۱۴جون کو جموں و کشمیر کی صحافت کے ایک سر کردہ کردار شجاعت بخاری کو افطار سے کچھ منٹ پہلے نا معلوم بندوق برداروں نے سرینگر کے پریس اینکلیو میںموت کی ابدی نیند سلادیا اور یوں نہ صرف ان نا معلوم بندوق برداروںنے ایک صحافی کی زندگی کا خاتمہ کیا اور صحافت جیسے معزز پیشے پر حملہ کیا بلکہ شجاعت بخاری کی موت کی شکل میں کشمیر نے ایک سکالر اور دانشور کھودیا۔ ایک ایسا سکالر و دانشور جو کسی بھی موضوع پر بول سکتا تھا بلکہ بڑے بڑے مقالے لکھ سکتا تھا، چاہے وہ سیاسی موضوع ہو یا سماجی یا پھر ادبی۔شجاعت نے ہر میدان میں اپنے نقوش چھوڑے ہیں۔شجاعت بخاری اپنے آپ میں ایک انجمن تھے۔ایک محنتی اور زیرک صحافی۔ایک ایسے صحافی جو جدید صحافت کے تقاضوں سے پوری طرح واقف تھے ۔ہر ایک کی رائے کا احترام کرنے والے اور ہر ایک کی بات سننے والے۔شجاعت دوسری کی رائے ُسننے والے تھے لیکن ساتھ ہی اپنی رائے بھی بلا جھجک پیش کرنے والے تھے۔وہ اپنی ایک رائے رکھتے تھے۔ ایک ایسی رائے جس میں مظلوم کشمیریوں کے لیے حق و انصاف کی بات تھی، جس میں کشمیریوں کے لیے عزت و وقار کی بات تھی۔اسی لیے شجاعت بخاری کا شمار نہ صرف جموں و کشمیر کے بڑے صحافیوں میں ہوتا تھا بلکہ بطور ایک دانشور بھی اب اُن کی ایک الگ پہچان بن گئی تھی۔
شجاعت ۱۹۹۷ء سے ہندوستان کے قومی روزنامہ ’’دی ہندو‘‘(The Hindu) سے بطور نامہ نگار وابستہ تھے۔جرمنی کے ’’ڈاشے ویلے‘‘ کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔اس دوران شجاعت بخاری کے مضامین و تبصرے ملک و بیرون ملک کے مختلف اخباروں ورسالوں میں چھپتے رہے اور کچھ ہی عرصہ میں ان کا شمار وادی کے بڑے سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہونے لگا تھا۔شجاعت بخاری کی خوبی یہی تھی کہ وہ اعتدال پسند رویہ رکھتے تھے لیکن یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ اپنے دل کی بات بلا خوف کہتے تھے۔مختلف امور پر اُن کی آراء بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔
شجاعت بخاری نے ۲۰۰۸ء میں انگزیزی روزنامہ ’’رائزنگ کشمیر‘‘(Rising Kashmir) کی بنیاد رکھی جس نے بہت جلد عوام و خواص میں مقبولیت پالی۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اردو روزنامہ’’ بلند کشمیر‘‘ کشمیری روزنامہ ’’سنگر مال‘‘ اور اردو میں ایک ہفت روزہ رسالے’’ کشمیر پرچم ‘‘ کو بھی شروع کیا ۔ ان اخبارات کے ذریعے انہوں نے نہ صرف مسئلہ کشمیر اور دیگر امور کو سامنے لایا۔’’کشمیر پرچم‘‘ میں سیاست کے ساتھ ساتھ ادبی و دیگر مضامین بھی چھپتے تھے۔’’کشمیر پرچم ‘‘ کا شمار ریاست کے بڑے رسالوں میں ہوتا ہے۔ادب و زبان کے سلسلے میں شجاعت بخاری کی خدمات کو کوئی بھی فرد فراموش نہیں کرسکتا۔کشمیری زبان کے فروغ کے سلسلے میں انہوں نے جو اقدامات کیے، اُن کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ادب و زبان کے سلسلے میں وہ معلومات کا ذخیرہ تھے۔اُردو ادب سے بھی کافی دلچسپی رکھتے تھے اور اردو کے مختلف سمیناروں میں شریک ہوتے تھے اور مقالے پیش کرتے تھے۔شجاعت بخاری کا پسندیدہ موضوع کشمیر کی سیاست تھا اور یہی وہ میدان ہے جس نے ان کے لیے ہر طرف دشمن پیدا کیے تھے۔لیکن شجاعت ایک نڈر صحافی و بے باک دانشور تھے۔وہ’’ نتائج‘‘ کی پروا کیے بغیر اپنی بات پوری دنیا کے سامنے رکھتے تھے اور بہت حد وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔اپنے اخبارات کے ذریعے بھی انہوں مسئلہ کشمیر کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کیا اور اپنے مضامین و تبصروں کے ذریعے بھی۔شجاعت اعتدال پسند ذہن کے مالک تھے ،اسی لیے ہر ایک کے ساتھ گھل مل جاتے اور ہر ایک کی رائے کا احترام کرتے تھے۔مسئلہ کشمیر کا ایک پُر امن حل چاہتے تھے جس میں سب فریق شامل ہوں اور اس فیصلے سے سب متفق ہوں۔