ڈاکٹر شاہ فیصل ہاورڈ یونیورسٹی لندن سے اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب وادی واپس لوٹ آئے تو انہوں نے اچانک جموں کشمیر میں کم نہ ہونے والی روزمرہ ہلاکتوں اور ہندوستانی مسلمانوں کو زندگی کی دوڑ میں نظر انداز کئے جانے کے خلاف احتجاجاًانڈین ایڈمنسٹریٹیوسروس( آئی اے ایس ) سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ اس اعلان سے سیاسی گلیاریوں میں ہلچل پیدا ہونا لازمی تھا، اس لئے فیصل سوشل میڈیا کے علاوہ کشمیر کے چوک چوراہوںپر موضوع بحث بن گئے ۔ ا س سلسلے میں پہلے دن سے رائے عامہ منقسم ہے ، بعضے اس فیصلے کو اُن کی ڈرامہ بازی قرار دے رہے ہیں ، کوئی اُنہیں سچ کہنے پر شاباشی دے رہا ہے، کوئی اُن سے کشمیر حل کی اُمید باندھ رہا ہے ، کئی ایک شاہ فیصل کی ترک ملازمت کو سیاسی لیڈر بننے کا پہلاقدم گردان رہا ہے ، یعنی جتنے منہ اتنی باتیں ۔ تاریخ میں یہ واقعہ کن لفظوں سے یاد کیا جائے گا ،اس پر کوئی تبصرہ ٹالتے ہوئے ، یہ ایک قابل ذکر بات ہے کہ جب شیخ عبداللہ مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم ایس سی کیمسٹری کر کے وطن لوٹے تو انہیں شہر خاص سری نگر میںباغ دلاورخان کے سٹیٹ اسکول میں بہ حیثیت ٹیچر نوکری دی گئی، جب کہ ان کے ہم جماعتی کسی پنڈت جی کو ان سے بہتر نوکری دی گئی ۔اس امتیازی سلوک پر شیخ عبداللہ برافروختہ ہوئے اور انہوں نے نوکری سے سبکدوشی لی ۔ نوکری چھوڑ کر انہوں نے فتح کدل سری نگر کی’’ ریڈنگ روم‘‘ ٹولے سے اپنے مراسم بڑھائے جو شخصی راج سے گلوخلاصی حاصل کر نے کے تعلق سے پڑھے لکھے کشمیری مسلمانوں میں سیاسی بیداری کی پہلا پڑاؤ تھا ۔ شیخ صاحب نے نوکری چھوڑ نے کے بعد ۱۹۳۱ء کو باضابطہ طور مسلم کانفرنس کی کمان سنبھال لی اور باضابطہ طورسیاست میں آگئے ۔ پھر اُن کے ہاتھوں کشمیری قوم سے کیاکیا ہو ا،اُس کی رُوداد سے تاریخ کشمیر کے اوراق بکھری پڑی ہے ۔ شاہ فیصل نے بھی اپنی ملازمت کے بندھن توڑ دئے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اپنی سرکاری ملازمت چھوڑ کر وہ نا مساعد حالات کے ہما لیائی بوجھ تلے جھوج رہے کشمیر کی کوئی نئی تاریخ مرتب کرسکیں گے یا اُن کا استعفیٰ صرف چند روزہ اخباری شہ سرخیوں کی جگہ لے کر نا گفتہ بہ حالات کے شور وغوغا میں دفن ہوگا ؟
ریاست جموں وکشمیر کی تاریخ۳ا ؍جوالائی۱۹۳۱ ء سے آج تک گہرے زخموں سے چُور چُور ہے ۔یہ تاریخ دردناک بھی ہے اور غم انگیز بھی۔ اس تاریخ کے پنوں نے خود اپنی اشک بار آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے ’’قوم کے خادموں ‘‘نے محض اپنی کرسی کے عوض یہاں ہزاروں قبرستان ، بے نام قبریں، یتیموں کی فوج ، یسیروں کے لشکر ، بیوائیں اور نیم بیوائیں ،انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، زیر حراست گمشدگیاں اور سنہرے سپنے وعدہ خلافیوں اور جفاکار یوں کے بازار میں بیچ کر کشمیری قوم کے کس بل نکال دئے ۔ وشواس گھاتوں سے بھری اس درد انگیز تاریخ کے بیچ آج کی تاریخ میںا گر کوئی اعلیٰ سرکاری ملازم اپنی ملازمت کو لات مار کر مظلوم اہل کشمیر سے بزبان حال و قال یہ کہے کہ آپ کا بُراحال دیکھ کر میرا ضمیر مجھے کوس کررہاہے ، میں آپ کے غم اور دُکھ کا خاموش تما شائی بن کر ملازمت نہیں کرنا چاہتا ہوں بلکہ آگے بڑھ کر آپ کے ہم وغم کا مداو کرناا چاہتا ہوں، آپ کو تکالیف کے دلدل سے نکال باہر کر نا چاہتاہوں، میں آپ کے زخموں کا وہ’’ مرہم‘‘ نہیں چاہتا جو مفتی سعید کا نسخہ تھا کہ مزید زخم دینے کے لئے کشمیریوں کو جن سنگھ کے رحم وکرم پرتن تنہا چھوڑا، نہ ٹیچرز فورم کے سابق قائد اور ٹریڈ یونین لیڈر قیوم وانی کی مانند ملازمت سے رضاکارانہ سبکدوشی لے کر اب پارلیمنٹ ممبر بننے کا خواب پورا کرنے کا خواہش مند ہوں بلکہ آپ جس پیدائشی حق کو پانے کے لئے قربانیوں کا اتنا لمبا سفر طے کر چکے ہو ،اس میں، میں آپ کا ہم سفر بننا چاہتا ہوں ۔ قوم کو چاہیے کہ ا یسے شخص کو خوش آمدید کہے اور کھلے دل دماغ سے ا ُس کا استقبال کر ے مگر اس شخص کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا طرز عمل بہت جلدخود بتائے گا کہ وہ اپنے دعوؤں میں کتنا کھرا، کتنا مخلص، کتنا ثابت قدم، کتنا ایثار پیشہ اور کشمیر کاز کے سردوگرم کو برداشت کرنے کی کتنی اخلاقی صلاحیت سے مالا مال ہے ۔ اس شخص کو یہ تلخ حقیقت بھی سمجھنی چاہیے کہ حضرت بل کے منبر ومحراب کو گواہ کرکے یہاں کے سادہ مزاج لوگوں سے رائے شماری کے لئے طرح طرح کی قربانیاں مانگی گئیں مگر پھر ان قر بانیوں کا معاوضہ کرسی کی صورت میں پانے کے لئے دلی سے ایکارڈ کیاگیا ، یعنی قوم کے حال اور مستقبل کا سستا سودا کیا گیا ۔ آج ہم اسی سودے کے تیر ونشتر گولیوں ، پلیٹوں اور عذابوں کی صورت میں شب وروز اپنی روح میں پیوست ہوتے دیکھ رہے ہیں ۔
شاہ فیصل صاحب جانتے ہیں کہ ہماری تاریح میں 1987ء جیسے الیکشن دہائیوں سے ہوتے رہے ہیں جن میں جمہوریت، اصول ، ضوابط اور قواعدکی ایسی ایسی بے حرمتیاں کی گئیں کہ اُن کے سامنے دنیا کی بدترین دھاندلیاں بھی مات کھا گئیں ۔ اصولی طور پر اہل کشمیر فی نفسہٖ الیکشن میکانزم کے مخالف نہیں مگر وہ دلی کے زیرسایہ ’’خالق میڈ ‘‘الیکشن کو بوجوہ سیاسی بازی گری سے تعبیر کر تے ہیں ۔ ا س لئے اُن کی نظر میں کشمیر حل کی منزل الیکشن کی راہ سے نہیں بلکہ جمہوری طرزکے سہ فریقی مذاکرات سے ہی پائی جاسکتی ہے ۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ الیکشن الیکشن چلّاکر کشمیر میں آج تک کرسی نواز سیاسی لیڈر ذاتی مفادات کے لئے ایک جانب لوگوں کو دھوکہ دیتے رہے، دوسری جانب دلی انہی نام نہاد انتخابات کو کشمیر حل کا متبادل جتلاکر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتی رہی ،اور کشمیر حسب ِسابق آتشیں حالات کی بھینٹ چڑھ کر جھلستا رہا ۔اس لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شاہ فیصل مسئلہ کشمیر کا حل الیکشن جیت کر بھارت سے کرا سکیں گے؟ اگر اس سوال کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ہے تو مخلصانہ مشورہ یہی ہوگا کہ شاہ فیصل کشمیر کی خون آلود ہ تاریخ کا بہ نگاہِ حقیقت مطالعہ کر یں ، انہیں خود اندازہ ہوگا کہ ان تماشوں سے کس طرح یہاں انصاف کا خون کیا جاتا رہا ہے۔
بہر حال ڈاکٹرشاہ فیصل کی پہلی پریس اور اس کے بعد والے بیانات کا تجزیہ کیا جائے تو جہاں پہلی پریس کانفرنس میںموصوف پُراعتماد دکھائی دئے ،دوسرے روز اُن کا لہجہ خاصامعذرت خواہانہ محسوس کیا گیا،تیسرے دن موصوف خاصی اُلجھن میں دکھائی دئے، چار پانچ روز کے وقفے میں اُن کے لب ولہجہ میں زمین و آسمان کا تضاد پایا گیا ۔ مخالفانہ عوامی ردعمل کے جواب میں آپ نے یہ تک کہہ ڈالا :’’ اگر مجھے محسوس ہوا کہ سیاسی لیڈر کے طور پر بھی مجھے اپنے مافی الضمیر پیش کرنے کی اجازت نہیں ملی تو میں سیاست کو بھی خیر باد کہہ دوں گا۔‘‘ اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ وہ سیاست کے دشت ِپُر خار کی آبلہ پائی بر ہنہ پا کر نے کی ہمت کریں گے۔ غور طلب ہے کہ اُن کے استعفیٰ کو اپنی سیاسی سوغات بنانے کے لئے اقتداری پارٹیاں انہیں اپنے اپنے خول میں مقید کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ مثلاً کانگریس استعفیٰ کے اس قدام کو مودی سرکار کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت قرار دے رہی ہے ۔ بی جے پی کا ایک سینئر لیڈر عادت سے مجبور ہوکر شاہ فیصل کے استعفے کے پیچھے بھی پاکستان کا ہاتھ ’’دریافت ‘‘کر رہاہے ۔ یاد رہے جب شاہ فیصل نے 2009ء میں آئی اے ایس میں اول پوزیشن حاصل کی تو وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے شاہ فیصل کو نوجوانوں کے لیے رول ماڈل کے طور پر پیش کیااور آج جب موصوف نے بڑے ہلکے الفاظ میں دلی کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تو اُن کو بڑی شان ِ نے نیازی کے ساتھ’’ پاکستان کے اشاروں‘‘ پر کام کرنے کے الزام سے نوازا جارہاہے ۔ کون کیا کہے ، اس سے قطع نظرڈاکٹر شاہ فیصل کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ کشمیر کی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں، وہ زمینی حقائق کی چھان پھٹک کریں ، وہ کشمیر میں مر کزی حکومت کی چھتر چھایا میں چلنے والی سیاست اور کرسی پانے والے سیاست دانوں کے آغاز و انجام کو بھی دیکھیں، کشمیری عوام کی گزشتہ ستر برس طویل قربانیوں، سختیوں اور مشکلات کا فہم وا دراک بھی حاصل کریں اور کشمیری قوم کے مجموعی مفادات ، خواہشات اور آرزؤں کا احترام بھی کریں ۔ جب یہ سارے ہوم ورک کر کے وہ ایک مضبوط سوچ اور غیر متزلزل ارداے کے ساتھ ہر کڑا متحان اور پل صراط پار کر نے جیسی آزمائش میں ٹاپ کر نے کی خالص اُمنگ لے کر نکلیں گے تو اللہ ان کا حامی وناصر ہوگا اور یہ بھی جان لیں مگر انہیں قبل ازوقت جان لینا ہوگا ؎
ہاں جاں کے زیاں کی ہم کو بھی تشویش توہے پر کیا کیجئے
جوراہ اُدھر کو جاتی ہے، مقتل سے گزر کر جاتی ہے
…………………………………..
رابطہ [email protected]