عید الالفطر کے فوراً بعد وادی میں شادیوں کا سیزن شدو مد سے شروع ہوچکا ہے اور یہ سلسلہ حسب ِ سابق نومبر کےآواخر تک طول پکڑے گا۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ جب کبھی یہاں حالات خراب رہے اکثر لوگوں نے دعوت نامے منسوخ کر کے شادیاں بڑی سادگی کے ساتھ انجام دیتے ہیں مگر جونہی حالات میں ٹھہراؤ آتا شادیوں منگنیاں بڑی دھوم دھام اور نمود ونمائش کے ساتھ رچائی جاتی ہیں ۔ ہمارے یہاں شادی بیاہ کے مواقع پر اکثر و بیشتر اسراف وتبذیر اور نمود ونمائش کا ایک میلہ سالگتا ہے جن میں فضولیات اور حماقتوں کی حد یں پارکی جا تی ہیں۔ جہیزی لین دین، رسوماتِ قبیحہ، بے ہنگم وازہ وان، ا?تش بازی ، چراغاںاور ہمچو قسم کی فضول خر چیاں ہمیں اجتماعی طور حرافات کے کس دلدل میں پھنسا چکی ہیں ، اس سے ہر کو ئی ذی ہوش باخبر ہے۔ اس میں دوائے نہیں کہ اہلِ کشمیر کی معاشی سرگرمیوں میں شادی بیاہ کا ایک کلیدی کردار ہو تا مگر یہ چیزگھر پھونک تماشے کا بھی دوسرانام ہے جسے روکنے میںوعظ وتبلیغ اور اصلاحی تحریکیں غیر موثر ثابت ہو تی رہی ہیں۔ وازہ وان ہماری روایات کا جزوِلاینفک ہے مگر اس کی آڑمیں اشیائے خوردونوش کو ضائع کر نے کا جو گناہ اجتماعی طور ہم سے سرزد ہو تا رہتا ہے، وہ ناقابل معافی ہے۔ ظلم بالائے ظلم یہ کہ شادی بیاہ سے منسلک رسوماتِ بد کا پیٹ ہر گزرتے دن کے ساتھ پھولتا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ جن گھرانوں میں اتنی مالی سکت نہیں ہو تی کہ ان فضولیات وخرافات کا بار اٹھا سکیں ،ان کے یہاں لڑکے اور لڑکیاں شادی کی عمریں ڈھل جانے کے باوجود رشتہ?ٔنکاح میں بندھ جانے سے رہ جا تے ہیں۔ اس صورت حال کے سماجی اور اخلاقی مضمرات کا تذکرہ کر نے سے قلم بھی قاصر ہے۔ چونکہ ہمارے یہا ں نودولتیو ں کے ایک مخصو ص طبقے میں پیسہ کی ریل پیل ہے۔ بنابریں شادی بیاہ کے نام پر ایسی ایسی بدعتوں کا نازیبا کلچر درآیاہے جس سے حیات ِاجتما عی کے رواں رواں میں مختلف بیماریاں لگی ہیں۔ ان عوارض کے زیر اثر شادی بیاہ جیسے مقدس ادارے کی اصل شکل بڑی حد تک بگڑ کر رہ گئی ہے۔ مذہبی معنیٰ میںشادی کا مطلب دو اجنبی انسانو ں کولافانی پیار محبت والے رشتے میں با ہم دگر پیو ست کرنااور انہیں ازدواجی زندگی کی گاڑی میںبٹھا کر شاہراہِ حیات کی منزل کی طرف گا مزن کر نا ہے تاکہ انسانی تمدن اور تواترِ نسل کی منزل پائی جا سکے۔ ظاہر ہے اس عظیم رشتے کی اْٹھا ن نیک نیتی، خلوص اور با ہمی عزت واکرام کے اینٹ گارے پر اٹھنی چاہیے کیونکہ اسی کے طفیل دو غیر محرم ایک دوسرے کے واسطے شریکِ حیا ت بن پاتے ہیں۔ با لفا ظ دیگر شادی کے جو ڑ میں میاں بیوی کے لئے مذ ہبی ، روحا نی ، معاشرتی، نفسیا تی اور خا نگی زندگی کی ایک کثیرا لجہت دنیا بسی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہا ں شادی کے ان اعلیٰ وارفع مقا صدکو ثانوی اہمیت بھی نہیں دی جا رہی جب کہ بے ہودہ رسو مات اور ضرر رساں روا جات کو اولیت مل رہی ہے۔ بگاڑ اس قدر آ چکا ہے گو یا شادی کی تقریب اب صرف ہمسا یوں اور دوست احبا ب رشتہ داروں میں اپنی ناک اونچی رکھنے کا تماشہ ہے۔ اسے ہم اجتما عی جبر کا شاخسانہ ہی کہلاسکتاہے کہ اس موقع پر ہرکس و ناکس دیکھا دیکھی میں فضول خرچی کر نے کو اپنا ناقابل التواء فرض سمجھتا ہے۔ حد یہ کہ اگر کو ئی ذی فہم اور باشعور انسان اس اجتما عی جبرو جنو ن کا حصہ بننے کو ٹھیک نہ بھی سمجھتا ہو لیکن ایسے لوگو ں کو بھی دیر سویر سما جی دباؤکے سامنے کلی یا جزوی طور سپر ڈالنے ہی پڑتے ہیں۔ شادی غمی کے باب میں مروج رسوماتِ قبیحہ کی نامعقولیت اور بہ حیثیت مجمو عی ان سے گلو خلاصی حاصل کرنے کے حوالے سے ہم میں فرداً فرداً کو ئی ا ختلا ف ِ رائے نہیں مگر پھر بھی اجتماعی سطح پر ان کی پیروی سےکوئی اپنا دامن بچا نے سے گریزاں رہتا ہے۔ آج تک یہاں شادی بیا ہ کو نا جا ئز رسوما ت کی زنجیروں سے آزاد کر نے کے لئے بہت ساری اصلا حی مہمیں چلا ئی گئیں مگر وہ سب یکے بعد دیگرے نا کا م ہوتی رہیں۔با یں ہمہ اس حو صلہ افزا ء حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ گھٹا ٹو پ اندھیرے میں بھی رسوماتِ بد سے نالاں باضمیر اور باشعور لوگ اپنے انفرادی انشیٹیو پر سادہ شادی تقاریب کا مثا لی اہتمام کر تے نظر آرہے ہیں۔ اس معاملے میں شادی بیاہ سے منسلک کچھ رضاکاراداروں کی کا وشیں واقعی قابل تعریف قرار پاتیںاگر یہ خلوص نیت پر مبنی ہوتیں۔ برسوں سے یہ ادارے سادہ شادیوں کی علمبرداری کی آڑ میں اخبارات میں ا پنی خود ستائی او ر تشہیر کے اتنے گن گان کرواتے ہیں کہ ان کی اصلاحی مہم محض ا یک ریاکارانہ عمل دکھا ئی دیتی ہے۔ تاہم اصلاح پسند اور حقیقی دیندارلوگ سادہ شادیوں کی حامی بھر کرسماج کے لئے ایک صحت مند مثال قائم کرنے میں پیچھے نہیں۔ ان لوگوں کے یہاں شادی کی تقاریب میں سنجیدگی اور مذہبی وقار جھلکتا ہے۔ ایسی تقاریب کو یہ چیز منفرد بنا دیتی ہے کہ ان میں فضو ل خرچی خصوصاً گوشت پو لٹری سمیت اشیا ئے خوردو نوش کی ہو ش رُبا اضاعت سے پر ہیز، آتش بازی ، چراغاں ، وقت کے بلا وجہ اور بے دریغ زیاں سے اجتناب ، دکھا وے کی مہمان نوازی اور اختلاط مردوزن سے دوری کا مستحسن جذبہ جھلکتا ہے۔ بلا شبہ ایسی سعید رو حو ں اور باشعور لوگوںکے فیض و برکت سے ابھی تک سو سا ئٹی میں کہیں کہیں اخلاقِ حسنہ کاتھو ڑا بہت اُجالا دیکھاجا رہا ہے۔ اس معاملے کو ذرا وسعت ِنظر سے دیکھیں تو باور ہو گا کہ عمو می طور کشمیری سوسا ئٹی میں گزر بسر کر نے والے ایک عا م انسا ن کا خواب بلکہ اس کی پو ری زندگی کا ما حصل عا لی شان مکا ن کی تعمیر اور بعدازاں شادی بیاہ کی تقریب پر دوست احبا ب کی پُر تکلف ضیافت کے علا و ہ کچھ اور نہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ذرا سوچئے کہ عالی شان بنگلے کی تعمیر کے لئے دیا نت و امانت اور اخلا قی اُصولو ں کو روند ڈالنے،ضیافت کے نام پر بے شمار پکوانوںسے لو گو ں کومرعوب کرنے،شادی کا جشن مناتے وقت مفت کی بجلی سے گھر کا چرا غا ں کرنے ، رات کو مائک لگاکرناچ نغمے کے شورو غو غاسے عوام الناس کی نیند یں حرام کرنے جیسی فضولیات میں مال وزر اُڑانے کی بے ہودہ حرکات سے کیا ان غریب نوجوا نو ں اور مہندی کو ترس رہیں دوشیزاؤں کا گو یا مذاق نہیںاُڑتا جن کے یہاںاتنی مالی خوشحالی نہیں ہوتی کہ بیمار ذہن سماج میں رائج رسومات وفضولیات کااہتمام کرکے بیاہ کریں۔ا ن ساری بدبختانہ کارستانیوں کے منفی نتائج کو مد نظر رکھتے ہو ئے مذہبی سکالروں اور سماجی اصلا ح کاروں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بگڑے سماج کے اس مخصوص ناسور کاقلع قمع کر نے کی ذمہ داریاں سنجیدگی سے نبھائیں تاکہ کسی غریب نوجوان کا نکاح ناممکن العمل ہو نہ کسی لاچاردوشیزہ کی عمر فضولیات اوربدعات و رسومات کا یر غمال بن کر سبب اُس کا خواب چکنا چور نہ ہو۔