سرینگر//پریس کالونی حملے میں پولیس نے ایک مشتبہ فرد کو حراست میں لیکر مہلوک اہلکار سے چھینے ہوئے پستول کو برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے،جبکہ واقعے کو جنگجویانہ حملہ قرار دیا۔ انسپکٹر جنرل پولیس کشمیر ایس پی پانی نے کہا کہ اس حساس کیس کیلئے ڈی آئی جی وسطی کشمیر کی قیادت میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے،اس نے چھان بین شروع کی ہے۔سرینگر کی پریس انکلیو میں جمعرات کو سنیئر صحافی روزنامہ رائزنگ کشمیر کے مدیر اعلیٰ اوران کے ذاتی محافطین پر اندھا دھند گولیاں چلائی گئیں،جس کے نتیجے میں سید شجاعت بخاری اور انکے2 سیکورٹی اہلکار جان بحق ہوئے۔ پولیس نے اس دوران دعویٰ کیا کہ اس کیس میں4مشتبہ افراد میں سے ایک کو حراست میں لیا گیا،جس سے پوچھ تاچھ کی جا رہی ہے۔سرینگر کے پولیس کنٹرل روم میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے پولیس کے صوبائی سربراہ سوائم پرکاش پانی نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ کنہ تار صدر بل سے تعلق رکھنے والے ایک شخص زبیر قیوم کو حراست میں لیا گیا،جو پریس کالونی حملے میں4مشتبہ افراد میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے وہ کپڑے بھی برآمد کئے ،جو اس نے گزشتہ شام پہنے تھے،جب وہ زخمیوں کو پولیس گاڑی میں بھرنے میں مدد کر رہا تھا۔انہوں نے بتایا کہ مہلوک اہلکار سے جو پستول چرایا گیا تھا،اس کو بھی زبیر سے برآمد کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ جس فرد کو حراست میں لیا گیا،اس سے متعلق یہ تحقیقات کی جا رہی ہے کہ وہ پستول لیکر کیوں فرار ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ دونوں اہلکاروںکو پستول دئے گئے تھے،جن میں سے ایک متعلقہ ایس ایچ ائو نے برآمد کیا،اور دوسرا پستول بعد میں زبیر نامی اس مشتبہ شخص سے برآمد ہوا۔آئی جی کشمیر نے کہا کہ ڈی آئی جی وسطی کشمیر کی سربراہی میں خصوصی تحقیقاتی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے،اور جونہی اس کیس میں کوئی پیش رفت ہوتی ہے،تو اس کو منظر عام پر لایا جائے گا۔انہوں نے واقعے کو جنگجوانہ واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مشتبہ افراد کی چھان بین کی جا رہی ہے۔پولیس تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس واقعے میں3سے زیادہ افراد ملوث ہے،جو کہ براہ راست اس میں ملوث ہے۔اس دوران پولیس نے شجاعت بخاری کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث نامعلوم بندوق برداروں کی تصاویر شائع کرتے ہوئے عوام سے ان کی شناخت کرنے میں تعاون طلب کیا ہے۔ پولیس کو شبہ کو ہے کہ جو تصویریں سی سی ٹی کیمرے میں قید ہوئی ہے اور ان تصاویر میں جس موٹر سائیکل پر سوار تین افراد دکھائی دے رہے ہیں جنہوں نے اپنے چہرے پر نقاب ڈالی تھی ‘ سینئر صحافی کے قتل میں ملوث ہونے کے قوی امکان ظاہر کرتے ہوئے پولیس نے مذکورہ نوجوانوں کی تلاش بڑے پیمانے پر شروع کردی ہے جبکہ ان تصاویر کی چھان بین کے لیے ماہر اورپیشہ ور تحقیقی پولیس آفسران کی خدمات حاصل کی جارہی ہے۔