شجاعت صاحب صرف کشمیریوں کا بھلا چاہتے تھے اور ہر سمینار و پروگرام میں صحافی بعد میں لیکن پہلے بطور ایک مظلوم کشمیری کے حصہ لیتے تھے،سچائی اور امن کی تلاش میں بطور ایک کشمیری کے لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پچھلے ایک سال سے برابر شجاعت بخاری اور دیگر لوگ سرخیوں میں رہے۔’’ٹریک -۲ ؍ڈپلومیسی‘‘ کے ذریعے مسائل کا حل چاہتے تھے ۔’’یہ ٹریک-۲‘‘ ڈپلومیسی اپنی ابتدا ء ہی سے بہت متنازعہ رہی اور بہت سارے تجزیہ نگاروں نے اس کی ناکامی کا عندیہ بھی دیا اور مختلف مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے اس سے نالاں بھی تھے۔’’ٹریک -۲ ڈپلومیسی‘‘ کیا تھی یا ہے، یہاں پر اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں۔
ایک بات یاد رکھنے کی کہ کسی بھی مہذب سماج میں ادیبوں، صحافیوں و دانشوروں کی عزت و تکریم کی جاتی ہے اور مکالمہ ہی سے مکالمہ کا جواب دیا جاتاہے، نہ کسی بیرونی دبائو یا کسی اور طریقے سے۔ جنوبی ایشیا میں عموماََ اور ہندوستان میں بالخصوص پچھلے چار سال میں ادیبوں ، صحافیوں و دانشوروں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، اُس نے ہندوستان کی بے بنیاد جمہوریت کا پردہ فاش کیا ہے۔متعدد ادیبوں کے لکھنے پر پابندی عائد ہوئی اور متعدد اصلاح کاروںاورصحافیوں کو قتل کیا گیا۔نریندر دابولکر، پنسارے، گوری لنکیش کی مایوس کن مثالیں ہمارے سامنے ہیں لیکن اس سب کے باوجود حق کی آواز نہیں دب سکی، بلکہ اس آواز نے اور زیادہ تیزی پکڑی ہے۔ آج پوری دنیا میں ہندوستان کی جمہوریت کی پول کھل چکی ہے اور ہندوستان میں مسلمانوں و دلتوںپر ہورہے مظالم، کشمیر میں نہتے بچوں ، عورتوں اور بزرگوں پر گولیاں برسانا جیسے اس جمہوریت کے کالے کارنامے ہیں جو ساری دنیا کے سامنے آچکے ہیں۔شجاعت کے قاتلوں نے نہ صرف دن دہاڑے صحافت پر حملہ کیا بلکہ کشمیری کاز کے ایک سپوت کو بھی ہم سے چھین لیا۔یہ نہ صرف صحافت پر حملہ ہے بلکہ دانشور پر بھی ایک بڑا حملہ اور ایک سکالر پر بھی لیکن اس بُزدلانہ حملے سے نہ مظلوں کی آواز کو کوئی کبھی دبا سکا ہے اور نہ کبھی دبا سکے گا کہ ایک مظلوم کو مار کر دس نئے مظلوم اپنے حق کے لیے اُٹھیں گے اور انصاف کے لیے لڑیں گے۔ یہی تاریخ انسانی میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے اور تاریخ کبھی دھوکہ نہیں دیتی۔اس لیے شجاعت کے قاتلوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ ظالم اور مظلوم کی جنگ میں ہمیشہ جیت مظلوم کی ہی ہوگی ۔کشمیر میں پچھلے تیس سال سے حالات ابتر چل رہے تھے اور لگ بھگ ۷۰ سال پرانے اس مسئلے نے لاکھوں انسانوں کی جان لی۔ شجاعت بخاری بھی ان لاکھوں لوگوں میں شامل ہوگئے۔ پولیس ا ور فوج نے یہاں کے عوام و خواص پر جو زیادتیاں کی وہ کسی سے چھپی نہیں ہیںبلکہ اب تو پہلی بار اقوام متحدہ نے باضابطہ ایک رپورٹ کشمیر میں پولیس و فوج کی زیادتیوں کی تیار کی جس نے پوری دنیا کے سامنے مظلوم کشمیریوں کی مظلومیت رکھی اور اب ہر طرف سے یہاں کے باشندوں پر مظالم بند کرنے کی بات کی جارہی ہے اور اس دیرینہ سیاسی مسئلے کے متفقہ حل کی بات کی جارہی ہے۔ بہر حال شجاعت بخاری اپنے پیچھے ہمارے لیے بہت سے سوالات چھوڑ گئے ہیں۔یہ ایسے سوالات ہیں جن سے ایک کشمیری پچھلے ۷۰؍ سال سے برابر جھوج رہا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو قابل قبول انداز میں اور انسانی بنیادوں پر ہمیشہ کئے حل کیا جائے جس میں تمام فریق شریک ہوں اور ساتھ بحالی ٔاعتماد کے طورانسانی جانوں کا مزید اتلاف روکدیا جائے۔مظلوموں کو انصاف مل جائے اور مسئلے کے حل تک کم سے کم تما م کالے قوانین کا خاتمہ کیا جائے تاکہ ایک عام کشمیری بھی راحت کی سانس لے سکے۔ شجاعت صاحب کو ہماراسب سے بڑا خراج عقیدت یہی ہوگا کہ ہم سچ بولنے سے نہ ڈریں بلکہ ایک زندہ قوم کی طرح ہم سچ بولیں اور سچ کا سامنا کریں اور سچے اور انصاف پسند دانشوروں و صحافیوں کی قدر کریں۔ اسی میں ہمارے قوم کی بھلائی و ترقی ہے ۔
رابطہ : جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی