سرینگر// سرینگر جموں شاہراہ کو شہری ٹریفک کیلئے ہفتے میں2روز تک بند رکھنے کے فرمان کو چونکا دینے والا قرار دیتے ہوئے سیاسی،مزاحمتی تجارتی اورسماجی جماعتوں کے علاوہ وکلاء نے یک زباںہوکر اس حکم نامہ کو تغلقی قرار دیکر اس پر نظر ثانی کرکے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔واضح رہے کہ سرینگر جموں شاہراہ پر ممکنہ فدائین حملوں کا تدارک کرنے اور پارلیمانی انتخابات کے پیش نظرریاستی سرکار نے ہفتے میں فورسز گاڑیوں کی شاہراہ پر نقل و حرکت کیلئے2دن مخصوص رکھے ہیں،جبکہ شہری ٹریفک کی نقل و حمل پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
نیشنل کانفرنس
عمر عبداللہ نے شاہراہ کو ہفتے میں دو دنوں تک عام لوگوں کی نقل و حرکت کے لئے بند کرنے کی کارروائی پر نریندر مودی کی قیادت والی حکومت پر زور دیا کہ وہ فیصلے پر نظر ثانی کریں۔عمر نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کے دوران بتایا کہ یہ تغلقی فیصلہ ہے۔انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے کشمیر میں مسائل کے انبار کھڑے کردیئے ہیں اور جب آپ لوگ حکومت کرنے میں ناکام ہوئے تو آپ نے سڑکوں کو بند کرنا شروع کردیا۔انہوں نے کہا کہ نئی دہلی گزشتہ 30برسوں سے کشمیر میں جنگجوئیت کے خلاف لڑ رہی ہے لیکن اس دوران کبھی بھی شاہراہ کو بند کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ این سی لیڈر نے بتایا کہ میں نے کشمیر میں کئی انتخابات لڑے ہیں۔ میں نے 1999کا الیکشن لڑا، ہم نے یہاں کئی طرح کی صورتحال کا سامنا کیا۔ ہم نے اسمبلی کے باہر کار بم دھماکہ بھی دیکھا لیکن ہم نے کبھی بھی شاہراہ کو بند نہیں کیا۔انہوں نے نئی دہلی کو مشورہ دیا کہ وہ فیصلے کو فوری طور پر نظر ثانی کریں۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کرگل جنگ کے دوران بھی اس طرح کا فیصلہ نہیں لیا گیا،جبکہ سراغ رساں ایجنسیوں نے یہ رپورٹ دی تھی کہ خود کش بمبار کافی تعداد میں گردش کر رہے ہیں۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا،یہ کیا ہو رہا ہے،کیا کشمیر کو برطانیہ نو آبادیاتی علاقے میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے گورنر انتظامیہ کے فیصلے کو شہری حقوق میں مداخلت کے مترادف قرار دیا۔ انہوں نے کہا ’’ہم نے ریاست کو1989کی شورش سے2014میں لایا،جب سیاحت شباب پر تھی اور علیحدگی پسند بے کار ہوئے تھے۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ یہ فیصلے صادر کرتے ہیں وہ دہلی کی ربڑ کی مہریں ثابت ہو رہے ہیں،اور لوگوں کے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
پی ڈی پی
محبوبہ مفتی نے اپنے ردعمل میں بتایا کہ نئی دہلی کو کشمیری نہیں بلکہ کشمیر کی سرزمین سے سروکار ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیری جمہوری حکومت میں رہتے ہیں اور یہاں کوئی بھی مارشل لاء نہیں ہے۔ ٹویٹر پر اپنے رد عمل میں پی ڈی پی صدر کا کہنا تھا کہ ’’مرکزی حکومت کی موجودہ کشمیر پالیسی میں ہم آہنگی اور یگانگت صرف ظلم و جبر میں پایا جاتا ہے،کشمیریوں کا گھلا گھونٹو، انہیں جیلوں میں بند کردو، انہیں ہر ایک بنیادی سہولت سے محروم کردینے کے علاوہ مصیبت اور تکلیف دہ صورتحال کے لیے چھوڑدو ،کیوں کہ نئی دہلی صرف کشمیر کی زمین سے مطلب رکھتی ہے۔‘‘
کانگریس
سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے کہاہے کہ حکومت عوامی مشکلات کے ازالے اور فورسز کانوائے کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے جموںسرینگر شاہراہ کے حوالے سے عوام دوست حکمت عملی مرتب کرے ۔پریس کانفرنس کے د وران ان کاکہناتھا’’شاہراہ پر چلنے والے سیکورٹی فورسز اہلکاروں کی حفاظت اہم ہے لیکن ساتھ ہی کشمیر اور جموں کے درمیان ٹریفک بھی اتنا ہی اہم ہے ، میں سمجھتاہوں کہ ان کو (حکومت )ایسا کوئی حل ڈھوناچاہئے کہ آدھے دن سڑک سیکورٹی فورسز اور آدھے دن عام لوگوںکیلئے کھلی رہے ،بجائے اس کے کہ اسے ہفتے میں پورے دو دن مکمل طور پر بند رکھاجائے ‘‘۔انہوںنے کہاکہ اس فیصلے پر کاربند رہنا مشکل ہے کیونکہ اس پر بہت زیادہ چیخ و پکار ہوگی ۔آزاد نے کہا’’یہ بھی ایک حل ہے کہ فورسز ملک کے کسی بھی کونے سے ادھمپو رتک سفر کرسکتے ہیں جہاں سے انہیں چھوٹے چھوٹے قافلوں میں بحفاظت بانہال تک لیجایاجاسکتاہے اور پھر وہاں سے انہیں خصوصی ٹرینوں کے ذریعہ کشمیر پہنچایاجاسکتاہے ‘‘۔ریاستی صدر غلام احمد میرنے مرکزی حکومت اور گورنر انتظامیہ سے فوری طور پر شاہراہ پر سیول گاڑیوں کی آمدرفت پر پابندی ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پرے گا،جبکہ لوگ پہلے ہی نامساعد صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے سرکار کو مشورہ دیا’’فورسز کی نقل و حرکت اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کیلئے متبادل راستہ اختیار کیا جانا چاہیے‘‘۔
پیپلز کانفرنس
سجاد غنی لون نے کہا کہ حکومت کو اپنے لئے ایک فوجی شناخت تخلیق نہیں کرنی چاہئے اور فوجی ضروریات کو ہمیشہ شہری ضروریات کے ماتحت یا تابع رہناپڑے گا۔ان کا کہناتھا’’ایک ایسے وقت جب پلوامہ حملہ کے بعد ریاست اجنبیت اور بیگانگی و پریشانی کے توسیعی جذبات میں غرق ہے ،ایسے اقدامات سے صورتحال مزید بر انگیخت ہوسکتی ہے ‘‘۔سجاد لون نے کہا کہ شاہراہیں ریاست کے نقل وحمل کے نظام میں ایک اہم رول ادا کرتی ہیں اور اس کو باقی ملک سے جوڑنے میں کلیدی کردار نبھاتی ہیں اور ان پر قدغنیں لگانے سے یہ تعلق نہ صرف جسمانی بلکہ جذباتی طور پر ختم ہوجائے گا‘‘۔
الطاف بخاری
سابق وزیر خزانہ سید الطاف بخاری نے شہری ٹریفک پر پابندی کو صوابدیدی اور عوام مخالف قرار دیتے ہوئے فوری طور پر حکم نامہ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس حکم نامہ سے بغیر جواز لوگوں کو اپنے گھروں میں محصور رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔انہوں نے کہا’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ موجودہ حکومت شاہراہ پر دو دنوں کیلئے عوامی مشکلات کو نظر انداز کر کے کرفیو نافذ کر رہی ہے،اور خطہ ارض پر کوئی بھی مہذب سماج اس طرح کا ڈکیٹرانہ اپروچ قبول نہیں کرسکتی۔‘‘
سی پی آئی ایم
پارٹی لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے مریضوں،طلاب،ملازمین،تاجروں اور دیگر لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شاہراہ کے دو روز بند ہونے سے انکی سرگرمیوں اور نقل و حمل میں رکاوٹ پڑیگی،اور انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔تاریگامی نے کہا کہ حکام کو دوسرا متبادل راستہ تلاش کرنا چاہے تاکہ فورسز کی نقل و حمل میں خلل نہ پڑے۔
مزاحمتی خیمہ
حریت کانفرنس (گ) چیئرمین سید علی گیلانی نے شاہراہ کو عوام کے لیے بند کردینے کی کارروائی کو’’ عامرانہ حکم نامہ‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے کہا عام لوگوں کی گردنوں پر پھندا ڈال کر انہیں تڑپنے اور پھڑپھڑانے پر مجبور کرنے کے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔ گیلانی نے کہا کہ اس کے خلاف تمام مکتبہ ہائے فکر کے افراد، تنظیموں ، گروپوں، ٹریڈرس، ٹرانسپورٹرس اور وکلاء حضرات سے مشاورت کے بعد مشترکہ طور آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔حریت (ع) چیئر مین میر واعظ عمر فاروق نے اس فیصلے کو عامرانہ اور لوگوں کیخلاف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے لوگوں میں بدگمانی پیدا ہوجائے گی۔انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومت یہ من مانا فیصلہ واپس لیکر لوگوں کو سزا دینا بند کرے۔تحریک حریت چیئرمین محمد اشرف صحرائی نے ہر ہفتے اتوار اور بدھ کو شاہراہ عام شہریوں کی نقل و حرکت کے لئے بند رکھنے کو ایمرجنسی دور سے تعبیر کرتے ہوئے اسے’’ بدترین آمرانہ ذہنیت‘‘ کی عکاسی قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ اس پابندی سے ایک قوم کے جملہ حقوق کو سلب کیا جارہا ہے اور اس سے عام شہریوں کے علاوہ طلباء کا مستقبل مخدوش ہونے کا سخت احتمال ہے۔ صحرائی نے کہا کہ تاجروں اور عام شہریوں کی اقتصادی حالت جو پہلے ہی سے تباہی کا شکار ہے،مزید ابتر ہوگی اور مریضوں کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔
