سال 2008میں امر ناتھ شرائن بورڈ کے حق میں سرکاری جنگلاتی زمین چوری چھپے الاٹ کرنے کے ردعمل میں پوری وادی بلکہ پوری مسلم ریاست سراپا احتجاج بن گئی ۔فقید المثال عوامی تحریک نے حکومتی ایوانوں میں لرزہ طاری کیا ۔بھارت کے منصف مزاج اورحق گودانشوروں اور صحافیوں نے دلّی کو مشورہ دیا کہ وہ کشمیری عوام کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ان کی چاہتوں اور امنگوں کے مطابق مسئلہ حل کو حل کرے ۔بعض نے بھارت کو نوشتہ دیوار پڑھنے کی ضرورت کا احساس دلاتے ہوئے کہا کہ ’’بھارت کو کشمیریوں سے آزادی حاصل کرنے کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ کشمیریوں کو بھارت سے ‘‘۔ساٹھ سے زیادہ کشمیریوں کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا اور سینکڑوں کو اپاہج بنایاگیا ۔ریاستی اسمبلی انتخابات کے ’’کامیاب ‘‘انعقاد سے اگر چہ دلّی نے راحت کی سانس لی مگر 2009میں آسیہ ،نیلوفر کی عصمت ریزی اور قتل نے آتشِ پنہاں کو عوامی مظاہروں کی شکل میںپھوٹ پڑنے کا پھر سے موقعہ فراہم کیا ۔یوں دلّی کا چناوی ہنی مون چند ماہ کی مستعار لذتوں تک ہی محدود رہ کر جواں مرگ ہوگیا۔پھر2010کے انتفاضہ نے بھارت کے ارباب حل وعقد کو اس حقیقت ِ کبریٰ سے بخوبی آگاہ کیا کہ کشمیر میں بھارت محض فوجی طاقت کے بل پر ’’اٹوٹ انگ‘‘کی رٹ لگا ئے ہوئے ہے ۔ یعنی سٹیٹ انڈیا جس ’’ڈی فیکٹو‘‘کنٹرول کے ذریعے کشمیر پر قبضہ کئے ہوئے ہے ،کشمیری عوام کی طر ف سے اس کو ’’ڈی جور‘‘قبولیت ہنو ز ملنا باقی ہے ۔اس سے آپ سے آپ اس کے ان دعوئوں کی قلعی کھلتی ہے کہ اتنے فیصد ووٹ ڈال کر کشمیریوں نے بھارت کے ڈیموکریٹک سیٹ اپ پر اپنے اعتماد کاا ظہار کیا ہے ۔شاہ فیصل اسی پس منظر میں انڈین سیول سوس (آئی اے ایس)کے ٹاپر پہلے کشمیری کے امتیازی اعزاز کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔بھارت کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اور حکمرانوں اورسیاسی نیتائوں نے فیصل کو اپنے قومی مفادات کیلئے پراموٹ کرنا شروع کیا۔تعلیم یافتہ نوجوان چونکہ مزاحمتی تحریک کا ہر اول دستہ بن چکے ہیں ،اس لئے ان کی سوچ اور اپروچ سکا رُخ تبدیل کرنے کیلئے فیصل کو ایک رو ل ماڈل کی حیثیت سے پیش کیاگیا۔ورنہ اس سے قبل بھی ایک کشمیری نے آئی اے ایس میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی مگر چونکہ اس وقت بد اعتمادی کا لاوا سینوں سے باہر آکر سٹیٹس کو کو چیلنج نہیں کر پارہا تھا،اس لئے پاور سٹرکچر کے گلیاروں اور میڈیا نے اُسے درخور اعتنا نہ سمجھا۔جبکہ اس وقت کے وزیر داخلہ چدمبرم سے لیکر فوجی بنکر کے حوالدار تک کشمیری نوجوانوں کو فیصل کے چھوڑے گئے نقش قدم کو ’’چومنے ‘‘کا مفت اور ’’خیر خواہانہ ‘‘مشورہ دینے لگے۔اس میںکوئی شک نہیںکہ میڈیا نے فیصل کو جس طرح گلیمرائز کیا ،اس سے کشمیری نوجوانوں میں آئی اے ایس کی طرف رخ کرنے اور اپنی قابلیت کا لوہا منوانے کا رجحان بڑ ھ گیا لیکن اب اونچی فضائوںمیں پرواز کرنے اور اپنی عزت ،خود داری اور وقار کا رزق تلاش کرکے اپنی مرادوں اور تمنائوں کے جس جزیرے کا تعارف دیاگیا،اس میںفیصل جیسے لوگوں کو شاہینوں سے زیادہ کرگس نمالوگوں کی حکمرانی میں جینا پڑا ہے ۔اب جس طرح وہ سارے جاہ و حشمت کو چھوڑ کر اور تراشیدہ خوابوں کی عملی تعبیر سے خوف زدہ ہوکر اپنے لوگوں کو’’ریاستی جبر اور ہلاکتوں کے سائیکلوں ‘‘سے نجات دینے کے مقصد کیلئے اپنی مٹی سے جڑنے جارہے ہیں،اس سے اس بیانیہ کے غبارے سے وہ ساری ہوا نکل گئی ہے جس بیانیہ کو نئی دہلی نے تحریک مزاحمت کی سمت کو موڑنے کیلئے کل تک ترتیب دیاتھا۔پوچھا جاسکتا ہے کہ جس شخص کو دلّی نے اپنے سیکولر اور ڈیموکریٹک سیٹ اپ کے شعائرکے طور پر اور اپنے خوابوں کے نخلستان کو سجانے کیلئے لاکھڑا کیاتھا،وہ اگر اس نظام اور اس سے وابستہ فکری محل وقوع سے گھٹن محسوس کرکے خود کو الگ کررہا ہے تو کشمیری سوادِ اعظم کیلئے دلّی کے بھاشنوں پر کان دھرنے کیلئے کیا کچھ باقی رہتا ہے ۔وہ جسے تم ایک سیلبرٹی کے طور پر مشتہر کرتے رہے ،اس قدر ناامید ! اس قدر تم نے اسے لِٹ ڈائون کیا ! اب جو نوجوان کشمیر میں اپنی زیست کی صلیب اٹھائے پھر رہے ہیں،ان کیلئے فیصل محض ایک آئی اے ایس امتحان پاس کرنے والا کشمیری نوجوان ہے ،باقی بھارت نے اس کو اپنے سسٹم کے ساتھ جڑنے کیلئے جس مسکاٹ(mascot)کی حیثیت سے پیش کیاتھا ،اس کی افادیت ختم ہوچکی ہے ۔یہ چیز چیخ چیخ کر بتارہی ہے کہ دلّی اور سرینگر کے جذبا ت اور چاہتوں کے دھارے ایک دوسرے سے بالکل جدا اور آپس میں متصادم ہیں۔
3جنوری 2019کو شاہ فیصل اور محبوب مخدومی نے انڈین ایکسپریس میں اپنے ایک مشترکہ مضمون بعنوان ’’A Paradox in the Valley‘‘میں اس امر کا اعتراف کیا کہ حریت کانفرنس اس غالب بیانیہ کی ترجمانی کرتی ہے جو تحریک آزادی کے حوالے سے کشمیر میں پایا جاتا ہے ۔گزشتہ جمعہ کی پریس کانفرنس میں انہوں نے کہاکہ وہ حریت کے ساتھ اس لئے ملنا نہیں چاہتے ہیں کیونکہ وہ انتخابی سیاست میں یقین نہیں رکھتی جبکہ میں سسٹم کے اندر رہ کر کشمیری عوام کے غالب بیانیہ کی ترجمانی کرناچاہتاہوں ۔انہوںنے یہ بھی کہا کہ میرا انداز تکلم اور لفظوںکی صورت گری میں بھی انہی جذبات کا عکس ہوگااور میرے لئے استصواب ،حق خود ارادیت ،آزادی جیسی اصطلاحیں قابل ِ اعتراض نہیں۔انہوںنے اعتراف کیا کہ بھارتی فوج کشمیر میں سیاسی معاملات چلا رہی ہے جبکہ سیاسی جماعتوں کو میونسپل کاموں تک محدود رکھاگیا ہے اور عوام میں ان کی کوئی اعتباریت نہیں ہے۔
فیصل کے بیان سے کئی سوال اٹھتے ہیں۔اول یہ کہ حریت کشمیری عوام کے جذبات کی ترجمان اگر ہے اور فیصل اعتراف کرتے ہیں کہ وہ ہے ،تو وجہ یہی ہے کہ حریت سسٹم سے باہر رہ کر اپنے مزاحمتی کردار کو نبھاتی چلی آئی ہے ۔یہ اسی کردار کا نتیجہ ہے کہ عوام نے ان پر اعتماد ظاہر کیا ہے ۔ حریت لیڈر شپ اور ان کے کارکنوںپر جس طرح پولٹیکل سپیس تنگ کی گئی ہے اور ان کو ریاست اور ریاست کے باہر جیلوں میں جس طرح سڑوایا جارہا ہے ،یہ اسی عوامی اعتماد کا خوف ہے جو دلّی اور یہاں کے مقامی حکمران ٹولے کو لاحق ہوا ہے ۔نوجوانوںکا بہت بڑا غالب حلقہ اس وقت خود کو مزاحمتی جدوجہد سے وابستہ کئے ہوئے ہ،یہ چاہے عسکریت کی شکل میں ہویا حریت کے سیاسی اپروچ (دوسرے لفظوں میں انتخابات کے بائیکاٹ )کی شکل میں ہو۔اور زمینی سطح پر اس کا ثبوت عیاں ہے ۔نوجوان اپنی جانوں کا پرواہ نہ کرتے ہوئے مقامات تصادم کی طرف جاکر اور پھر ہزاروںکی تعداد میں جنازہ کے جلوسوں میں شرکت کرکے باور کراتے ہیں کہ عساکر ان کیلئے ’’دہشت گرد‘‘نہیں جیسا کہ انکو پیش کیاجارہا ہے اور پھر کیا یہ حقیقت نہیں کہ پوری ملی ٹنٹ لیڈ ر شپ انتخابی عمل کو سرے سے مسترد کرتی ہے ۔آخر اگر ان کو یہ یقین آتا کہ وہ جس بیانیہ کو لے کر اٹھے ہیں ،کوئی چنائو حامی تنظیم یا پلیٹ فارم اقتداری سیاست کا حصہ بن کر اسی بیانیہ کے ساتھ خود کو منسلک کرکے اسے مستحکم بنا دیتا تو غیر متوازن جنگ میں راتوں کے مسافر بن کر صبح اپنی جوانیاں نچھاورکرنے پر وہ خود کو کیوں مجبور پاتے۔انہوںنے ہتھیار اٹھالیا ہے ،اسی لئے کہ سسٹم نے شاید ان کیلئے پر امن طریقے سے جدوجہد کرنے کی جگہ باقی نہیں چھوڑی اور اگر چھوڑی ہے تو پہلے شرائط کا طوق گلے میں ڈال کر آنے کا فرمان جاری کئے ہوئے ہے ۔اس قسم کی مطالباتی سیاست جمہوری ماحو ل کو پروان چڑھائے تو کیسے ۔جیسا کہ حریت کے حوالے سے حکمرانوںکا رویہ بتارہا ہے کہ چاہے تمہاری جدوجہد سو فیصد جمہوری ضابطوں اور امن کے تقاضوں کے مطابق کیوں نہ ہو،جب تک سسٹم کا وظیفہ خوار بن کر شاہ کو دعائیں نہ دیتے پھرو،تیس تیس بار سیفٹی ایکٹ کی تلوار سے تمہاری گردنیں مانپی جائیں گیں اور تمہیں تہاڑ جیل یا گھروں میں ہی جمہوریت کے فرمانروائوں کے ’’انداز ِ دلبری ‘‘کے جلوئوں سے لطف اندو ز ہونا پڑے گا۔
اس سب کچھ کے باوصف اگر شاہ فیصل صاحب اپنے دعوئوں کے مطابق نوجوانان ِ کشمیر کے اس بیانیہ کو ،جواب تک حریت کے پلیٹ فارم سے ادا ہوتارہا ہے ،انڈین مین سٹریم پالیٹکس کا حصہ بن کر نبھانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ اس صدی کے بڑے کارناموں میں ایک شمار کیاجائیگا۔سسٹم کا حصہ بن کر وہ حریت کارول نبھاتے رہیں گے تو یہ ہم سب کیلئے خوشی کا باعث ہوگا۔نہ جیلوں کی کال کوٹھریوں میں کسی کو سڑنا پڑیگا،نہ بینائی کھو بیٹھنے کا ڈر ہوگا،نہ پی ایس اے کی تلوار گردنوں پر لٹکے گی ،نہ افسپا کا عفریت دندناتاپھر تا رہے گا،نہ بستیوں کو تاراج ہوناپڑ ے گااور نہ آپریشن آل آئوٹ کا قبر برپا ہوگا۔بس ایوان ِ اسمبلی یا لوک سبھا میں دلّی دربار کو للکارنے سے ہمیں سب کچھ دیاجائے گا،ایسا ہوتا ہے تو شاہ فیصل نوبل انعام کا سب سے بڑا حقدار ہوگا اور ہر کوئی مجھ سمیت ان کے ہاتھ پر بعیت کرنے پر دوڑ کے چلا آئے گا۔
لیکن پتہ نہیںدل میں کیوں ایک خوف کی سی لہر اٹھ رہی ہے اور اس خو ش گمانی کو تسلیم کرنے کیلئے کیوں تیار نہیںہو پارہا ہے بلکہ ہانکے پھرتا جارہا ہے کہ اگر اس اسٹیبلشمنٹ میں خود گیلانی صاحب کی دستار بندی کی جاتی ہے تو شاید وہ بھی تحریک ِ مزاحمت کو تیاگ دینے کیلئے نئے میک اپ کے ساتھ آئیں گے ۔سسٹم کا نمک اپنی تاثیر میں کسی اجنبی عنصر کو قبول نہیں کرتا،دلّی کے ساتھ کشمیر کے تعلقات کا روزنامچہ ہمارے لئے ایسے ہی تازیانوں سے عبارت ہے ۔اورہاں دنیا جانتی ہے کہ مین سٹریم سیاست سے جڑے لوگ کب کے عوام کی نظروں سے گر چکے ہیں اور اپنی اعتباریت کھوچکے ہیںاور جیسا کہ شاہ فیصل کہتے ہیں کہ وہ اس کو قابل اعتبار بنانا چاہتے ہیں ،دلّی کیلئے اس سے بڑھ کر اور کیا مسرت آمیز خبر ہوگی !
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
ماخوذ:ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘ سری نگر