کے ممتاز ترین مسلم مفکرین اور قائدین میں ہوتا ہے، تاہم مولانا کے زاویہ ٔ نظر میں نظری اور فلسفیانہ بحث ومباحثہ اور عملی اجتہادی ضروریات اور تقاضوں کے مابین فرق کا بھرپور ادراک دکھائی دیتا ہے۔۔۔ مولانا مودودیؒ نے عدم تشدد اور جمہوری اصولوں کی پاس داری کو اپنی تحریک کا بنیادی پتھر قرار دیا۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مولانا کی پیش کردہ تعبیرات اور افکار کے مختلف پہلوئوں سے اختلاف کے تمام تر امکانات کے باوجود دور جدید میں دینی جدوجہد کے لیے ایک متوازن حکمت عملی کے اصول اور خط وخال واضح کرنے کے حوالے سے مولانا کی یہ خدمت بے حد غیر معمولی ہے اور درحقیقت اسی میں ان کی فکری عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔‘‘(دلیل ڈاٹ کام)
مولانامودودیؒ بیسویںصدی میںبرصغیرکے مسلمانوںکے لئے ایک عظیم مذہبی رہنما اور نظریاتی مرشد ثابت ہوئے۔اُن کے قلم نے مغرب زدہ،دین سے بیزارلوگوںکی کایاپلٹ دی۔انہوںنے اپنے نقطئہ نظرکو قرآن مجید کے تفصیلی دلائل کی بنیادپرمرتب کیاتھا۔اپنے نقطئہ نظرکومعقول طریقے پرثابت کرنے کی ان میںاتنی غیرمعمولی قابلیت تھی کہ مولاناابوالحسن علی ندویؒنے انہیںبیسویںصدی کاسب سے بڑامتکلم اسلام قراردیاتھا۔مولانامودودیؒ نے ایک طرف’ ’تنقیحات‘‘لکھ کر مغربی فکرکے بڑھتے ہوئے اثرات پرزبردست چوٹ لگائی،تودوسری طرف کمیونزم کے مقابلے کے لئے اہل ِاسلام کوگویا اُس دورمیںایک بیانیہ دیا۔آدھی دنیامیںپھیل جانے والاکمیونزم مذہب کے انکارکی بنیادپرزندگی کاایک ’’نظریہ اورنظام‘‘دے رہاتھا،جوبہت متاثرکن تھا۔اس کے جواب میںاسلام کواسی اندازسے پیش کرکے مولانامودودیؒنے بہرحال لوگوںکی ایک بڑی تعدادکوکمیونزم کی آغوش میںجانے سے بچایااوراُس وقت اسلام کادفاع کیا جب کہ فکری میدان میںاس کادفاع کرنے والااورکوئی نہ تھا۔مولاناکے کام کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ ان کاکام اتنی محکم بنیادوںپرکھڑاتھا کہ اس پرکسی قسم کی گرفت کرنابہت مشکل تھا۔ابویحیٰ ،مشہورمصلح و ناولسٹ،کے بقول مولانامودودیؒ کی تحریرپڑھ کراسلام پراعتمادپیداہوتاہے۔سرِدست اس وقت اُمت مسلمہ پراگرکسی شخص کی فکری بادشاہی قائم ہے تووہ مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودیؒہی کے نظرئے کی حکومت ہے،لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مولاناآخرکاربشر تھے۔اُن کی فکری،علمی عظمت کے باوجودوہ اختلاف سے مستثنیٰ نہیںلیکن اُن کی فکرکوتشدّد،انتہاپسندی اوردہشت گردی سے جوڈدیناعلم وفکرکی تذلیل ہے۔انتہاپسندی و شدت پسندی کے جتنے وہ مخالف تھے ،وہ ان کی تحریروتقریرمیںواضح ہے۔