حالانکہ اپنے ملک کشمیر میں جب بھی بحث ہوتی ہے وہ نائی کی دوکان یا برلب نالہ مار کسی دوکان کے تھڑے پر چھڑتی ہے پر آج کل چونکہ چلہ کلان اپنی اننگ کھیل کر پویلین پدھارے ہیں ،اس لئے چلہ خورد اور چلہ بچہ اپنا اپنا کمال دکھا نے کے لئے بے تاب وبے قرار ہیں۔اس کڑ تی سردی میں بحث مباحثے کے لئے سب سے اچھی جگہ ہریسۂ زعفرانی کی دوکان ہے۔البتہ آج کل بڑی دلچسپ بحث چھڑی ہے جس کے لئے ہریسہ کی دوکان نہیں بلکہ سیاسی پھیکا پکوان ضروری ہے۔یہ ایجادات اور پیداوار کا مباحثہ ہے اور اس میں اہل سیاست سرگرم ہیں ،یعنی تحقیق جاری ہے کہ فلاں چیز کو کس نے ایجاد کیا اور فلاں چیز کس کی پیداوار ہے۔ہو نہ ہو ان ایجادات کے پس منظر میں کہیں اعلیٰ سائینسی انعام (ممکنہ طور عالمی خجل خواری کا نوبل پرائز) پانے کی کوشش ہو۔اور پیداوار بھی یہ کہ زمین میں کیابویا اور کیا پایا ؟چونکہ اہل سیاست اس غلاظت کے شکار دکھتے ہیں، اس لئے بوئیں گولیاں اور کاٹی گردنیں ہی دِکھتی ہیں۔چلو جی یہ معاملہ صاف ہو گیا کہ اخوان اور ٹاسک فورس فاروق عبداللہ کی ایجاد ات ہیں اور یہ بیان اخوانِ دوران ، پاسبان ِہندوستان،قلم تراش شادی پور، آہ و فغان بنڈ پور المعروف ککہ پرے کے فرزند ارجمند اور کانگریس پارٹی کے دستِ راست امتیاز پرے نے داغ کر نیشنل کے ہل والے جھنڈے کو سیدھا نشانہ بنا یااور اس کے پھل میں شگاف ڈالی دی ۔ادھر ہل بردار بھی مفتیان بیج بہاڑہ اور پیرانِ اجس کی زمینوں پر ہل جوت کر اعلان کر گئے کہ ککہ پرے جیسی پیداوار ہماری ہل جوت کا نتیجہ نہیں بلکہ مفتیان و پیران کے ایک تعویذ کا نتیجہ ہے،یعنی ’’یُس کر گونگل سُہ کر کراو‘‘۔ انہوں نے بھی گولیاں بوئیں اور گردنیں کاٹیں۔یہ اور بات ہے کہ اہل سیاست نے جو کچھ بوسیدہ بویا مگر اہل کشمیر کی چار سُو گردنیں ہی کٹتی جا رہی ہیں۔جبھی تو اہل سیاست ایک دوسرے کے وقت میں کٹی گردنوں کا حساب جوڑتے ہیں اپنا بہی کھاتہ کسی کو دکھاتے نہیں۔
ہل والے ٹویٹر ٹائیگر کو اب یہ بھی دِکھنے لگا کہ راج بھون کے ذریعے ریاست کا نقشہ بدلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ واہ رے الیکشن دور کا مایا جال سب کو بے حال کردیتا ہے ! سیٹوں کے مال کی فکر لگ جاتی ہے، اپنے لوگوں کے حال کی پریشانی کھاتی ہے۔ اپنے علاقوں کے زوال پر رونا آتا ہے ۔جبھی تو وہ نقشہ یاد آگیا جو اپنے ہل والے نینشلی برسہا برس سے بدلتے رہے ہیںاور اسی نقشے کے بدلائو میں من تو شدم،بائیس سال آوارہ گردی، سبز رومال اور لال نمک کا ملاپ،او رنہ جانے کیا کیا رنگ بھر ڈالے کہ سارے رنگ بس اپنے ہی گپکار کو راس آئیں۔اس پر طرہ یہ کہ اپنے دادا جان کی میراث پبلک سیفٹی ایکٹ کو اُکھاڑ پھینکنے کا اعلان کردیا۔ارے بھائی پی ایس اے پر تو آپ کے خاندان کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ،بھلا یہ بات کہہ کر نا خلف ہونے کا اشارہ کیا دینا؟
گزری سیاست کاری میں تمام عمر
آدھی شباب میں کہیں آدھی عذاب میں
ہم بھی کیا عجب لوگ ہیں کہ اب کی بار مود ی سرکار نے اچھے دنوں کا وعدہ کیا اور ہم انہیں بھارت ورش کے کونے کھدروں میں ڈھونڈتے پھرے کہ نہ جانے مودی شاہ اینڈ کمپنی نے یا بابا رام دیو نے کہیں چھپا کے رکھ دیا ہے۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہمیں کہیں گئو ماتا کے پجاری ملے یا گئو متر پیتے بھکاری ۔ لیکن پونے پانچ سال تک کہیں بھی اچھے دن نظر نہ آئے۔ اس پر ہم نے کبھی مودی سرکار پر طعنہ کسا کبھی کنول برادری پہ طنز کیا کہ ایک طرف سرجیکل اسٹرایک کا شور ہے، دوسری طرف رام مندر کا زور ہے، یعنی کہیں چھکا تو کہیں فور ہے مگر اچھے دن سبھی جگہوں پر آوٹ آف ڈور ہیں ۔بھائی یہ اچھے دن کس جگہ جا چھپے ہیںکہ کسی کو نظر نہیں آ رہے ہم اسی اس گورکھ دھندے کوسمجھنے کی کوشش میں تھے کہ اب اپنے راج بھون مکین نے ستیہ پال کر جیتیہ بات بازار میں کہہ ڈالی ، یہ مسلٔہ حل کردیا کہ اچھے دن تو ملک کشمیر میں چوری چھپے کہیں اور کہیں دن دھاڑے گھس آئے ہیں۔یقین نہ آئے تو فٹ بال جیت دیکھو اور یوم جمہور کی جھانکی دیکھو ۔مطلب صاف ہے فٹ بال جیت اور جھانکی انعام کی چٹنی بناکر اچھے دن میں بدل ڈالی،یعنی اچھے دن دوسرے روپ دھارن کر کے گھس آئے تاکہ کسی کو پتہ بھی نہ چلے کیونکہ اچھے دن چوری ہونے کا بھی تو خطرہ رہتا ہے۔ اپنے یہاں تو بینائی چور ، موئے چو،رسینہ زور ہو کر گھوم رہے ہیں پھر بھلا اچھے دن چور کسی سے کیا ڈریں؟؟؟
کسی زمانے میں سات سمندر پار سے لوگ آکر وائسرائے ہند کہلاتے تھے مگر اپنے ستیہ مے و جیتے سات پہاڑ پار کر کے جو وائسرائے کشمیر بن کر وارد ہو ئے، کچھ تو گوروں کی ہی مانند سرکار چلاتے ہیںاور وہ جو بندوں کو گن کر اور قطبین کے ملاپ کے بعد جو سرکار بنی تھی، اس کے لئے ہوئے فیصلے بیک جنبش قلم رد کرتے جاتے ہیں تو بانوئے کشمیر تڑپ اٹھتی ہیں کہ ہماری کرسی کیا گئی ہمارے فیصلوں کی کوئی قدر وقیمت ہی نہیں،یعنی ہمارے قلم کو تو بس ناڑا ڈالنے کے کام ہی لایا جاتا ہے اور تو اور ہمارے دوات میں روشنائی نہیں رہی کیونکہ ہمارے وقت میں ہی آنکھوں میں بینائی نہ رہی ۔اب انہیں کون سمجھائے کہ جب سیاسی منڈلی میں اہل قلمدان کی کوئی کنڈلی ہی نہ رہی ، اب جب کہ کوئی ہمارے ستاروں کی گردش پر دھیان بھی نہیں دیتا تو بھلا راہو کیتو کو پوچھے تو پوچھے کون؟اسی لئے تو ان کے ممبران قانون سازیہ کو بھی جمہوری تماشے کا لطف لینے پہلی صف میں جگہ نہیں ملتی بلکہ بقول اہل کشمیر انہیں انتیس کے ساتھ چھوڑ دیا جاتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ وہ ایک سو انتیس کے درمیان میں بھی خود کو ایڈجسٹ نہیں کرپائے ۔ منہ چھپائے ، گردن جھکائے، ہولے سے، دھیرے سے گھر کی راہ لی کہ کوئی پہچان نہ پائے ۔ خود کلامی میں اس بات کا رونا رویا کہ اہل کشمیر کیا خوب کہتے ہیں کہ دم ہے تو نمسکار ہے اور یہ دم آج کل خود ستیہ ملک کے پاس ہے ، خم ان کے مشیران خاص کو راس ہے ، اور وردی پوشوں کے پاس دم، خم، بم سب کچھ ہے، بلکہ وہ تو ہر کسی کی کمر خم کردیتے ہیں اور بم کو نیلا پیلا کر کے رکھ دیتے ہیں۔اب تو سنا ہے کہ ان کے پاس کیمیائی بم بھی ہے جبھی تو وہ لاشوں کو بلا امتیاز کچھ اس طرح جلا دیتے ہیں کہ پہچان تک مشکل ہوتی ہے۔اس پر طرہ یہ کہ یہ سب کچھ ڈسپلن والے ضابط اخلاق کی پابندی کرنے والے فوجی کرتے ہیں ۔ اب بھلا یہ کون پوچھے کہ یہ کس قانون میں درج ہے کیونکہ ان کے گرد افسپا کا حصار ہے، طاقت کا خمار ہے، مودی و ملک کی سرکار ہے، صحافت کا مچھلی بازار ہے۔پھر بھلا اس شور شرابے میں کون طوطی کی آواز سنے گا ؟اس پر حد یہ کہ ستیہ ملک کو پھر بھی ملک کشمیر جہانگیر کے زمانے کی جنت بن جانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔کیا پتہ اس نے ملک کشمیر کو جہانگیری سمے والی جنت میں تبدیل کرنے کا ٹینڈر بھی نکلوایا ہو ۔جہانگیر جو خاندان مغل سے تعلق رکھتا تھا اور جس کے خاندان سے کنول بردار وں کا خدا واسطے کابیر ہے ،کیونکہ انہوں نے تعمیر و ترقی کی جب کہ انہیں گئو شالے بنانے تھے،تاج محل بنایا جسے دیکھنے اہل دنیا سفر کرتے ہیں اور بھارت ورش کی عزت بڑھتی ہے لیکن کنول والوں کو تو من بھاتا فقط گئو مُتُر سوجھتا ہے کیونکہ اسی کے سبب ان کے کینسر کا علاج ہوتا ہے ۔اور ستیہ ملک کی اس جنت میں ایک خاتون کو ذلیل کر کے ہسپتال سے باہر کیا جاتا ہے کہ وہ بیچ سڑک بچہ جنے مگر وہ بچہ ٹھٹھرتی سردی کا کہاں مقابلہ کر پاتا کہ دنیا کی روشنی دیکھنے سے پہلے ہی آنکھیں موندھ لیں۔نو زائد بچہ ہی کیوں ؟اس جنت میں تین سو کلو میٹر سڑک پر ہزاروں بوڑھے بچے ، مرد خواتین، لڑکے لڑکیاں سات روز تک بے یارو مدد گار کھلے آسمان تلے بھوکے پیاسے سردی سے تڑپتے رہیں اور ستیہ ملک کی انتظامیہ بس پریس نوٹوں کی جگالی کرتی رہی ۔یہ بھی اسی جنت کا ایک حصہ ہے کہ سینکڑوں درماندہ مسافر جامبو لوچن کے بس اسٹینڈ پر بھکاریوں کی طرح پڑے رہیں اور کوئی انہیں دیکھنے نہ آئے بلکہ چھوٹے ملازم دلاسہ دے کر چلے جائیں۔ اسی جنت میں وائسراے ستیہ بات یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ اپنے یہاں بڑے دفتر میں فائل ہلنے میں چار مہینے لگتے ہیں ۔ہم نے سنا تھا کہ Put up at Jammu ,Put up at Srinagar میں چھ چھ مہینے ہیںاور اسی جنت کی بلدیہ میں یہ نعرہ حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے کہ جس میونسپلٹی کو خون سے سینچا وہ بلدیہ ہمارا ہے ۔’’ تم مجھے خون دو میں تمہیں مئیر کی کرسی دوں گا‘‘ کی چھینا جھپٹی میں فارن پڑھامئیر اور نیرو مودی کے شاگرد کے بیچ میں گھمسان ہوتا ہے کہ ہسپتال کا بھی رُخ کرنا پڑتا ہے جبھی تو ہم سوچے تھے کہ بلدیہ کے حاکمان کو ہسپتالوں کی فکر کیوں کھائے جاتی ہے ؎
واہ بی میونسپلٹی جان کیا کہنا تیرا
اپنی خود داری کو کھو کر تجھ پہ جو شیدا ہوا
جس کا جی چاہے لڑ کے لے لے ممبری
آنکھ کیا، سر تیرا اور تومئیری پرفدا ہوا
ہسپتال ہی کیوں گنتن تر دِوَس بھی جبھی تو فارین میئر نے پہلی بار ترنگا ایسا لہرایا کہ کنول بردار مادھو کو رام رام کہنا پڑا کہ پہلی بار بلدیہ کے آنگن میں جھنڈا بھی لہرایا گیا اور ڈنڈا بھی ۔حالانکہ ماضی میں یہاں جھاڑو، پھاوڑے ہی چلے تھے اور اسی جنت میں بانوئے کشمیر کو وہ گوجر طبقہ یاد آتا ہے ،اُن پر ہو رہے ظلم کے سبب کچوکے لگتے ہیں ۔ان کی بے دخلی پر تڑپ اٹھتی ہے جن کے مکان بلڈوز کرنے میں قلمدان و کنول سرکار آگے آگے تھی،جن کی طرف سے مکان گرانے کی کاروائی کے دوران ایک شخص کو گولی بھی مار دی گئی مگر قلم دان والوں کے اس وقت ایک آنسو بھی نہ ٹپکا۔ کرسی کے باہر کا زمانہ اور ہے اور کرسی کے دورانیے میں حالات مختلف ہوتے ہیں۔
اور بانوئے کشمیر کا قلم دان ملک کشمیر کی تاریخ لکھنے میں ہی مشغول نہیں بلکہ اس قلم نے سرحد بھی پار کر ڈالی جبھی تو مملکت خداداد میں پہلی ہندو خاتون سمن کماری کے بحیثیت جج تقرری پر اس نے سراہنا کی۔ہو نہ ہو بانوئے کشمیر اب قلم دان کے لئے کمزور مستقبل دیکھتی ہے اس لئے کچھ ووٹ مملکت سے جوڑ کر گولی اور بولی کا تبادلہ کچھ ٹھیک ٹھاک کر پائے تاکہ مرد مومن کا خواب مکمل ہو ؎
کوئی مر نہیں جاتا کھو کے کرسی سیاست میں
ہاں مگر بات کہنے کا انداز بدل جاتا ہے
کس طرح بنا ڈالیں الُو ووٹروں کو
ہاں یہ پوشیدہ راز بدل جاتا ہے
رابط ([email protected]/9419009169)