فکرو فہم
شمس آغاز
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام انسانیت تاریخِ عالم میں سب سے زیادہ ہمہ گیر اور جامع پیغام ہے۔ انسانیت کی بقا، معاشرتی عدل، امن و سکون، مساوات اور احترامِ آدمیت کی جو روشن تعلیمات آپ ؐ نے دیں وہ صرف اپنے زمانے کے لیے نہیں تھیں بلکہ قیامت تک آنے والی تمام نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آپؐ نے انسان کو انسان کی حیثیت سے عزت بخشی، چاہے وہ کسی نسل، رنگ، زبان یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ آپؐنے فرمایا کہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے، اس لیے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں سوائے تقویٰ کے۔ یہ تعلیم انسانیت کے لئے سب سے عظیم منشور ہے۔رسول اللہؐ کی زندگی اور احادیث میں ہمیں بار بار یہ پیغام ملتا ہے کہ انسانیت کو آسانی پہنچائی جائے، ان کے لیے خیرخواہی کی جائے اور ان کے دکھ درد میں شریک ہوا جائے۔ آپؐ کی سیرت کا ہر پہلو اس حقیقت کا شاہد ہے کہ آپ ؐنے اپنی ذات سے بڑھ کر دوسروں کی بھلائی کو ترجیح دی۔آپؐ نےنہ صرف انسانوں کو عبادات کا درس دیا بلکہ معاشرتی تعلقات کی مضبوطی اور حسنِ اخلاق کی تعلیم دی۔ آپؐنے بیماروں کی عیادت، غریبوں کی مدد، یتیموں کی پرورش اور مسکینوں کے ساتھ حسنِ سلوک کو دین کا حصہ قرار دیا۔ یہ تعلیم صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے کہ انسان کو انسان پر رحم کرنا چاہیے، کیونکہ یہی اصل انسانیت ہے۔جانوروں اور پرندوں کے ساتھ حسنِ سلوک بھی آپؐ کی تعلیمات میں شامل ہے۔ آپ نے فرمایاکہ ’’ہر جاندار پر رحم کرنے میں اجر ہے۔‘‘ یعنی اسلام صرف انسانوں تک محدود نہیں بلکہ حیوانات تک اپنے دائرہ رحمت کو پھیلاتا ہے۔ آپؐ نے انسانی جان کے احترام کو بنیادی اصول قرار دیا۔ آپ نے فرمایاکہ ’’دنیا کا فنا ہو جانا، اللہ کے نزدیک ایک انسان کے ناحق قتل سے بھی کم تر ہے ۔‘‘انسانیت کے ساتھ حسنِ سلوک کا یہ پیغام صرف مسلمانوں تک محدود نہ رہا بلکہ دیگر مذاہب کے رہنماؤں اور دنیا کی مشہور شخصیات نے بھی اس کو تسلیم کیا۔ مثلاً مشہور ہندو رہنما مہاتما گاندھی نے کہا کہ نبی اکرم ؐ کی زندگی انسانیت کے لیے ایک روشن مثال ہے۔ جارج برنارڈ شا نے کہا کہ اگر دنیا کو ایک ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو مسائل کو حل کرے تو وہ محمدؐ ہیں۔ اسی طرح جواہر لال نہرو نے اپنی تصنیفات میں نبی اکرمؐ کے اخلاق، انسان دوستی اور عدل و مساوات کی تعریف کی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا کہ رسول اللہؐ نے انسانیت کو مساوات اور اخوت کا سب سے عظیم سبق دیا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں بار بار اس بات پر زور دیا کہ نبی اکرمؐ کا پیغام دنیا کے لیے نجات کا ذریعہ ہے۔ صوفیائے کرام نے بھی محبت اور خدمتِ خلق کے ذریعے حضورؐ کی تعلیمات کو زندہ رکھا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے کہا کہ ’’محبت سب کے ساتھ، عداوت کسی کے ساتھ نہیں‘‘یہی نبی کریمؐ کی تعلیم ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی نامور شخصیات نے آپؐ کے پیغام کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب ’’دی 100‘‘میں لکھا کہ دنیا کے سب سے بااثر انسان محمدؐ ہیں۔ ان کے نزدیک آپ وہ واحد ہستی ہیں جنہوں نے مذہبی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں کامیابی حاصل کی۔نبی اکرمؐ کے پیغام انسانیت کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ یہ کسی خاص طبقے یا علاقے تک محدود نہیں بلکہ آفاقی ہے۔ آپ ؐ کی تعلیمات میں امن، محبت، عدل، مساوات، رحم دلی اور خدمتِ خلق کے وہ اصول ملتے ہیں جو آج بھی دنیا کو درکار ہیں۔ اگر انسانیت اس پیغام کو اپنا لے تو دنیا سے ظلم و ناانصافی ختم ہو جائے، جنگوں اور خونریزیوں کا خاتمہ ہو اور ہر طرف امن و سکون قائم ہو۔اس دورِ جدید میں جب انسانیت مختلف مسائل میں الجھی ہوئی ہے، نسل پرستی، مذہبی انتہا پسندی، معاشرتی ناانصافی اور اقتصادی ناہمواری نے دنیا کو عدم استحکام سے دوچار کر رکھا ہے، ایسے وقت میں نبی اکرمؐ کا پیغام سب سے زیادہ قابلِ عمل اور نجات دہندہ ہے۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ نبی اکرمؐ کی حیاتِ طیبہ اور آپؐ کی احادیث انسانیت کے لیے ایک ایسا منشور ہیں جو ہر زمانے اور ہر قوم کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ آپؐ نے نہ صرف اس پیغام کو بیان کیا بلکہ اپنے عمل سے اس کی عملی مثال بھی قائم کی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’رحمۃ للعالمین ‘‘کہا گیا۔ آپ کا پیغام وقت اور مقام کی قید سے بالاتر ہو کر پوری انسانیت کے لیے دائمی ہے۔ دنیا میںاگر انسانیت کو بچانا ہے تو ہر کسی کو نبی اکرمؐ کے آفاقی پیغام کو اپنانا ہوگا اور یہی وہ راستہ ہے جو دنیا کو امن و سکون عطا کر سکتا ہے۔
رابطہ۔9716518126
[email protected]