رمضان المبارک کے رخصت ہوتے ہی حسب ِ دستور وادی بھر میں پھر شادیوں اور منگنیوں کا سلسلہ چل پڑاہے اور جب تک اس کائنات ہست و بود میںانسانی تمدن کی گہماگہمی باقی ہے شادی بیاہ کا سلسلہ جاری و ساری رہے گاکیونکہ اسی سے نسل انسانی کی بقا ء اور نئے خاندانوں کا وجود وابستہ ہے ۔غور سے دیکھا جائے تو آدم ؑو حوا ؑ کی تخلیق کے ساتھ ہی نظامِ تزویج عمل میں آیا اور جنت کی مبارک زمین پر ہی انہیں رشتہ ٔ ازدواج کی ڈوری میں باندھ کر نسل انسانی کے پھیلائو کا آغاز ہوا ۔گو جنت میں یہ مبارک عمل عملایا گیا لیکن آدم ؑ کی ذریت زمین پر آکر پیدا ہوئی۔اسلام نے نکاح کی اہمیت کو جابجا اُجاگر کیا ہے اور یہ تمام انبیا ئے کرامؑ کی سنت ِمتواترہ بھی رہی ہے ۔یہی بات قرآن کریم نے بیان کی ہے :(اے محمد ؐ)ہم نے آپ سے پہلے بھی یقیناً رسول بھیجے اور اُنہیں بیویوں اور اولاد سے بھی نوازا (الرعد۔۸۳)۔نبی رحمتؐ نے اپنے مقدس ارشادات میںنکاح جیسے اہم معاملہ کی افادیت اور ضرورت کو خاص انداز میں واضح فرمایا : ’’اے نوجوانو!جو تم میں سے نکاح کی استطاعت رکھتے ہوں،انہیں نکاح کرلینا چاہئے کیونکہ نکاح نگاہوں کو بچا لیتا ہے اور شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے (یعنی نظر کو بہکنے اور جذبات کو بے لگام ہونے سے نجات دلواتا ہے)،جو نکاح کی طاقت نہیں رکھتا اسے چاہے کہ شہوت کا زور توڑنے کے لئے وقتاً فوقتاً روزے رکھے‘‘۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان کو نکاح سے صرف جنسی جذبات کی تسکین کا سامان ہی فراہم نہیں ہوتا بلکہ قلبی سکون اور ذہنی استراحت بھی میسر آتے ہیں۔
مرورِزمانہ سے دنیا میں کچھ ایسے نظریات و افکار بھی پنپ گئے جن کے تتبع میں شادی اور نکاح کی اہمیت کو کم کرنے کے لئے مختلف بے تُکی باتیں کہی گئیں یا بے بنیاد تصورات گھڑلئے۔ کئی مذاہب نے رہبانیت کے چکر میں پھنس کر شادی کو روحانی اور اخلاقی ترقی میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے تجرد کی زندگی اپنانے کا درس تک دے دیا ۔ حالانکہ یہ سوچ نہ صرف فطرت انسانی کے خلاف ہے بلکہ نظام قدرت سے نا آشنائی کا مظہر ہے ۔ ایک معروف مسلم مفکر نے لکھا ہے کہ رہبانیت کا تصور آپ کو عیسائیوں میں نظر آئے گا اور ہندوؤں میں بھی ۔دنیا کے اور بھی مذاہب ہیں جیسے جین مت اور بدھ مت ،اُن میں یہ تصور بھی آپ کو ملے گا کہ نکاح اور گھر گرہستی کی زندگی روحانیت کے اعتبار سے پست درجہ کی زندگی ہے ،مرد ہو یا عورت دونوں کے کے لئے تجرد کی زندگی ان کے یہاں اعلیٰ و ارفع زندگی ہے ۔ نکاح کی حوصلہ شکنی کرنے والے ان مذاہب کے نزدیک ان کے معاشرہ میں ناکح ومنکوحہ دوسرے درجہ کے شہری (Second Rate citizens)شمار ہوتے ہیں۔ ان کی اُلٹی سوچ یہ ہے کہ شادی بیاہ کے چکر میں پڑکر ان لوگوں (میاں بیوی ) نے اپنی حیثیت گنوادی ہے ۔