سال ۲۰۰۹ء میں ریاست جموں و کشمیر کے لیے دو مرکزی یونیورسٹیوں کو قائم کرنے کی منظوری دے دی گئی تھی جس میں ایک جموں اور دوسری کشمیر میں قائم کرنا تھی لیکن کشمیر میں مذکورہ یونی ورسٹی سیاست کے گندے کھیل کا شکار ہوگئی اور آج آٹھ سال سے زیادہ عرصہ گذر جانے کے باوجود بھی یونی ورسٹی کرایہ کی عمارتوں میں قوم کے مستقبل کو سنوارنے میں مصروف عمل ہے۔اور اگر اب تک کچھ بنا ہے تو وہ دو پر ی انجینئرنگ بلاکس کے سوا کچھ نہیں ہے۔سیاست کا کھیل اُس وقت شروع ہوا جب ضلع گاندربل کی عوام سے اسلامک یونی ورسٹی (جوفی الوقت اونتی پورہ میں قائم ہے) دینے کا وعدہ کیا گیا تھالیکن سیاست کا دوسرا نام ہی ’’منگیری لال کے حسین سپنے‘‘ ہے،اس لئے گاندربل اسلامک یونی ورسٹی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔اس کے بعد نیشنل کانفرنس کو جب مذکورہ ضلع سے ووٹ بٹورنے کا وقت آیا تو سینٹرل یونیورسٹی دینے کا وعدہ کر بیٹھی اور پھر سینٹرل یونیورسٹی گاندر بل کے تولہ مولہ علاقے کی دلدلی زمین میں جا گری۔ یہ زمین پچھلے آٹھ سال سے دھنس رہی ہے اور اب تک یہاں یونیورسٹی کیمپس تو کھڑا نہ ہوا مگر مونگیری لال کا حسین سپنا بنا ہے۔ اس لئے یونیورسٹی کے مستقل کیمپس پر تعمیراتی کام شمالی کشمیر کے گاندربل ضلع میں آٹھ سال گذرنے کے باوجود فی الوقت نامکمل ہے۔مرکزی وزارت برائے فروغ انسانی وسائل نے ریاستی حکومت سے کہا تھا کہ وہ یونیورسٹی تعمیر کرنے کے لیے کرایہ سے فارغ زمین فراہم کرے۔ ۲۰۱۱ء میں ضلع گاندربل کے تولہ مولہ، واکورہ اور باروسہ علاقے میں ۴۰۲۴ کنال اور ۲ مرلہ (۵۰۳ ایکڑ) زمین سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کو دی گئی مگر بد قسمتی سے زمین دلدلی ہے جس پر تعمیر کا کام نامناسب ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر کہ اس پر کوئی بھاری عمارت تو دور کہیں کہیںایک منزلہ عمارت ہی بن پائے گی۔یہ ایک ایسا مسئلہ بن گیا ہے جو یونیو رسٹی کے تعمیراتی کام کے شروع سے لے کراب تک سلجھنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اس لئے یونی ورسٹی حکام بے دست وپا ہیں۔ اب آئی آئی ٹی دہلی سے پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ (پی ایم یو) کی ایک ماہر کمیٹی گاندربل میں مجوزہ سنٹرل یونیورسٹی کیمپس کی سائٹ پر دوبارہ سے آ رہی ہے جو اس بات کا جائزہ لے گی کہ یہاں عمودی تعمیراتی کام شروع کرنے کا امکان ہے یا نہیں۔ یونیورسٹی حکام نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ماہر کمیٹی کے دورے تک ایگزیکیو ٹیو ایجنسی این ۔بی ۔سی ۔سی تعمیراتی کام کو روکے رکھے گی۔یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا بھی یہی کہنا ہے کہ اُن کے سامنے بڑا مسئلہ زمین کے معیارکا ہے جس کی وجہ سے بنیاد ی تعمیری لاگت منصوبے کی کل لاگت کا تقریبا ً۴۵ فی صد ہے۔ جب کہ دوسری یونیورسٹیوںمیں یہ صرف ۱۵ فی صد ہے ۔اتنا بڑا خرچہ صرف اس وجہ سے ہورہا ہے کیوں کہ زمین تعمیراتی عمل کے قابل نہیں ہے اور اُسے تعمیراتی عمل کے لیے موزوں بنانے میں لاگت بہت زیادہ آئے گی۔اتنی بڑی لاگت سے بچنے کے لیے ایک راستہ یہ تھا کہ یونیورسٹی کو کہیں اور منتقل کر لیا جائے۔اس سجھاؤ پر مقامی افراد آگ بگولہ ہوتے ہیں اور یونیورسٹی کا جائے وقوع تبدیل کرنا نا انصافی اور حق تلفی قرار دے رہے ہیں۔ایم ایل ااے گاندربل شیخ اشفاق جبار نے یہ مسئلہ اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران اٹھایا تو حکومت نے صاف کہا کہ گاندربل سے یونیورسٹی کیمپس کی منتقلی کی کوئی تجویز نہیں ہے۔اب یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اول ایک ایسی زمین کا انتخاب کیا جانا جو تعمیراتی کام کے لائق نہیں اور پھر آٹھ سال گذرنے کے باوجود بھی یونیورسٹی کی مستقل عمارتیں نہ بن پانا ، یہ دو دھاری تلوار کے مانند ہے۔ اگر حکام اس بات سے باخبر تھے کہ زمین میں تعمیراتی صلاحیت مفقود ہے تو اُنھوں نے مقامی لوگوں کو زمین کا معاوضہ کیوں دیا؟ اب اگر مقررہ زمین پر ہی یونیورسٹی بنانا مقصود ہے تو اتنی تاخیر کیوں؟ یہ بھی ناانصافی ہوگی کہ ضلع گاندر بل کے ساتھ دھوکہ کیا جائے اور یونیورسٹی کو کسی اور جگہ منتقل کر لیاجائے۔ نتیجتاً یونی ورسٹی ابھی بھی کرایہ کی معمولی عمارتوں میں ایک بھٹکتی آتما کی طرح نے نیل ومرام پھر رہی ہے۔
سنٹرل یونیورسٹی کشمیر کی تعمیر میں تاخیر کے لیے ذمہ داروںکے الزامات کی بوچھاڑ کا کوئی خاتمہ نظر آرہا ہے جب کہ سینٹرل یونی ورسٹی جموں کے تعمیراتی کام کا ایک بڑا حصہ پہلے سے ہی مکمل ہو چکا ہے۔آٹھ سال سے زائد عرصے سے پہلے منظور ہونے کے باوجود سینٹرل یونیورسٹی کی مستقل تعمیر ابھی بھی خواب ہی نظر آتا ہے۔ دوسری مصیبت یہ پیش آئی کہ مستقل کیمپس کے لئے عمارت کی تعمیر میں تاخیر کے نتیجے میں یونی ورسٹی گرانٹس کمشن (یو جی سی) کی طرف سے فراہم کئے جانے والے فنڈس کو استعمال نہیں کیا گیا ۔یونیورسٹی نے مالی سال۱۴۔۲۰۳۱ء سے ۱۶۔۲۰۱۵ء تک ۱۵۲ کروڑ کی مجموعی رقم میں صرف ۵۵ کروڑ روپئے خرچ کئے، جب کہ مذکورہ مالی سالو ں میں جموںسنٹرل یونیورسٹی نے فراہم شدہ فنڈس میں سے ۸۰ فی صدکا خرچہ کیا ہے۔جموں یونیورسٹی نے جی۔ ڈی۔ اے کے ۱۲ ویںایلوکیشن منصوبہ کے تحت۳۴۷ کروڑ روپئے میں ۲۲۷ کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔ ۲۰۱۶ء میںنئے پی۔ ایم۔ سی، نیشنل عمارتی تعمیراتی کارپوریشن (این بی سی سی) کے ذریعہ انجام دیا گیا کام قابل اعتماد نہیں تھاکیوںکہ نیا پی۔ ایم۔ سی اطمینان بخش کام نہیں کر رہا تھا۔این۔ بی۔ سی۔ سی کو سال ۲۰۱۶ء جولائی کے مہینے میں دو عمارتوں کویونی ورسٹی کو سونپ دینا تھالیکن مسلسل سیاسی بے چینی کی وجہ سے وہ ہدف حاصل نہ ہو سکا۔دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ عمارتوں کی تعمیر میں تاخیر زمین کے معیار میں خرابی کی وجہ سے ہوئی ۔ حکام کے مطابق۲۰۱۶ء میں پھر سے ریاستی کابینہ کی مانگ کے طور پر جموں و کشمیر ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے ضلع گاندربل میں یونیورسٹی کی مستقل تعمیر کے لیے زمین کی منظوری دے دی تھی لیکن بد قسمتی سے ایک بھی عمارت مکمل نہیں ہو پائی ۔ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں نے خود کو یہ کہہ کر بری کیا کہ اُن کا کام یو۔جی۔سی کو مفت زمین فراہم کرنا تھانہ کہ عمارتوں کی تعمیر کرنا ۔اس ضمن میں ضلع انتظامیہ کمیٹی کو بھی تعمیراتی عمل کے لیے مجبور کیا گیا تھا لیکن ہاتھ وہی نااُمیدی آگئی کیوں کہ ضلع انتظامیہ کمیٹی کے سامنے بھی بنیادی غلطی کیمپس کے لیے دلدلی زمین کا انتخاب تھا۔ضلع انتظامیہ نے مقامی رہائشیوں کو ۲۰؍ کروڑ روپے کی رقم معاوضے کے طور پرادا بھی کردی ہے۔ مقامی زمین مالکان نے معاوضہ کے طور مستقل ملازمتوں کا مطالبہ بھی کیا تھا ۔ ان کا کہنا ہے کہ اُنھیں یونیورسٹی میں ملازمتوں کی یقین دہانی کرا گئی تھی مگر یہ بھی مونگیری لال کا حسین سپنا ہی نکلا۔
یونیورسٹی نے ۲۰۰۹ء سے لے کر۲۰۱۶ء تک سرینگرمیں مگھرمل باغ، سونہ وار اور زینہ کوٹ میں کرایہ کی بلڈنگس سے تعلیم وتدریس اور انتظام کام جاری تورکھا مگر اس نے انتظامیہ کے لئے مکانیت کے حوالے سے بہت ساری تکالیف اور مشکلات پیدا کیں۔ دوسری طرف مقامی باشندوں کے درمیان تنازعات کی وجہ سے حکومت نے تعمیر اتی عمل پر بھی روک لگا دی کیوں کہ وہ بیک وقت معاوضہ اور ملازمت کی مانگ کر رہے تھے۔ ایک اور وجہ ٔتاخیر یہ بنی کہ ایگزیکیو ٹیو ایجنسی نے کام میں کوئی اطمینان بخش قدم نہیں اُٹھایا ۔ خیر اب نیشنل عمارتی تعمیراتی کارپوریشن (این بی سی سی) موجودہ پروجیکٹ مینجمنٹ مشاورت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ۲۰۱۷ء جولائی مہینے میں پری انجینئرنگ بلاکس کو مکمل کر لے گی۔ نامساعد حالات کی وجہ سے ان بلاکس کی تعمیر میں کافی تاخیر ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مستقل کیمپس کی تعمیر میں تاخیر کی وجہ سے مرکزی فنڈس پر جیسے آکال پڑ گیا ہے۔یونیورسٹی نے کم سے کم دو پری انجیئنر نگ بلاکس کا مطالبہ کیا تھا لیکن وہ بھی مکمل نہیں ہو پائے تھے۔ اس وجہ سے متعلقہ حکام نے یہ مسئلہ ایم۔ ایچ۔آر ۔ڈی کے سامنے رکھا ۔ ادھر پہلے سے ہی موجود زمین پر تعمیراتی مشکلات کے حوالے سے منسلک اداروں کو باخبر کیا گیا تھا لیکن حکومت نے یونیورسٹی اپنی مقررکردہ زمین پر تعمیر کرنے کے فیصلے میں کوئی نظر ثانی نہیں کی۔تاخیر اور تنازعات کے بیچ گاندربل میں سینٹرل یونیورسٹی کے مستقل کیمپس کی تعمیر ایک خواب وسراب سے کم نہیں۔مختلف معاملات اور متعلقہ حکام کے مبینہ غیر معمولی نقطہ نظر کی وجہ سے تعمیراتی کام میں مسلسل تاخیر کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ چونکہ یونیورسٹی کے لیے اب تک کوئی مستقل کیمپس کا وجود ہی نہیں ہے، اس لئے مختلف مقامات سے تعلیمی سرگرمیوں کو چلانے کے لیے نجی عمارتوں کے لیے کرایہ کی ایک بڑی رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ یوں سارا معاملہ ایک عجیب وغریب گورکھ دھندا بنا ہوا ہے ۔
