۔1947سے ہی وادیٔ کشمیر کئی لیڈر نما تاجروں اور سیاست سوداگروں کے لئے کی ایک وسیع تجربہ گاہ رہی ہے۔ 1990 سے آج تک اس جنت نما سر زمین کے گلی کوچے معصوموں کے لہو سے نہلائے جا رہے ہیں لیکن سیاست کی تجارت کر نے والے مستی میں مزے لے رہے ہیں۔ آج تک یہاں سوالاکھ کشمیریوں کی جانیں تلف ہوئیں ، ہزاروں لوگ زیر حراست گمشدگی کے اندھے کنوئیں میں دھکیل دئے گئے ، ہزاروں عورتوں کی عصمت لوٹ لی گئی، کھربوں روپے مالیت کی جائیداد ئیں خاکستر کی گئیں، جیل خانے اور عقوبتی مراکز کا بے دریغ استعمال ہو ا،اور اب بھی کشمیر کی فضائوں میں صرف ایسے کالے بادل منڈلا رہے ہیں جو کسی نہ کسی بہانے برسنے کے تاک میں ہیں۔ ۷۰ ؍ سال سے یہاں کی سیاست اسی چیز کے محور پر چلی آرہی ہے ۔ الحاق ہند پر مہاراجہ ہری سنگھ کے دستخط ثبت ہوتے ہی جموں کشمیر کے سیاست دانوں کو دلی نے کبھی بھی اپنے بھروسے کے قا بل ہی نہ سمجھا۔ اُس وقت کشمیر میں چونکہ صرف شیخ عبدﷲ ایک ایسی سیاسی شخصیت تھی جس نے ظالم وجابر ڈوگرہ شاہی کے خلاف عوامی احساسات اور جذبات کی نمائندگی کررہے تھے لیکن بعد کے ادوار میں شیخ صاحب خود کو ایک سچا ہندوستانی ثابت کرنے کے لئے نیشنل کانفرنس نے سیکولر سیاست کی اور انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ زیادہ قربتیں قائم کیں لیکن تاریخ نے ان کی تمام کوششوں اور دلچسپیوں کو لا حاصل ثابت کر دیا۔ دلی کے غیر اصولی فرامین اور بے رحم احکامات کو بھانپ اگرچہ شیخ عبدﷲ نے دل سے انہیں روکنا بھی چاہا بھی تھا مگر انہیں قید خانے کی نذر کر دیا گیا۔ ۹؍ اگست ۱۹۵۳ ء کے بعداس ایک رکاوٹ کو دور کرکے کشمیر کو ہندوستان میںمکمل ضم کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔ کئی سال بعد ہندوستان نے شیخ صاحب کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا کہ ان کے لئے دلی کے ہر فرمان پر سر تسلیم خم کر نے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔ ۱۹۷۵ میں شیخ صاحب نے اس نئی تبدیلی کو نہ صرف مان لیا بلکہ کئی موقعوں پرانہوں نے اپنے سیاسی اصول وموقف ( تحریک محاذائے شماری )کو سیاسی آوارہ گردی سے تعبیر کیا ۔ گویا کرسی کی خاطر انہوں نے اپنی اُس سیاست کو قربان کر لیا جس کی بدولت سے وہ ایک ہر دلعزیز رہنما تصور کئے جاتے تھے۔ سچ یہ ہے کہ نئی دہلی کی تیکھی نظروں میں جو کشمیری لیڈر بھی سر اٹھانے کی کوشش کرتا رہا ، اُسے سیاسی اُفق سے ہی ہٹایا گیا۔ یہی بات شیخ صاحب کو بخشی غلام محمد کے ذریعے دلی نے سمجھائی اوپھرر شیخ کے فرزند ڈاکٹر فاروق کے ساتھ یہی معاملہ دلی نے کیا۔ اُنہیں اپنے ہی بہنوئی خواجہ غلام محمد شاہ کے ہاتھوں دھول چاٹنے پر مجبور کردیا گیا۔ نئی دہلی کو کشمیر میں اپنے مقاصد اور مفاد کے ساتھ کسی اور کی مداخلت قابل قبول نہیں ہوتی۔ یہ بات سمجھ کر ہی سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق نے راجیو۔ا فاروق اکارڈ سے اپنے لئے نئی دلی کے ساتھ میل جول کا نیا راستہ بنادیا۔۱۹۸۷ء کی بدترین انتخابی دھاندلیاں کشمیر ی سیاست دانوں کے بس کی بات نہیں تھی اور نئی دہلی کامشن نیشنل کانفرنس کو اقتدار میں لانا اور متحدہ محاز کو دور رکھنا اس خاص مشن تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ دہلی کے سیاسی مکروفریب نے ۹۰ ء میں کشمیر ی نوجوانوں میں برسوں سے پک رہے نفرت اور احساس بیگانگی کے لاوے کو پھٹنے پر مجبور کردیا ۔۸۷ء کے بعد یہاں یکایک سیاسی حالات بگڑ گئے اور جگموہن کو اسی پُرآشوب دور میں نئی دہلی نے بطور ریاستی گورنر یہاں بھیج کر اپنا پروجیکٹ سونپ دیا۔ یہ بد نام زمانہ گورنر’’ نرسنگ آرڈرلی ‘‘ ہونے کا دعویٰ کر کے پھر کشمیر کو کیا دے گیا، وہ کسی سے پوشید ہ نہیں ہے۔یہاں کی اقلیتی پنڈت برادری کو ترک مکانی پر آمادہ کیا گیا جو کشمیریت کے چہرے پر ایک بد نما داغ لگانے کی مذموم کوشش تھی۔ بعدازاںاخوان اور ٹاسک فورس کا وجود میں آنا اور ان کا خونی مشن کوئی سر بستہ راز نہیں ۔ ان کی وجہ سے کشمیر میں قتل و غارت گری اور خون آشامی کا قاتلانہ ماحول کس قدر بڑھا،اس پر جتنا واویلا کیا جائے کم ہوگا ۔ اسی دوران پھر نئی دہلی کو فاروق عبدا ﷲکی یاد آئی لیکن جب انہوں نے بطور وزیراعلیٰ 2002 میں اٹونامی کا راگ الاپنا شروع کیا تواس پر دہلی نا خوش ہوئی اور مفتی سعید کو اقتدار پر براجماں کر کے دم لیا۔ مفتی سعید اور ان کی بیٹی محبوبہ مفتی کو نے اپنا نیا راگ ’’ سیلف رول‘‘ کے نام سے الاپا لیکن جب دہلی کو اٹونامی راس نہ آئی تو مفتی کا سیلف رول کیاخاک راس آتا؟ نئی دہلی یہاں کوئی سیاسی تصفیہ نہیں چاہتی بلکہ ہمیشہ دھونس دباؤ کا ماحول قائم کرکے آگے بڑھنا چاہتی رہی ہے۔
کشمیر اصولاً ایک سیاسی اور انسانی مسلٔہ ہے جسے محض تجربات کی بناء پر حل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان نے روز اول سے ہی کشمیر کے حقائق تسلیم نہ کرنے کی گویا قسم کھائی ہوئی ہے ۔اسی نیت سے مر کز جموں کشمیر میں صرف تجربے کرتا جارہاہے ، ایک تجربہ ناکام ہوا ،دوسرے تجربے کا کارڈ کھیلنا شروع ۔ ستم ظریفی یہ کہ عام کشمیریوں کے ساتھ ساتھ ہند نواز سیاسی خیمہ بھی ان تجربات کا کرسی کی قیمت پر شکار ہوتا گیا۔شیخ محمد عبداﷲ کا سیاسی سفر کسی سے پوشیدہ نہیں ، اسی طرح بخشی غلام محمد، صادق صاحب، میر قاسم، فاروق عبداﷲ،غلام محمد شاہ، عمر عبداﷲ، مفتی سعید ، غلام نبی آزاد ـ محبوبہ مفتی کا انجام تاریخ کا دلچسپ حصہ ہے۔ ان میں سے ہر ایک کو اپنے دور اقتدار میں دیش بھگت ہونے کی اگنی پر یکھشا سے گزرنا پڑا، لیکن دلی سے قربتوں ، وفا داریوں اور خدمت گزاریوں کے باوجود بھی انہیں وقتاََ فوقتاََ اقتدار کی گدی سے دلی کی منشاء کے مطابق رکھا گیا یا بے دخل کیا گیا۔ اس لئے ان دلی نواز سیاست دانوں کے سیاسی اُتار چڑھاؤ کو دیکھ کر یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ نئی دہلی یہاں کے حکمرانوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے اور بس۔
2016 سے چونکہ ہند نواز سیاست نے کشمیر میں اپنا سیاسی وزان اور وقار کھونا شروع کر دیا تھا،اس لئے سرینگر پارلیمانی نشست سے فاروق عبداﷲ محض آٹھ فی صد ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے ، جب کہ جنوبی کشمیر کی سیٹ پر تو تصدق مفتی کا الیکشن لڑنا ایک خواب ِ پریشاں ثابت ہوا۔ اب آئندہ نئی دہلی کو ایک اور تجربے کی سوجھی ہے ، اس لئے پی ڈی پی میں اتھل پتھل پیدا کرکے سیاسی ماحول کو ایک نئی ڈگر پر لانے کی کوششیں جا ری ہیں۔ نئی دہلی اپنے نئے مہروں کی تلاش میں ہے۔ کیا اب شاہ فیصل کے روپ میں بھی اسے ایک مہرا مل گیاہے؟ یہ سوال جواب پانے کے لئے ابھی کچھ وقت مانگتا ہے ۔ شاہ فیصل نے حال ہی میں اپنی IAS عہدے کو لات مارتے ہوئے سیاست میں آنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ وہی نوجوان ہیں جنہیں کچھ سال پہلے دہلی نے نوجوانوں کے رول ماڈل کے طور پر اُبھارا تھا اور آج یہی نوجوان کشمیر میں جاری خون آشامیوں کے لئے دہلی کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے سیاست میں آنے کے لئے پرتول رہے ہیں تاکہ کشمیریوں کے درد کادرماں کریں ۔ پوچھا جاسکتا ہے کشمیر میں پہلے بھی قتل و غارت گری جاری تھی اور ہندوستانی مسلمانوں پر آلام و مصائب کا پہاڑ توڑنا کوئی نئی بات نہیں ، تو نوسال پہلے شاہ فیصل نے اپنا استعفیٰ پیش کیوں نہ کیا؟خیر دیر آید دُرست آید کے مصداق شاہ فیصل صاحب کو اب یہاں کے اُن سیاست دانوں کا حال احوال بھی جاننا چاہیے جو انتخابی عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر چہ کشمیر حل کے بہت سارے آپشن موجودہیں مگر بقولِ شاہ فیصل انتخابی عمل میں اُتر کر ہی مسلٔہ کشمیر کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اگر شاہ فیصل ایسا سوچتے ہیں تو انہیں ضرور محمد علی جناح کی سیاسی شخصیت پر نظر ڈالنی چاہیے۔ جناح صاحب برسوں تک بہ حیثیت کانگریسی لیڈر ہندومسلم ایکتا کے علمبردار تصور کئے جاتے تھے ۔۱۹۱۰ء میں باضابطہ طور جناح صاحب نے انتخابی عمل میں حصہ لے کر کامیابی حاصل کی لیکن کچھ ہی عرصے میں اصل مسائل کو بھانپتے ہوئے انہوں نے مسلمانوں کے لئے الگ اور مخصوص رائے دہی نظام کے قیام کے لئے اپنی آواز بلند کی۔ ۱۹۱۶ میں انہوںنے مسلم لیگ اور کانگریس دونوں کو لکھنو میں صرف اس بات پر جمع کیا تھا کہ ہندو مسلم بھائی چارے کو برقرار کھا جائے۔ سروجنی نائیڈو نے پھر ان ہی کوششوں کی بدولت جناح صاحب کو Ambassedor of Hindu Muslim Unity کا خطاب دیا تھا۔ رولیٹ ایکٹ کے نفاذکے بعد جناح نے گاندھی اور کانگریس کو مسلمانوں پر حاوی ہوتے دیکھ کر نہ خلافت تحریک اور نہ ہی عدم تعاون تحریک میں حصہ لیا۔ آخر کار ہندو مسلم بھائی چارے کو ۱۹۲۸ میں پھر ایسا دھچکا لگا کہ ہندوستان کا بٹوارہ ہو گیا۔ شاہ فیصل صاحب کو یہ تاریخی حقائق سمجھنے چاہیے۔ بہرصورت کشمیر میں ہند نواز سیاست دان کشمیر مسئلے پر ووٹ بٹورتے ہیں اور پھر اقتدار میں آکر نئی دہلی کے سامنے اپنا سر جھکاکر کشمیر کے دردوکرب پر چپ سادھ لیتے ہیںکہ صرف چہرے بدل جاتے ہیں اور مسلٔہ وہی کا وہی رہ جاتا ہے ۔ اب شاہ فیصل کے سامنے دو راستے ہیں: ایک محمد علی محمد جناح کا، دوسرا شیخ محمد عبداﷲ کا۔ اب فیصلہ شاہ فیصل کے ہاتھ میں ہے کہ ان میں سے کو نسی راہ اپنے تجربے کے لئے منتخب کریں۔