شام انیسویں صدی کے آغاز تک سلطنت عثمانیہ کے تحت رہا لیکن 1918 میں پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے کے بعد فرانس اور برطانیہ نے مشترکہ طور پر شام میں اپنی حکومت قائم کی جسے بعد میں مکمل طور پر فرانس نے اپنے اختیار میں لے لیا۔ 1921 میں شام کو، جو ایک ریاست پر مشتمل تھا، چھ الگ الگ ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا جس کے بعد شام میں مختلف تنظیموں کی جانب سے سنجیدہ مزاحمتی تحریکیں جاری رہیں۔ تقریباً 16 سال یا اس سے زائد عرصے تک یہ تحریکیں جاری رہیں جس کے نتیجے میں فرانس، شام کو آزادی دینے پر مجبورہوا اور یوں اپریل 1946 میں فرانسیسیوں سے سرکاری سطح پر آزادی تو حاصل کرلی گئی لیکن درحقیقت ایک طویل عرصے تک یہ فرانسیسی سامراج کے زیراثر ہی رہا۔ شام کی معاشی پالیسیاں سامراجی نظام کے تحت بنتی رہیں۔نام نہاد آزادی کے بعد نئی بننے والی حکومت بورژوازی کے زیراثر تھی جس میں آزاد اور فیصلہ کن طور پر قومی ریاست کی تشکیل کی اہلیت موجود نہیں تھی۔واضح رہے کہ بورژوازی (Bourgeoisie) فرانسیسی زبان کا لفظ ہے، عرف عام میں اسے سرمایہ دار طبقہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ طبقہ سرمائے کی بدولت مزدرور طبقے کا استحصال کرتا ہے۔ تاریخی طور پر قرون وسطی میں یورپ میں تاجر اور دولت مند طبقے کو اصطلاحا بورژوازی کہا جاتا تھا۔پہلے ہی دن سے بورژوازی نے سامراج کی پشت پناہی پر قومی ریاست بنانا چاہی لیکن ان کی ملکی معاملات میں نااہلیت نے فوج کے ملکی معاملات سنبھالنے کی راہ ہموار کی۔ فوج اور بیوروکریسی نے ریاستی امور کو اپنے ہاتھ میں لینا شروع جس کی وجہ سے جمہوریت پسندوں میں اضطراب اور بے چینی بڑھنا شروع ہوئی۔ اس طرح 1956 میں شامی فوج کے ذہین دماغوں نے عوامی اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے مصر کے صدر جمال عبدالناصر سے (جنہوں نے عرب قوم پرستی اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف اپنی واضح پالیسی کے باعث شہرت پائی تھی) شام اور مصر کے اشتراک سے ایک نئے اتحاد ’’متحدہ عرب جمہوریہ‘‘ کے قیام کی تجویز پیش کی جس پر یکم فروری 1958 کو عمل درآمد کیا گیا۔ یہ اتحاد 1961 میں شام کے علیحدہ ہونے تک قائم رہا۔ اس اتحاد کے ختم ہونے کے بعد شام میں صدارتی نظام حکومت بنادیا گیا جو 1963 تک قائم رہا لیکن حکومتی ناقص پالیسیوں اور اقرباء پروری کے باعث عوام میں غم و غصہ بھرنے لگا۔اس دوران 1963 میں سماجی بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے فوج کے ایک دھڑے نے بغاوت کرکے حکومت کا تختہ اُلٹ کر بعث پارٹی کے اقتدار کا باقاعدہ آغاز کیا اور شام میں ایک ’’بوناپارٹسٹ ریاست‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس حکومت میں حافظ الاسد (بشار الاسد کے والد) کو شامی فضائیہ کی کمان دے دی گئی۔بعث پارٹی کی حکومت میں نصابی کتب میں لمبے عرصے تک ’سرکاری مارکسزم‘ اسکولوں میں پڑھایا جاتا رہا۔ اشتراکیت یا مارکسزم کارل مارکس کے نظریات کے مجموعے کو کہا جاتا ہے۔ مارکس نے انیسویں صدی کے تین بڑے نظریاتی رجحانات کو آگے بڑھاتے ہوئے نقطہ عروج تک پہنچایا:کلاسیکی جرمن فلسفہ، برطانوی سیاسی معاشیات اور جدلیاتی مادیت۔ اس کے مخالفین بھی اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ مارکس کے انتہائی ہم آہنگ اور جامع نظریات ہی بحیثیت مجموعی، جدلیاتی مادیت اور سائنسی سوشلزم کی تشکیل کرتے ہیں اور دنیا بھر کے ممالک میں محنت کشوں کی تحریک کے نظریات اور پروگرام ہیں۔ یہی سوشلسٹ انقلاب اور کمیونسٹ معاشرے کے حصول کی بنیادوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔شام میں حکومتیں چلتی رہیں، بغاوتیں ہوتی رہیں اور عوام پر عرصہ حیات تنگ ہوتا گیا اور 1966 میں بعث پارٹی کی لیڈرشپ اور اس کے نتیجے میں شامی حکومت پر فوجی حمایت یافتہ صالح جدید کا کنٹرول ہوگیا اور جنرل حافظ الاسد اس نئی حکومت کے وزیرِ دفاع بنا۔ یہ حکومت 1971 تک چلی اور بالآخر 1971 میں ایک اور بغاوت کے بعد جنرل حافظ الاسد نے صالح جدید کو تخت سے اُتار کر بعث پارٹی کے سربراہ بنا اور شام کے اقتدار پر قابض ہوگیا۔ وہ 2000 میں اپنے انتقال تک 30 سال تک شام کے اقتدار پر قابض رہا۔ حافظ الاسد کا اقتدار ایک بادشاہی نظام کی طرح تھا جس کا مرکزحافظ الاسد کو حاصل تھا۔ اپنے اقتدار کے شروع میں اس نے اپنے اقتدار کو جمہوری رنگ دینے کےلیے اپنی کابینہ میں مختلف طبقے کو لوگوں کو نمائندگی دی لیکن تمام اختیارات اور فیصلہ سازی کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھا۔شام میں 74 فیصد آبادی سنی مسلمانوں کی ہے، 12 فیصد شیعہ مسلمان جب کہ
10 فیصد عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ ہیں۔ حافظ الاسد ہر مرتبہ اپنا دور حکومت ختم ہوتے ہی ریفرنڈم کراتا اور ہر مرتبہ 100 فیصد یا 99 فیصد ووٹ لے کر’’ کامیاب‘‘ ہوتا۔ ووٹوں کے تناسب سے ریفرنڈم کی شفافیت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ شام کے عوام حافظ الاسد کے طرز حکومت اور حکومتی پالیسیوں سے بیزار تھے۔ ریفرنڈم میں ہر مرتبہ ’’بھاری اکثریت سے کامیابی ‘‘اس کی شفافیت پر بہت بڑا سوالیہ نشان تھی جس کے حوالے سے بات کرنے کی کسی میں جرأت نہیں تھی اور نہ اس کی اجازت تھی۔ہیومن رائٹس رپورٹس کے مطابق حافظ الاسد کے اقتدار میں 17000 مخالفین بغیر کسی مقدمے کے قتل کردئے گئے۔ ملک میں 5 یا 5 سے زیادہ افراد کا ایک جگہ جمع ہونا جرم تھا۔ اس کےعلاوہ انسانی حقوق کی دیگر سنگین خلاف ورزیاں تھیں جو ملک میں رائج تھیں۔حافظ الاسد کے انتقال سے، تیس سالہ شاہی طرز حکومت کے خاتمے کے بعد، شامی عوام کو توقع تھی کہ نیا آنے والا حکمران شاید ان کا نجات دہندہ ثابت ہو لیکن حافظ الاسد کی کرسی سنبھالنے والے بشار الاسد نے اپنے والد کی پالیسیوں کو جاری رکھا اور عوام میں غم و غصے کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔2011 میں تیونس میں محمد بو عزیزی کی خود سوزی سے بننے والی تحریک نے جلد ہی پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کے شدید اثرات شام میں بھی پھیلے اور شیعہ سنی کا عوامی ریلا تمام تفرقات کو بھلا کر ملک میں تبدیلی کےلیے سڑکوں پر نکل آیا لیکن ایک انقلابی قیادت کی عدم موجودگی اور واضح راستہ نہ ہونے کی وجہ سے اس خلاء کو دیگر مفاد پرستوں اور سامراجی یلغار نے اپنے مقاصد کے حصول میں استعمال کیا۔
ملک میں بشارالاسد کے خلاف احتجاج کا دائرہ جیسے جیسے وسیع ہوتا گیا، ویسے ویسے شامی فوج کا رویہ بھی سخت سے سخت تر ہونے لگا اور نوبت یہاں تک آگئی کہ بشارالاسد کے حکم پر احتجاجیوں پر براہ راست فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں متعدد افراد جان بحق ہوئے۔ فوج کی جانب سے انتہائی ردعمل کے بعد عوام کا ردعمل فطری تھا جسے فوج نے مزید طاقت سے روکنا چاہا۔ ملک میں ابھی خانہ جنگی کی ابتدا ہوئی ہی تھی کہ جولائی 2011 میں شامی فوج کے ایک دھڑے نے عوام کے حق میں آزاد شامی فوج (FSA) کے قیام کا اعلان کردیا جس کا مقصد بشارالاسد کو اقتدارسےبےدخل کرنا تھا۔یہاں سے صورت حال نے ایک نیارُخ اختیار کیا۔ جیسا کہ سب پر واح ہے کہ، شام جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں جو بھی طاقت میں ہوگا وہ پورے مشرق وسطیٰ کو کنٹرول کرسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں امریکا، برطانیہ، سعودی عرب، ایران، روس، قطر، اسرائیل اور دیگر ممالک بھرپور انداز میں اپنی حاکمیت چاہتے ہیں اور اس کے حصول کےلیے ہر ممکن اقدامات کرنے میں مصروف ہیں۔یہاں ایک اور بات بہت اہم ہے:کردوں کے حوالے سے امریکا، اسرائیل، برطانیہ، سعودی عرب اور دیگر ممالک نے ہمیشہ ایران، عراق، شام اور ترکی کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت کی ہے، بلکہ اسرائیل نے تو ریفرنڈم میں کامیابی کے بعد کردستان میں اپنا سفارت خانہ بھی کھولنے کی پیش کش کردی ہے۔مزید برآں مشرقی وسطیٰ کے مختلف ممالک ایک طویل عرصے سے امریکا اور روس کے بلاک رہے ہیں یعنی ایک ملک امریکا کے ساتھ تعاون کرتا ہے تو کوئی روس کے بلاک میں دلچسپی رکھتا ہے۔ روس کو اگر مشرقی وسطیٰ کا امن اتنا ہی عزیز تھا یا وہ مسلمانوں کا خیرخواہ تھا تو ایران و عراق کی جنگ میں روس نے مداخلت کیوں نہیں کی؟ حالانکہ روس کی مداخلت سے یہ معاملہ اَحسن طور پر نمٹ سکتا تھا لیکن روس نے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ لیبیا تباہ ہوگیا لیکن روس نے مداخلت نہیں کی۔ عراق تباہ ہوگیا، لاکھوں لوگ قتل کیے گئے، اربوں ڈالرز کا انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد ہوگیا لیکن روس نے کوئی مداخلت نہیں کی۔غورطلب بات ہے کہ شام کی خانہ جنگی میں روس، امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہے۔ شام کے معاملے میں روسی امداد بشارالاسد کی روس کے ساتھ دوستی نہیں بلکہ شام کی وہ جغرافیائی اہمیت ہے جس پر اپنی حاکمیت حاصل کرنے کے بعد روس پورے مشرقی وسطیٰ کو اپنے کنٹرول میں کرسکتا ہے۔اس بات کا ادراک اسرائیل، امریکا، قطر، سعودی عرب، ایران ، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک کو بخوبی ہے کہ جس کسی کو بھی خطے میں برتری حاصل ہوگی، وہ پورے مشرقی وسطیٰ پر حکمران ہونے کے ساتھ ساتھ سونے کی کان یعنی نہر سوئز پر بھی حاکمیت رکھے گا۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ نہر سوئز مصر کی ایک سمندری گزرگاہ ہے جو 163 کلومیٹر طویل اور 300 میٹر چوڑی ہے جو بحیرہ روم کو بحیرہ قلزم سے ملاتی ہے۔اس نہر کی بدولت بحری جہاز براعظم افریقہ کے گرد چکر لگائے بغیر یورپ اور ایشیا کے درمیان آمدورفت کرسکتے ہیں۔ اس نہر سے انگلینڈ سے ہندوستان کا بحری فاصلہ نہ صرف 4000 میل کم ہوگیا بلکہ آبپاشی کے نظام کو بھی بہت تقویت ملی ہے۔ پہلے اس نہر پر برطانیہ، امریکہ اور فرانس کا قبضہ تھا مگر مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے نہرسویز کو قومی ملکیت میں لے لیا تواس پر برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل نے مصر سے جنگ چھیڑ دی تھی۔ اس نہر پر حاکمیت کے حوالے سے ہونے والی جنگ میں اَربوں ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔ ان معلومات کی روشنی میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس نہر کی مشرق وسطیٰ میں کیا اہمیت ہوگی۔ایک جانب ترکی، ایران اور روس، شام میں بشارالاسد کا ساتھ دے رہے ہیں تو دوسری جانب امریکا، سعودیہ، قطر اور اسرائیل ہیں جو وہاں موجود مسلح تنظیموں کو اسلحہ اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کررہے ہیں۔ ان طاقت ور ممالک کے شام پر قبضے کی کوشش میں لاکھوں بے گناہ شامی مارے جا رہے ہیں، لاکھوں اپنا گھربار چھوڑ کر دیگر ممالک میں پناہ گزین ہورہے ہیں اور ہزاروں پناہ حاصل کرنے کی کوششوں میں سمندر برد ہوچکے ہیں۔ اس وقت شام میں ایک روٹی کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ معیشت تباہ ہوچکی ہے، غذا کی انتہائی قلت ہے جب کہ علاج معالجہ نہ ہونے کے باعث روزانہ ہزاروں لوگ مررہے ہیں۔ روس، ترکی میں اور ایران، شام میں اپنا اثر و رسوخ بنانے کےلیے اسدی حکومت کے خلاف کھڑے ہونے والے عوام کا راستہ روکنے کےلیے ہر طرح کا طریقہ استعمال کررہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ احتجاج کرنے والوں میں کسی قائد کی عدم موجودگی سے بے ہنگم ہجوم بے قابو ہوا اور غیرملکی ایجنڈا لے کر مسلح گروہوں کے معاو نین اس ہجوم میں داخل ہوئے جسے اسرائیل، امریکا، سعودی عرب، قطر، روس، ایران، ترکی اور دیگر ممالک کی پشت پناہی حاصل ہے اور ہر کسی نے اپنی سمجھ اور مفادات کے تحفظ کےلیے اقدامات کیے۔ یوں مشرق وسطیٰ پر تسلط اور کنٹرول کی جنگ میں ایک ایسی خانہ جنگی شروع ہوگئی جس میں نقصان صرف مسلمانوں کا ہورہا ہے۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جس طرح دنیا بھر میں مسلمانوں کو دشمنوں سے زیادہ اپنوں نے نقصان پہنچادیا، ایسے ہی شام میں بھی مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں ہی قتل کیا جارہا ہے۔ ترکی اس لئے مار رہا ہے کہ اسے کردوں سے خطرہ ہے۔ ایران اس لیے اسد کی حمایت کررہا ہے کہ وہ شیعہ مسلمان ہے اور وہ بھی کردوں کے خلاف ہے۔ روس اس لئے مار رہا ہے کہ اسے اسد کا ساتھ دینے سے زیادہ فائدہ حاصل ہوگا کیونکہ بے ہنگم ہجوم میں مسلح گروہوں کی شمولیت نے سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔اسرائیل اب اسد حکومت کو مستحکم نہیں ہونے دینا چاہتا اور یوں وہ شام میں باغیوں کی ہر ممکن مدد کر رہا ہے۔ امریکا، جو اسرائیل کے مفادات کا ہے محافظ رہا ہے، وہ بھی اسی روش پر گامزن ہے۔ سعودی عرب کے ایران اور شیعوں کے ساتھ اختلافات سے دنیا آگاہ ہے۔ قطر بھی اسد حکومت کے خلاف باغیوں کی سپورٹ کررہا ہے۔یہاں مسلمانوں کو ضرورت ہے ایک قرآن، ایک رسولﷺ کے احکامات کی روشنی میں امت کو ایک پیج پر جمع کرنے والے علماء کی لیکن بدقسمتی سے یہاں اسلام زندہ باد چلّاکر صرف اپنی دکانداری چمکائی گئی ہے، اپنی تجوریاں بھردی گئی ہیں۔ یہاں ایک بھی ایسا عالم دین نہیں جو مسلمانوں کو یہ بتائے کہ میرے دین میں اللہ فرماتا ہے کہ جس نے ایک انسان کو بھی ناحق قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔جس پیارے نبیﷺ نے فرمایا کہ پانی ضائع نہیں کرو چاہے تم بہتے ہوئے دریا کے کنارے کھڑے ہو، تو وہ دین کیسے اجازت دے سکتا ہے کہ ایک مسلمان تو دور کسی انسان کو قتل کیا جائے؟ اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے جس میں غیر مذہب کو بھی شرائط پر امان حاصل ہے لیکن یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ مذہب ومسلک کے نام لیوا، جن کا اللہ ایک ،رسول اؐیک، قرآن ایک، شریعت ایک کعبہ وقبلہ ایک ہے، وہ اپنے ہی بھائیوں کو قتل کر رہے ہیں لیکن مجال ہے جو یہ پیشہ ور ملا وصوفی اس برادر کشی کو روکنے لئے لب کشائی کریں۔ قرآن میں اللہ باربار حق وناحق کی باریکیان سمجھا کر پوچھتا ہے : ’’ ہے کوئی جو نصیحت حاصل کرے‘‘۔ کلام مجید اس وقت اتارا گیا جب دنیا جہالت کے اندھیروں میں تھی، جنگ وجدل عام تھی ، انسانیت پستی کی پاتال میں تھی اور اس وقت کے انسان کو اسی سے ہدایت ملی۔ مسلمانو! خدارا اللہ کی کتاب اور رسول اللہؐ کی تعلیمات کو سمجھو اور اپنے درمیان بے معنی افتراق وانتشار کو ترک کروداور حق وصداقت کی مشعل برداری کے لئے تیار ہوجاؤ کیونکہ تم ہی وہ بہترین امت ہو جسے انسانوں کی بھلائی، دنیا کی آشتی اور انسان دوستی کی بہاریں لانے کےلیے چن لیا گیا ہے۔ (ختم شد)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