یونیورسٹی ہر سال کرایہ کے طور۸۰۴۸۸۱۰۴ روپئے ادا کرتی ہے۔یونیورسٹی حکام نے انکشاف کیا ہے کہ سرینگر کی عمارتوں کے لیے کرایہ کی رقم ہر ماہ ۲۴۰۶۷۳۴روپے ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ سال۲۰۱۵ ء میں ایک آر۔ ٹی۔ آئی کے جواب میں یہ معلومات سامنے آگئیں کہ گاندربل میں یونیورسٹی کے تعمیراتی اور دوسرے کاموں میں۲۰۱۵ء تک جو رقم خرچ کی گئی ہے وہ۷۸۷۰۶۲۱۲روپے ہے۔ پتہ چلا ہے کہ مذکورہ رقم جن کاموں کے لیے خرچ ہوئی ہے اُن میں مٹی کی جانچ، صلح کارانہ کاروائی، ہیئت ارضی ،سنگ میل کی تقریب، پری انجینرنگ عمارت کی تعمیر وغیرہ شامل ہیں۔گذشتہ سال مئی تک کرایہ کی تفصیلات کا حوالہ یہ ہے کہ ٹرانزٹ کیمپس سونہ وار کے لیے ماہانہ ۲۹۸۰۰۰کر ایہ اداہوئی ہے، تعلیمی بلاک مگر مل باغ کے لیے ۷۰۰۰۰،نوگام کیمپس کے لیے۹۱۷۰۶۷،بائز ہاسٹل پادشاہی باغ کے لئے ۴۲۲۰۰۰،گرلز ہاسٹل راج باغ کے لیے ۱۱۷۰۰۰،تعلیمی بلاک نوگام کے لیے ۱۶۰۰۰۰۰ کی رقم ادا کی گئی ہے لیکن اب پانچویں منصوبہ (۲۰۱۷۔۲۰۱۲ء) کے دوران گاندربل میں عمارتوں کی تعمیر اور کیمپس کی ترقی کی کے لئے 191.55 کروڑ روپئے اور 17.39 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
فروری ۲۰۱۸ء میںوزیر تعلیم الطاف بخاری نے قانون ساز اسمبلی کو آگاہ کیا کہ مرکزی وزارت برائے فروغ انسانی وسائل نے ریاستی حکومت کویونیورسٹی کے مستقل کیمپس کی تعمیر کے لیے متبادل زمین فراہم کرنے کی درخواست کی ہے لیکن اس میں بھی تنازعہ کھڑا کر کے پھر سے ایم۔ ایچ۔ آر۔ ڈی کی طرف سے موجودہ سائٹ پر تمام تعمیراتی سرگرمیوں کو تب تک روک دیا گیا ہے جب تک ایم۔ ایچ۔ آر۔ ڈی پراجیکٹ مانیٹرنگ یونٹ کامعائنہ نہ ہو جائے۔اگرچہ یونیورسٹی نے موجودہ سائٹ تو لہ مولہ میں بنیادی ڈھانچہ کے تعمیراتی عمل میں کچھ پیش رفت بھی لائی ہے اور بعض شعبوں کو منتقل کرنے کا منصوبہ بھی کر لیا گیا تھا مگر یہ عمل ایم۔ ایچ۔ ڈی ۔آر کی ہدایات کے مطابق التواء میں رکھا گیا ہے۔
پہلی منتخبہ زمین کی خرابی کی وجہ سے دوسری زمین کی تجویز کے جواب میں وندہامہ اور گلاب باغ میں ۶۶۵ کنال زمین کی نشاندہی کی گئی تھی جس میں سے۲۹۸ کنال انمل ہسبنڈری محکمے کے تحت ہے اور محکمہ سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ زمین کو منتقل کرنے کے لئے این۔ او۔ سی دے۔مگر ڈیپارٹمنٹ نے اس بارہ میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد ڈپٹی کمشنر گاندرل کو بھی ہدایات دی گئیںکہ اس مقصد کے لیے مناسب زمین کا انتخاب کریں۔ دوسری طرف کئی رکاوٹوں کے باوجود تعمیراتی ایجنسی نے نامزد سائٹ تولہ مولہ پر عمودی کیمپس کی عمارتوں پر جاری کام کومکمل کرنے کے لئے بہت سے مسائل کا سامنا کیا۔ بار بار پابندیوں کے سبب اور مقامی باشندوں کی جانب سے تعمیراتی کاموں کی مسلسل رکاوٹوں، قریبی گاؤں کے ذریعہ تعمیراتی مواد کی ڈھلائی پر بوجوہ اعتراضات اور زمین کا کم بوجھ سہنے کی صلاحیت جیسی رکاوٹیں در آتی ہیں۔ فی الوقت یونی ورسٹی تعمیر کرنے کی ضرورت کے لیے کم صلاحیت والی زمین کو اس قدر بنایاگیا ہے کہ عمارتیں بنوائی جا سکیں لیکن اس کے باوجود بھی زمین اس قابل نہیں ہے کہ اس پر ایک منزل سے زیادہ عمارت بنائی جاسکے۔ یونیورسٹی کے پراجیکٹ مانیٹرنگ سیل (پی ایم سی) ، این بی سی سی اور یونی ورسٹی تعمیراتی ونگ نے پری انجنیئرنگ بلاکس – I اور II اور ایک منزلہ عمارت (پروٹوٹائپ) بنانے میں کامیاب ہوئی ہے جو کہ یونی ورسٹی کو مارچ ۲۰۱۸ء تک سونپ دی جائے گی۔
اب پھر سے یہ مسئلہ آن پڑا ہے کہ یونیورسٹی کے لیے جو زمین پہلے سے ہی منتخب کر لی گئی تھی وہ تعمیراتی کام کے لیے موزوں نہیں ہے، اس لیے یونی ورسٹی کو کہیں اور منتقل کر لیا جائے گا۔یہ قدم اب بالکل احمقانہ لگ رہا ہے۔ کروڑوں روپئے خرچ کرنے کے بعد اب یہ کہنا کہ زمین میں تعمیراتی صلاحیت مفقود ہے اور اسے دوسری جگہ منتقل کرنے کی مجبوری ہے، یقینا ایک فعل عبث سے کم نہیں ۔دراصل یونیورسٹی پہلے ہی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی ہے اور ووٹ بنک کی تنگ گلی میں اٹک گئی ہے۔اب دوبارہ سے سیاسی کھیل کھیلا جائے گا اور یونیورسٹی کی منتقلی کا مسئلہ اُٹھایا جائے گا،لوگ بھڑک اُٹھیں گے،سیاست داں اپنی سیاست کریں گے اور پھر سے عوام کو بے قوف بنایا جائے گا۔۔۔ یون اس سارے جنجال میں یونیورسٹی کے قائم کرنے کا جو مقصد تھا وہ بالائے طاق ہی رہے گا۔کرایہ کی عمارتوں میں ایک تو intake capacityمحدود ہو جاتی ہے اور دوسری تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے میں مشکلات کا سامناہوتا ہے۔ اگر یونیورسٹی ان آٹھ سالوں میں تعمیر ہوگئی ہوتی تو یقینا کافی تعلیمی وتدریسی ترقی کر چکی ہوتی۔ بہر حال اب حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کے ساتھ براہ راست اس مسئلے کو آپسی سمجھوتے کے تحت ختم کرنے کی کوشش کرے اور یونیورسٹی کے مستقل کیمپس تعمیر کرنے کی حتی المقدور کوشش کریں۔اس کے لیے گاندربل عوام کو بھی کشمیری قوم کے وسیع تر تعلیمی مفاد میں محاذآرائی سے گریز کرکے اپنا مخلصانہ تعاون پیش کر ناہوگا ۔کیوں کہ ہم ایک ایسے بڑے تعلیمی ادارے کو اپنے اپنے مقاصد کے پیش نظر تختہ مشق بنا کر اپنا اپنا کھیل کھیل رہے ہیں جو ایک طرف طالب علموں کے مستقبل کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے اور دوسری طرف ہماری تعلیمی شاخت کو بھی مسخ کر رہا ہے۔ مقامی باشندوں کو بھی اس بات کا بھی خیال رہے کہ معاوضہ اور ملازمت اپنی جگہ مگر کہیں اپنی ضد سے ہم ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کو خود اپنے ہاتھوں کھو نہ دیںاور کل کو ہم سب کواپنے کئے پر پچھتاوا ہو۔ فی الحال سیاست دان اپنے ووٹ بٹورنے کے لیے گاندبل کے لوگوں سے جھوٹ موٹ کی ہمدردی ظاہر کریں گے لیکن بعد میں پیٹھ دکھا کر دغا دیں گے۔ اگر ہمیں اپنے تعلیمی معیار کو اُونچا کرنا ہے تو یونیورسٹی کے قیام اور تعمیراتی عمل میں ہر ممکنہ کوشش کرنا ہوگی لیکن اس کے علی ا لرغم اگر ہم اپنے وقتی مفادات کی زد میں آگئے اور یونیورسٹی کے وجود میں آنے میں حائل ہوجائیں تو یقینا ہمارے فہم و شعور اور ادراک کے دریچوں پر قفل لگے ہوئے ہیں جو ہمیں علم و آگہی کی بصیرت سے کوسوں دور رکھے ہوئے ہیں۔
نوٹ ؛ اس مضمون کی تحریر میں جمشید احمد ٹھوکر اور اشفاق حسین بٹ (پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالرز، یونیورسٹی آف حیدرآباد، تلنگانہ) کی قلمی کاوش بھی شامل ہے۔
ای میل[email protected]
فون7730866990