بہر حال آج دنیا اس امر سے واقف ہے کہ اباحیت، بے شرمی ،جنسی انارکی اور اخلاق باختگی کی سب سے بڑی وجہ شادی بیاہ جیسی اہم ترین ذمہ دار ی سے فرار ہے۔ جہاں مغرب اس حوالے سے مختلف افسانے گھڑ کر خاندانی زندگی سے راہِ فرار اختیار کروانے کی کوشش کر چکاہے، وہاں کئی دیگر ادیان رہبانیت پر زور دے کر بے لگام جنسی بھوک اور اس کے نتیجہ میں غیر فطری اقدامات سے پھوٹنے والے شرو فساد کو ہوا دینے میں مدد کی ہے۔آج روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مغرب ہو یا مشرق رہبانیت کا درس دینے والے کس کس طرح سے خودجنس زدہ ثابت ہورہے ہیں۔ حال ہی میں کیرالہ میں کئی راہب پادریوں کو ایک عیسائی شادی شدہ خاتون کی عزت ساتھ کھلواڑ کا معاملہ طشت از بام ہوچکا ہے، وہ چشم کشا ہے۔ یہ مشتے نمونے از خروارے ہیں ورنہ اگر اس پرخامۂ فرسائی کر نے بیٹھئے تو رہبانیت کے پس پردہ عفونت ،سنڈاس اور بدبو کے اتنے انبار نظر آئیں گے کہ الامان والحفیظ ۔راہبوں، راہباؤں ، ڈھونگی باباؤں اور نقلی درویشوں کے خلاف بدچلنی اور بد کاری کے مقدمات تو اب باضابطہ طور عدالتوں میں چلتے رہے ہیں اور اس وقت بھی چل رہے ہیں ، مجاز عدالتوں میں اس نوع کے بدمعاشوں کی نفس پرستیوں اور ہوس رانیوںکی کر یہہ الصورت داستانیں متاثرہ خواتین کی زبانی سنئے تو پتہ چلے گا کہ ’’مہاپُرش اورپوتر‘‘ کہلانے والے یہ چمتکاری لوگ کس درجہ گرے ہوئے ہیں کہ انسانیت شر م سار ہو رہی ہے۔
فی الوقت اس موضوع پر اور زیادہ گفتگو کرنا راقم ا لحروف کا مدعا و مقصد نہیں۔آغاز ہی میں لکھا کہ وادی میں بحمداللہ شادیوں اور نکاح خوانیوں کا سلسلہ اپنی جوبن پر ہے ۔ یہ ایک مستحسن شرعی عمل ہے لیکن شادی بیاہ کے مواقع پر ہمارے یہاں رائج شہ خرچیاںاورفضولیات اصلاًہماری ذہنی پسماندگی کی ہنسی اُڑا تی رہتی ہے ، الاماشاء اللہ۔ عام خام سب جانتے ہیںکہ شادی بیاہ کے انتظامات میں مہینوں مصروف عمل رہنے والے خانوادے اپنی شادی تقریب کو ’’یادگار‘‘ بنانے کے لئے کیا کیا جدت طرازیاںکر گزرتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اس سارے گورکھ دھندے کی تان محض سماج میں اپنی ’’ناک ‘‘ اونچی رکھنے اور اپنی ٹھاٹھ باٹھ کا مظاہرہ کرنے پر ٹوٹتی ہے اوراس غلط کام میں دونوںخاندان اپنی دولت بے دریغ بہانے سے نہیں کتراتے ۔ ان کے اپنے اڈوس پڑوس میں کون خاک و خون میں لت پت ہے ،جو رو ظلم کی چکی میں کون پِس رہا ہے ،آہ وبکا کی دل فگار صدائیں کس کس گھر سے آرہی ہیں،انصاف و عدل کا جنازہ کہاں کہاں اُٹھ رہا ہے ، شادی کے نام پر غیر شرعی رسومات وبدعات سے ناداروں و مفلس گھرانوں میں مہندی کے لئے ترس رہے ہاتھوں پر کیا گذررہی ہے ، اس ساری رام کہانی سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ہماری اس بے نیازی ولاپروائی کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ معاشرے کے ایک مخصوص طبقے کے ہاتھ چونکہ بلا محنت دولت کے انبار لگ گئے ہیں اور وہ شادی غمی سے متعلق تقاریب میںنمود ونمائش کا بے انتہا مظاہرہ کرنے میں اپنی جھوٹی شان اور عزت محسوس کرتے ہیں،اس لئے ہم گردونواح میں ایساہی دیکھتے رہتے ہیں۔ جب نو دولیتے ایسا کر گزرتے ہیں توبُرے رسومات کی خود بخود آبیاری ہی نہیں ہوتی بلکہ ساتھ میں نت نئے بدعات و خرافات بھی جنم لیتے ہیں جو مسلم سماج کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیتے ہیں۔رشتے کی بات طے ہونے کے دن سے لے کر شادیوں کے مرحلہ سے گزرنے کے مابعد بھی سماج میں مروج بد باطن رسومات کا یہ طوق اُن کے گلے سے کبھی نکلتا ہی نہیں۔وہ نہیں جانتے یا جان کر مانتے ہی نہیں کہ داور محشر کی عدالت میں مال و دولت کے اس بے جواز اور فضول صرفہ پر ان سے باز پرس ہوگی اور پکڑ ہوگی، دنیا میں ان کی دیکھا دیکھی ملت و معاشرہ پر اس ابلیسی عمل کے کس قدرقبیح اثرات پڑجاتے ہیں، انہیں اس سے بھی غرض نہیں۔انہیں اس حقیقت حال سے کون آگاہ کرے کہ نبی رحمتؐ کے فرائض میں یہ بات بھی من جانب اللہ بتائی گئی ہے کہ یہ رسول ؐ لوگوں کو رسومات و رواجات کے اُن اندھے بندھنوں سے آزاد کرنے کے لئے مبعوث کئے گئے جو لوگوں نے خود اپنے اوپر لاد کے رکھ دئے کہ ان کے بوجھ تلے لوگوںکی زندگیاں رواجات اور خرافات کی بھینٹ چڑھ کر اجیرن بن کر رہ گئی ۔
عام مشاہدے کی بات ہے کہ شادی بیاہ سے جڑے لین دین اور تقریب کے حوالے سے دولہا اور دلہن کے گھرانے جنگی پیمانے پر انتظامات پر اپنی جان مدتوںنثار کرتے ہیں ، نامہربان موسم سے لے کر ممکنہ ہڑتال کال تک قبل ا زوقت ہر پہلو پرخوب خوب غور و فکر ہوتا ہے ، باریک بینی سے چنیں وچناں پر بحث و تمحیص ہوتی ہے، کوئی چیز کر نے سے نہ رہ جائے ،اس کے لئے دماغ سوزیاں کی جاتی ہیں لیکن عجیب وغریب امر یہ ہے کہ جس ایجاب و قبول اور نکاح خوانی سے زوجین ایک دوسرے کے شریک ِسفر بن جاتے ہیں،اس محترم ومکرم مجلس کی تیاری کے لئے پیشگی سوچنا ، شریکِ مجلس افراد کی موجودگی اور حاضری وقت کی پابندی اور نظم وضبط کے ساتھ ممکن بنانا ، اس بابرکت محفل کے بارے میںدیگر لوازمات کا سنجیدہ خیال رکھنا، اکثر وبیش تر دونوں خانوادوں کے نصاب میں گویاشامل ہی نہیں ہوتا ۔ سچ مچ اس لازمی اہتمام کو سماج میں ثانوی درجہ بھی حاصل نہیں ۔ افسوس کامقام ہے کہ برسوں شادی کی تقریب کی تیاری میں دماغ کو سوچ سوچ کر پگھلائے گئے لیکن نکاح خوانی کا عمل اگر یاد بھی آیا توبس شادی سے دوچار روز پہلے ۔آشبازوں کو ایڈوانس دے چکے ، پنڈال اورڈیکوریشن کا بندوبست مہینوں پہلے کردیا،مہندی لگانے والوں یا لگانے والیوںکا بندوبست قبل ا ز وقت ہوچکا ، گویئے بھی بُک کئے گئے ،سبھی رسوماتِ بد کی انجام دہی پر بھی کافی باتیں ہوئیں اور اطمینان کا سانس لیا گیا کہ چلو خاد خدا کر کے سب کچھ طے پایا لیکن افسوس ! شادی بیاہ کے انعقاد میںایک اہم ترین مرحلہ یعنی تقریب ِنکاح اور اسے منعقد کر نے والے نکاح خوان کی جانب توجہ سب سے آخر پر جاتی ہے ۔ کیا یہ لااُبالی پن اس بات کا عکاس نہیںہے کہ روح ِ نکاح کے معاملے میں ہم کس قدر غیر سنجیدہ واقع ہوئے ہیں؟ ذاتی تجربے کی بنا پر کہتا ہوں کہ نکاح خوانی کی حساسیت سے ہماری عدم واقفیت کا یہ برملا اظہار لگ بھگ ہر جگہ ہوتا رہتا ہے ۔نکاح کے اعلان و منادی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن کیا اس تقریب کی تیاریوں کے متعلق سے بھی ہم وہی جوش و جذبہ رکھتے ہیں جو شادی کے دوسرے امورات طے کر نے میں ہم قدقدم دکھاتے ہیں؟ یہ ایک سوال چبھتا ہوا سوال ہے ۔ میری دانست میں اس کا جواب واقعی نفی میں ہوگا ۔ اس حوالے سے ایک معمولی سے استثنیٰ کے سوا یہ حالت وکیفیت عام دین داروں میں بھی پائی جاتی ہے ۔ کسی نکاح خوان کی اس سے زیادہ اور کیا توہین ہوسکتی ہے کہ نکاح کے لئے اگر بالفرض اُسے دو بجے بلایا اور پانچ چھ بجے تک بھی دولہے میاں کے گھرانے سے کوئی تشریف ہی نہ لائے تو بے چارہ نکاح خوان پر صاحبِ دختر کے گھر میںفضول بیٹھنے سے کیا کای گزتی ہے ، وہ بیان سے باہر ہے ۔اکثر الاوقات یہ دیکھا جاتا ہے گویا اُسے کمرے میں محصور کرکے رکھ دیا گیا ہو اور شادی کے انتظامات میں مصروف ہجوم میں سے کسی ایک کو بھی از راہِ ادب یا انسانیت منتظر کرم نکاح خوان سے بات چیت کے لئے دومنٹ بیٹھنے کی توفیق نہیں ملتی ۔ ایسے میں بے بس نکاح خوان اپنی داستانِ غم سنائے تو کسے ؟ اب اگرغلطی سے اس کمرے کا دروازہ کسی نے کھول بھی دیا تو مولوی صاحب کویہ جھوٹی تسلی دی جاتی ہے کہ بس مہمان آتے ہی ہوں گے ،فون آیا نکل رہے ہیں ، حاجی صاحب ابھی نہیں آئے تھے ،بس جیجا کا انتظار تھا ، مہمان ٹریفک جام میں پھنس گئے ہیں۔چار وناچار نکاح خوان دم سادھے بیٹھتا ہے ۔اب جب کافی تاخیر کے بعد’’صاحبان ِاختیار‘‘آگئے تو ایک دم حکم صادر ہوتا ہے کہ مولوی صاحب ذرا جلدی کرنا ، گھر میں مزید کام ہیں۔مولوی صاحب کیا نکاح پڑھے ؟ خطبہ نکاح کی کیا تشریح کرے ؟ طرفین کو حقوق الزوجین کی کیا تلقین کرے ؟ مجبوراً وہ بھی خطبہ ٔ نکاح اور رٹی ہوئی چند دعائیں سنا کر وہاں سے کھسک جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے ۔غور طلب ہے کہ اس اہم عمل کی اہمیت سے ہم سب اس قدر غافل کیوں ؟ شایداس لئے کہ ہمیں ا س مجلس کی اہمیت کا تصور ہی نہیں دیا گیا ہے ۔ لہٰذا علماء و خطبا ء اپنی اس تحقیر کے ذمہ دار کچھ کچھ خود بھی ہیں ۔عیسائیوںکے یہاں نکاح خوانی کا ایک منظم ومنضبط طریق کار وضع شدہ ہے ،دولہا دلہن کوپادری کے پاس جاکر اُس سے نکاح مجلس کے انعقاد کے لئے وقت لینا پڑتا ہے ، پادری اُن کے گھر نہیں جاتا بلکہ ہونے والے میاں بیوی پادری کے دئے گئے وقت سے پہلے ہی کلیسا میں اُس کے بلاوے کے منتظر رہتے ہیں ۔ اگر بالفرض دولہا دلہن چند منٹ کی دیری سے پہنچ گئے تو پادری اُس وقت نکاح پڑھانے پر آمادہ نہیں ہوتا بلکہ نوبیاہتا جوڑے کو کوئی اور تاریخ دی جاتی ہے ۔چند برس قبل برطانیہ کے شاہی خاندان کے ایک نئی جوڑے کو اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ، سوئے اتفاق سے میاں بیوی چند منٹ Lateآگئے تو پادری نے انہیں اگلے دن مقررہ وقت پر آنے کو کہا ۔ انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کرکے فوراً حکم کی تعمیل کی ۔عیسائیوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے پیروکاروں میںبھی اپنے مذہبی پروہتوں کا بے حد احترام پایاجاتا ہے لیکن ہمارے یہاں یہ سب چیز یں عنقا ہیں ۔ چونکہ یہاں وکالتاً نکاحوں کا بھی نسبتاً چلن ہے ، لیکن اس میں بھی وقت کی کوئی قید نہیں ہوتی ، نظم و ضبط کا کوئی خیال نہیں ، مولوی صاحب کی نجی مصروفیات کا احساس نہیں۔ نکاح خوان کی نگاہیں بھلے ہی آنے والوں کی راہیں تکتے تکتے اور مہمانوں کا انتظار کر تے تھک جائیں مگر اس عمومی مرض کا کوئی علاج نہیں ۔ اصالتاً نکاح پڑ ھنے والے’’ دین داروں‘‘ کے یہاں بھی بلاوجہ تاخیر کر نا یا ہونا کوئی جرم ہی نہیں ۔دیکھا یہ جارہا ہے کہ نکاخ خوانی سے فارغ ہوکر رات دو تین بجے بعد ہی مولوی صاحب کی جان چھوٹ جاتی ہے کہ گھر یا ڈیرا لوٹ جاتا ہے۔ایک مولوی صاحب نے اس تعلق سے اپنی رروداد ِ غم سناتے ہوئے کہاکہ گھر سے اُٹھانے کے لئے دلہن والوں نے باضابطہ گاڑی کا انتظام کیا لیکن رات دو تین بجے مجلس سے فراغت کے بعد گھر واپسی کا بندوبست ہونے تک ہمیشہ ذہنی اذیت سے سابقہ پڑتا ہے کہ کوئی ڈراپ کر ے گا بھی یا نہیں ۔ اس لاعلاج بیماری کا سر دست کوئی علاج نظر نہیں آتامگر پھر بھی علمائے کرام کا فرض منصبی ہے کہ وہ عوام و خواص کو سمجھائیں علماء وائمہ کی تعظیم و تکریم ناموسِ اسلام کی شہ رگ ہے۔ جہاں علمائے کرام کے مقام ومنزلت سے عوام الناس کو باخبر کر نا لابودی ہے ، وہاں شادی بیاہ کے تقدس اور وقار کے بین بین شادی سے متعلق فنکشن کے بارے میں میزبانوں اور مہمانوں دونوں کے لئے اسلامی آداب ِ مجلس کو بتائے جانے چاہیے۔ شادیوں میں سادگی اپنانے کا پیغام لوگوں تک بار بارپہنچایا جا نا چاہیے اور خاص کر مدعوئین کو پابندی ٔ وقت پر مبنی اسلامی ضابطہ ٔ اخلاق پر عمل پیرا ہونے کا درس دیا جانا چاہیے ور نہ شادی بیاہ کے باب میںبے ڈھنگی چال کے خاتمے کا کوئی امکان ہے نہ اس کے پامال شدہ تقدس سے دامن چھڑا نا ممکن ۔
فون نمبر94190803076