بار
ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن نے شاہراہ پر دوروز تک شہری ٹریفک کی نقل وحرکت پر پابندی کو شہریوں کے حقوق زندگی اور آزادی پر قبضے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہریوں کو سفر اور نقل و حمل کا حق حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ اس پابندی سے براہ راست تجارت،تعلیم اور دیگر شعبہ جات متاثر ہونگے۔
تجارتی انجمنیں
صنعت کاروں اور تاجروں کے مشترکہ اتحاد کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریزنے اس فیصلے کو غیر جمہوری عمل قرار دیاہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حکم نامہ کو عوامی مسائل کو زیر غور لانے کے بغیر ہی اجراء کیا گیا ہے۔چیمبر نے کہا کہ ایک ایسے وقت پر جب چیمبر وادی میں متبادل شاہرائوں کی عدم دستیابی کی بات کرتا ہے،اس کے بیچ بیرون دنیا سے رابطے کی واحد شاہراہ کو بند کرنے سے عوام کو جہاں مشکلات کا سامنا کرنا پرے گا،وہی تجارت کو بھی نقصان پہنچے گا۔ کشمیر چیمبر نے کہا کہ جموں کشمیر میں کئی بار انتخابات ہوئے ، تاہم کسی الیکشن کے دوران اس طرح کے اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ انہوں ے مشورہ دیا کہ ریاست کو صورتحال سے مقابلہ کرنے کیلئے عوام کو بلی کا بکرا نہ بنایا جائے۔کشمیر اکنامک الائنس چیئرمین محمد یوسف چاپری نے فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک منصوبے کے تحت وادی سے تعلق رکھنے والے تاجروں کے ہاتھوں میں کشکول دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔انکا کہنا تھا کہ یہ حکم نامہ مقامی معاملات کو زیر غور لائے بغیر ہی لیا گیا ہے،لہٰذا حکم نامہ کو منسوخ کیا جائے۔کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینو فیکچرس فیڈریشن صدر حاجی محمد صادق بقال نے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ہی وادی کے تاجروں کی کمر سیلاب اور مابعد صورتحال کے پیدا ہونے کے نتیجے میں ٹوٹ چکی ہے،اور اب شاہراہ کو مسافر و مال بردار ٹریفک کی نقل و حمل کیلئے دو روز تک بند رکھنے کے فیصلے سے انہیں نا قابل تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہیں۔انہوں نے کہا کہ امسال پہلے ہی شاہراہ قریب40روز تک بند ہونے کے نتیجے میں3500کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ سازوں کو یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ عوام کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،اس کا سدباب کس طرح کیا جائے گا۔ بقال نے کہا کہ آمدرفت کو بند کرنے کے نتیجے میں بنیادی شیاء کی سپلائی متاثر ہوگی،وہی موسم بہار کی آمد پر سیاحوں کے وادی آنے سے سیاحتی شعبہ بھی متاثر ہوگا۔ٹراول ایجنٹس ایسو سی ایشن آف کشمیر کے صدر اشفاق صدیق ڈگہ نے اس فیصلے کو چونکا دینے والا اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے عام شہریوں اور سیاحوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ڈگہ نے کہا کہ طلاب اور بیماروں کے علاوہ دیگر لوگوں کے نفسیات پر اس فیصلے سے منفی اثرات مرتب ہونگے،جبکہ تجارت اور معیشت کو بھی نقصان پہنچے گا۔انہوں نے کہا کہ حکام کو یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں وادی میں اشیاء ضروریہ کی چیزوں کی قلت ہوگی،جبکہ متبادل شاہراہ نہ ہونے کے نتیجے میں شہری آبادی گھروں میں محصور ہوگی۔